سال 2014 ء ا پنے اختتام کی جانب گامزن ہے۔ چند دن کے بعد نئے سال کا سورج طلوع ہو جائے گا۔ ہم میں سے بیشتر افراد نئے سال کیلئے نئے نئے منصوبے باندھیں گے۔ ایک نئے عزم ، امید وار ولولے کیساتھ ان منصوبوں کی تکمیل میں جت جائیںگے۔ نیا سال بہرحال ایک نئے آغازاور امید کا استعارہ ہوتا ہے۔ تاہم خیال آتا ہے کہ کیا نیا سال اسرائیلی مظالم کے شکار فلسطینیوں کیلئے بھی امید کا کوئی پیغام لاسکے گا؟ فی الحال تو غزہ میں موت کا رقص جاری ہے۔ ہر طرف قبریں ہی قبریں موجود ہیں۔اسلامی ممالک کے مطالبے اوراقوام متحدہ کی قراردادوں کے باوجود، جنگ بندی کی کوئی امید ، کوئی امکان نظر نہیں آرہا۔ غزہ میں بسنے والے شہری نہایت قابل رحم حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ انہیں بمباری کا سامنا ہے۔ انہیں خوراک دستیاب نہیں ہے۔ انہیں علاج معالجے کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ ان کے گھر ملبے کا ڈھیر بن گئے ہیں۔ ان کے بچے محفوظ نہیں ہیں۔ غزہ ۔اسرائیل جنگ کو تقریبا ً14 مہینے ہو گئے ہیں۔ اس عرصے میں 44,875 فلسطینی شہری شہید ہو چکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں بتاتی ہیں کہ یہ اعداد و شمار نامکمل ہیں۔ وجہ یہ کہ ہزاروں فلسطینی لاپتہ ہیں ۔ یہ وہ شہری ہیں جو ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔ معلوم نہیں کہ ان میں سے کوئی زندہ بھی بچ سکے گا یا نہیں۔
آج کی مہذب دنیا نے جنگوں کے ضمن میں بھی کچھ اخلاقی ضابطے وضع کر رکھے ہیں۔ کچھ لگے بندھے اخلاقی ضابطے تو خیر ہزاروں برس پہلے بھی موجود تھے۔ مثال کے طور پر جنگ کے دوران نہتی خواتین، معصوم بچوں اور لاچار بوڑھوں کو نشانہ بنانے سے گریز کیا جاتا تھا۔ ہسپتالوں یا شفا خانوں کو جنگ کے دوران بھی تحفظ حاصل ہوا کرتا۔ تاہم گزشتہ چودہ ماہ سے غزہ کے علاقوں پر اندھا دھندبم برس رہے ہیں۔ اسرائیل بمباری کے دوران کسی اخلاقی تقاضے کو ملحوظ نہیں رکھ رہا۔اقوام متحدہ کے اعداد وشمار کے مطابق جاں بحق ہونے والے 44 ہزار 8 سو 75 فلسطینی شہریوں میں 70 فیصد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ مرنے والوں میں ایک دن کا نومولود بچہ بھی شامل ہے اور 97 سالہ بڑھیا بھی۔ ماہرین او ر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل ایک منصوبے کے تحت تاک تاک کر رہائشی علاقوں کو نشانہ بناتا ہے۔ بچوں اور خواتین کو ختم کر نا اس کے نسل کشی منصوبے کا حصہ ہے۔
اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں زخمی ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد 1 لاکھ 6 ہزار 4 سو 54 تک پہنچ گئی ہیں۔ اسرائیل کی کوشش ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائے کہ یہ زخمی شہری علاج معالجے سے محروم رہیں۔ اس مقصد کے حصول کیلئے یہ ہسپتالوں اور میڈیکل سنٹروں پر بمباری کر کے انہیں ملبے کا ڈھیر بنارہا ہے۔ یہ مریضوں کو لے جاتی ایمبولینسوں پر بم پھینکتا ہے۔ یہ خوراک کیساتھ ساتھ ادویات کی ترسیل میں بھی رکاوٹ ڈالتا ہے۔ جب سے یہ جنگ جاری ہے تقریباً 1057 ہیلتھ ورکر اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ یہ تمام اعداد وشمار ایک بھی دن کے لئے منجمد نہیں ہوتے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ جب میں یہ سطریں لکھ رہی ہوں تو مزید ہلاکتوں کی خبریں آئی ہیں۔ میڈیا کے ایک نمائندے کی ہلاکت کی بھی اطلاع ہے۔ اس ایک اضافے کے بعد صحافتی نمائندوں کی ہلاکتوں کی تعداد 195 ہو گئی ہے۔
دو دن پہلے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین میں فوری اور غیر مشروط جنگ بندی کی ایک قرار داد منظور کی ہے۔ یہ قرارداد بھاری بھرکم اکثریت کے ساتھ منظور ہوئی ۔ 193 میں سے 158 ممالک نے قرار داد کے حق میں ووٹ دیا اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا۔ تاہم اسرائیل کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ اسرائیل کی ڈھٹائی دیکھئے کہ اس نے فلسطینیوں کی امداد کے لئے مخصوص اقوام متحدہ کی ایجنسی پر پابندی عائد کرنے کا قانون منظور کر لیاہے۔ اقوام متحدہ نے اس پابندی کو ہٹانے کے لئے بھی ایک قرار داد بھاری بھرکم اکثریت سے منظور کی ہے۔ تاہم فی الحال اسرائیل اپنی ڈھٹائی اور بے حسی پر قائم ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر دنیا کے 158 ممالک کی حمایت بھی اسرائیل کا جنگی جنون کم کرنے میں کامیاب نہیںہو سکی تو پھر غزہ میں جنگ بندی کیسے ممکن ہو سکے گی؟؟یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا آج کی دنیا میں جس کی لاٹھی ، اس کی بھینس کا اصول کار فرما ہے؟ کیا اسرائیل اس قدر طاقت ور ہے کہ وہ ہرقانون، ہر ضابطے سے بالاتر ہے؟ اس پہلو پر بھی غور ہونا چاہیے کہ کیا اسلامی ممالک اس قدر بے بس ہیں کہ وہ مل کر بھی کسی ظالم کا ہاتھ روکنے سے قاصر ہیں؟ کیا ہم عملی طور پر کچھ کرنے کے بجائے ، بس دعا ہی کر سکتے ہیں کہ اللہ پاک فلسطینی مسلمانوں کی مدد فرمائے؟
غزہ میں جاری جنگ کے قصے میںہم پاکستانیوں کے لئے کچھ سبق پوشیدہ ہیں۔ ہمارے کچھ نام نہاد دانشور اس بات کا پرچار کرتے ہیں کہ پاکستان کا قیام بے مقصد تھا۔ یہ جعلی دانشور فقط ایک مخصوص طبقے کی داد یا پھر امداد سمیٹنے کے لئے پاکستان کو برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ سیاست میں بھی ایک طبقہ ایسا ہے جو محض سیاسی مفادات کی خاطر نوجوان نسل کو اپنے ہی وطن سے متنفر اور مایوس کرنے کے مشن پر گامزن ہے۔ہماری نوجوان نسل کو فلسطینیوں کی لاچاری اور بے بسی کی داستان پر تحقیق کرنی چاہیے۔ فلسطینیوں کے حالات زندگی دیکھتے ہوئے اپنے رب کا شکر کرنا چاہیے، جس نے ہمیں آزادی جیسی نعمت عطا کی ہے۔ اس ملک میں لاکھ خرابیاں سہی، تاہم اللہ کے فضل و کرم سے ہم ایک آزاد ملک کے شہری ہیں۔ ہمیں کسی دشمن کی بمباری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔محدود ہی سہی، ہمیں تعلیم، صحت، علاج معالجے کی سہولیات میسر ہیں۔ غزہ کو دیکھیں جو ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے۔ جہاں روزانہ خواتین کے سہاگ لٹ رہے ہیں۔ بچے یتیم ،مسکین ہو رہے ہیں۔ ہمارے بچوں کو ایک ذرا سی خراش بھی آ جائے ، تو ہمارا دل دہل جاتا ہے۔ غزہ کی ماؤں کے کرب کا اندازہ کیجئے جنہیں ہر روز اپنے بچوں کی مٹی اور خون میں لتھڑی لاشیں اٹھا نا اور دفنانا پڑتی ہیں۔ایسے بھی بچے ہیں جو بھوک سے نڈھال ہو کر موت کے منہ میں پہنچ جاتے ہیں۔ فلسطین کے ساتھ ساتھ کشمیرکے حالات بھی ہمارے پیش نظر رہنے چاہئیں۔ دعا ہے کہ اللہ پاک فلسطینی اور کشمیری مسلمانوں کو آزادی کی نعمت عطا فرمائے۔ اللہ پاک ہم پاکستانیوں کو بھی آزادی کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔
تبصرے بند ہیں.