ناصر کھوسہ جیسا شاندار اور نیک نام بیوروکریٹ بننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ،ایں سعادت بزور بازو نیست تا نہ بخشند خدائے بخشندہ اور نہ ہی میجر اعظم سلیمان جیسا جگر کسی افسر کے پاس ہوتا ہے کہ چیف سیکرٹری اپنے چیف منسٹر کی میرٹ کے خلاف کسی بات پر کان ہی نہ دھرے ، میں نے بیسیوں اچھے اور رولز پر چلنے والے اعلیٰ افسروں کو ماضی میں اور اب بھی اچھی پوسٹوں سے چپکے رہنے کے لئے سیاسی آقاؤں کی منشا کے مطابق راستے تلاش کرتے دیکھا ہے، حیرت ہوتی ہے مگر وہ اسے مینجمنٹ قرار دیتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ چیف سیکرٹری یا اچھے محکمے کا وفاقی سیکرٹری بننے اور رہنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں،جس تن لاگے وہ ہی جانے ۔ ناصر کھوسہ بحیثیت چیف سیکرٹری پنجاب اکثر اوقات شہباز شریف کو طریقے سے انکار کر دیتے تھے ، وہ ایوان وزیر اعلیٰ کے کاموں میں دخل اندازی کرتے تھے نہ سیاسی ٹائپ اجلاسوں میں جاتے تھے،ان کے پیش رو مرحوم جاوید محمود نے پنجاب میں گورننس کا بھٹہ بٹھا دیا تھا مگر ناصر کھوسہ نے اپنی سمجھ بوجھ،اہلیت اور محنت سے ایک بہترین معیار سیٹ کر دیا اور کسی کو ناراض کئے بغیر میرٹ کا بول بالا کیا۔میجر اعظم سلیمان نے صرف پانچ ماہ کی چیف سیکرٹری شپ کے دوران کورونا اور عثمان بزدار جیسے ماحول میں گورننس اور معیشت کو صوبے میں سیدھے راستے پر ڈال دیا۔ پرویز مسعود اور مرحوم اے زیڈ کے شیر دل نے موجودہ وزیر اعظم کی وزارت اعلیٰ میں چیف سیکرٹری پنجاب کے طور پر کام کیا اور تاریخ رقم کی ،یہ وہ افسران تھے جو حکمران کو حکمرانی کے اصول سمجھاتے تھے، سلمان صدیق،نوید اکرم چیمہ،خضر گوندل کام کرنے والے ،ملنسار افسر تھے ، کامران علی افضل بہت محنتی تھے مگر انہیں کئی کشتیوں کا مسافر بننا پڑا۔
ان دنوں ہمارے پنجاب اور وفاق کے بہت سارے اعلیٰ افسران خبروں اور تصویروں میں ہیں،کچھ کے لانگ کوٹ ، کچھ کی واسکٹس ، شیروانیاں،ٹائیاں اور کچھ کے کام زیر بحث ہیں۔وقت اور حالات میں بیوروکریسی کے کام کی نوعیت ضرور بدل جاتی ہے مگرقانون، ضابطے،میرٹ تو اٹل ہوتا ہے،شہباز شریف پنجاب میں اکثر افسروں کو لفٹ کراتے نہ ان کی عزت کرتے بلکہ وقت بے وقت بے عزت کرتے اور جو اس بے عزتی کو برداشت کر جاتا اسکی بے عزتی میں اضافہ کرتے جاتے ،انہیں اپنے علاوہ کچھ نظر ہی نہیںآتا تھا ، اب مریم نواز شریف کا اپنا سٹائل ہے یہ بیوروکریسی کو عزت دے رہی ہیںتو بیوروکریٹس بھی ان کے ساتھ اچھے انداز میں چل رہے ہیں، پنجاب میں چیف سیکرٹری زاہد زمان کی قیادت میں مجموعی طور پر ایک اچھی ٹیم کام کر رہی ہے ،آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا؟
ایک وقت تھا ،ہر کسی کی نظر میں ملکی اور قومی تباہی کی ذمہ دار بیوروکریسی تھی ،پھر معلوم ہوا بیوروکریسی کو غیر قانونی اقدامات پرسیاستدانوں نے مائل کیا،کچھ دور اور چلے تو سراغ ملا ججوں کا بھی اس صورتحال میں کردار ہے،اب آگے بڑھے تو سراغ ملا عسکری ادارہ کے کچھ لوگ بھی ذمہ دار ہیں،نتیجے میں تنقید کا سلسلہ بھی دراز ہوتا گیا اور بات انتظامیہ اور بیوروکریسی کی حدود سے نکل کر کو بکو پھیل گئی ،موضوع سخن بیوروکریسی ہے کہ ریاست کے تین ستونوں میں سے ایک اور واحد ریاستی ادارہ ہے جس کا وزیر اعظم سے لیکر عام شہری تک کسی نہ کسی حوالے سے رابطہ ہے،یہ بیوروکریسی ہی ہے جو حکومتی فیصلوں اور پالیسیوں پر عملدرآمد کرانے کی ذمہ دار ہے چاہے تو کامیاب کرا دے اور نہ چاہے تو ناکامی مقدر بنا دے،یہ بیوروکریسی ہے جو عدالتی احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بناتی ہے،یہ بیوروکریسی ہی ہے جو مقننہ کی قانون سازی کو عملی طور پر نافذ کراتی ہے،ذمہ داری کے تناسب سے اہمیت کا تعین کیا جائے تو ریاست کے باقی دو اداروں پر بیوروکریسی کو فوقیت حاصل ہے،مگر بیوروکریٹ ہمیشہ سے ہی باقی ریاستی اداروں کا ما تحت بلکہ حکمرانوں کا ذاتی ملازم بنا دیا گیا ہے ،کبھی سیاستدانوں کے حکم کا پابند اور کبھی عدلیہ کے زیر نگین،کبھی فوجی حکمرانوں کا تابع،ہر کسی نے بیوروکریسی سے نتائج مانگے مگر انہیں اختیار دیا نہ سہولیات،بس رات کو گھر یا دن میںآفس بلا کر حکم صادر کر دیا اور ’’الہ دین کا چراغ ‘‘ہاتھ میں دئیے بغیر نتائج کی توقع باندھ لی،کبھی کسی نے بیوروکریسی اور انتظامیہ کو ریاستی ملازم کا درجہ نہیں دیا،مگر ہر کسی نے انہی سے امید باندھی اور انہی کے کندھوں پر ذمہ داری کا بوجھ بھی ڈالا،لیکن مداخلت جاری رکھی،نتیجے میں غلط پر غلط کی تھاپ لگتی گئی اور پھر کایا ہی پلٹ گئی۔
انتظامی بیوروکریسی ریاستی ادارہ ہے جس میں ایک افسر مطلوبہ تعلیمی معیار کے بعد ایک سخت امتحان سے گزر کرآتا ہے،ملازمت جاری کرنے سے پہلے ریاست سے وفاداری کا حلف اٹھاتا ہے،لیکن جب عملی میدان میںآتا ہے تو اس سے ریاست کے بجائے حکومت کی وفاداری کا تقاضا کیا جاتا ہے،جو افسر انکار کر دے وہ ’’پرسونا نان گریٹا‘‘قرار دے دیا جاتا ہے،جو حکم حاکم پر سر جھکا دے اسے نواز دو کیآواز سنائی جاتی ہے مگر ملک کو نواز دو کی بات کسی نے سنی ہی نہیں۔سوچنے والی بات ہے کہ اگر بیوروکریسی کس قانون و ضابطے کی پابند نہ ہوتی ،اس میں نابغہ روزگار،آئین کے پابند،قانون کی عملداری چاہنے والے افسر نہ ہوتے تو کیا کیا اتنا بڑا ریاستی ادارہ اپنا وجود برقرار رکھ سکتا تھا؟اگربیوروکریسی حکمرانوں کیآگے ڈھال نہ ہوتی توکیا کوئی حکمران عوام کے غیض وغضب سے سکتا تھا؟
بیوروکریسی دراصل حکومت اور عوام ،دیگر ریاستی اداروں میں پل اور رابطہ کا مؤثر ذریعہ معتبر راستہ ہے،اس پر اعتماد کر کے اسے اختیار دے کرہی نتائج حاصل کئے جاسکتے ہیں،سیاستدانوں کے کھونٹے سے باندھ کر یا حکمرانوں کا گھریلو ملازم بنا کر بیوروکریسی سے نتائج نہیں حاصل کئے جا سکتے، اگر ہر کام قانون کے دائرے میں رہ کر انجام دیا جائے تو کسی حکمران کے ماتھے پر بل آئیں نہ کسی بیوروکریٹ کی پیشانی عرق آلود ہو،بیوروکریسی نا اہل ہوتی توآزادی کے فوری بعد ملک عزیز ترقی و خوشحالی کی ڈگر پر نہ چل پاتا،مگر تاریخ گواہ ہے کہ وطن عزیز کی ترقی پر ایک دنیا انگشت بدنداں تھی،اور اس کی وجہ بیوروکریسی تھی،آزادی کے بعد ملک میں لاتعداد نئے ادارے تشکیل پائے تو یہ بیوروکریسی کے ہی رہین منت ہیں،بیوروکریسی کا ہی کمال ہے کہ اس نے دستیاب وسائل میں رہتے ہوئے نظام کی آسانی اور ترقی کی رفتار تیز کرنے کیلئے ہر دور میں نئے اداروں اور محکموں کی بنیاد رکھی،ہر حکمران کی ترقی اور خوشحالی کی طرف بڑھنے کیلئے رہنمائی کی،بیوروکریسی اگر نا اہل ہوتی تو حکمران ریٹائرمنٹ کے بعد بھی بیوروکریٹس کے تجربے سے مستفید ہونے کیلئے انہیں مستقل ساتھ نہ رکھتے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ بیوروکریٹس بھی اپنا منصب پہچانیں اور حکمران بھی انہیںآئینی حدود میں رہ کر کام کرنے کی آزادی دیں،انہیں با اختیار کریں،حکومتی جماعت کی محتاجی سے نکالیں،پھر دیکھیں فائلوں کو بھی پہئے لگ جائیں گے اور تمام حکومتی امور بھی بلا تعطل انجام پائیںگے۔
تبصرے بند ہیں.