قارئین! یوں تو ہمارے ہاں ایک سے بڑھ کر ایک فلم ہے لیکن یہ طے ہے کہ فلم بنانا ہرگز بچوں کا کھیل نہیں ہے بالخصوص ایک طویل عرصے سے بہت بڑے بینر تلے جیسی سپر ہٹ فلمیں ہمارے ہاں بنتی ہیں۔ جاندار سکرپٹ، شاندار سکرین پلے اور منجھے ہوئے اداکاروں کے ساتھ زبردست پروڈکشن سے سجی ایک سے ایک بڑھیا فلم اس فلم کمپنی کے ہنر مندوں کی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ناقدینِ فن اس کا سبب یہ بتاتے ہیں کہ کمپنی بہادر کسی بھی پراجیکٹ پر کام فلم بینوں کے ذوق کو مدِ نظر رکھ کر کرتی ہے اور اگر کبھی کبھار انہیں کسی ایسے سکرپٹ پر کام کرنا پڑ جائے جو فلم بینوں کے ذوق سے مطابقت نہ رکھتا ہو تو ایسی صورت میں ایڈوانس پبلسٹی کے ذریعے بڑی مہارت سے فلم بینوں میں سکرپٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق ذوق پیدا کر دیا جاتا ہے۔ فلم میں ہیرو کسے بنانا ہے اور پھر ہیرو کو زیرو کیسے کرنا ہے، وِلن کی انٹری کب ہو گی وہ ہیرو سے کب، کہاں اور کتنی بار پٹے گا، کہانی کے کس موڑ پر ہیرو ذلیل و رسوا ہو گا، ظالم سماج ہیرو کی راہ میں کیا کیا روڑے اٹکائے گا اور پھر کن شرائط پر ہیرو کی جان خلاصی ہو گی، ہیروئن گانے کس کے ساتھ گائے گی اور اسکی شادی کس سے ہو گی، آئٹم سانگ میں کتنا مسالہ ڈالنا ہے اور اسے کس اداکارہ پر فلمایا جائیگا۔ یہ وہ نکتے ہیں جن پر کمپنی بہادر کے ہنر مند فلم بنانے سے پہلے مہینوں غور کرتے ہیں۔ اگر آپ ہارر اور ایڈونچرس انگریزی فلمیں دیکھنے کے شوقین ہیں تو آپ نے یقینا انگریزی فلم ’’ممی‘‘ دیکھی ہو گی اور اسکے بعدآپ نے اس کا دوسرا پارٹ ’’ممی ریٹرن‘‘ بھی ضرور دیکھا ہو گا۔ فلم کی کہانی فرعون دور کی ایک ممی یعنی بلا کے گرد گھومتی ہے جسے فلم کا ہیرو فلم کے حصہ اول یعنی پارٹ ون میں دفن کر دیتا ہے مگر وہ ممی فلم کے دوسرے حصے یعنی ممی ریٹرن میں دوبارہ زندہ ہو جاتی ہے۔ گذشتہ دورِ حکومت میں ایسی ہی ایک فلاپ فلم ڈیڈی میں ممی کا مرکزی کردار ادا کرنیوالے اداکار کی مزاحیہ پرفارمنس سے لوگ خاصے محظوظ ہوئے تھے۔ میں نے ایک پرستار سے اس فنکار کی پسندیدگی کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا فلموں میں کام کرنے والے دیگر فنکاروں کے برعکس آپ واحد ایسے فنکار ہیں جو خود بھی بہت بڑی فلم ہیں۔ انکو اپنی فلموں میں لگاتار کاسٹ کرنے کے حوالے سے جب اسی طرح کا سوال میں نے ایک فلم ڈائریکٹر سے پوچھا تو انہوں نے بتایا انہیں اپنی فلموں میں کاسٹ کرنے کے بے شمار فائدے ہیں مثلاً ایک تو یہ انتہائی سستے ہیں۔ میں نے بات کاٹ کر پوچھا سستے ہیں یا سستے پڑتے ہیں؟۔ کہنے لگے دونوں ہی صورتیں ہیں سستے بھی ہیں اور سستے پڑتے بھی ہیں۔ میں نے کہا سستے کیسے پڑتے ہیں؟۔ وہ فلم ڈائریکٹر کہنے لگے وہ یوں کہ ان کو سین کے مطابق ڈرائونی یا خوفناک شکل دینے کیلئے میک اپ نہیں کرنا پڑتا یہ چہرے کے تاثرات سے ہی اپنی شکل کو اچھا خاصا خوفناک بنا لیتے ہیں، رنگیلا مرحوم کی طرح فلم میں مزاحیہ سچوئیشن اپنی حرکات و سکنات سے خود پیدا کر لیتے ہیں اس کیلئے ان کو الگ سے کوئی سکرپٹ نہیں دینا پڑتا جبکہ یہ فلم میں کام کرنے کا لمبا چوڑا معاوضہ بھی نہیں لیتے۔ میں نے حیران ہو کر پوچھا آپ دیتے تھوڑا ہیں یا وہ مانگتے ہی تھوڑا ہیں؟۔ ڈائریکٹر صاحب کہنے لگے ڈیمانڈ تو ان کی خاصی بڑی ہوتی ہے لیکن آخر میں یہ دو وقت کی روٹی پر مان جاتے ہیں۔ میں نے کہا ڈائریکٹر صاحب ہمارے ملک میں ایک سے ایک منجھا ہوا اداکار ہے اور وہ آپ کی فلموں میں کام بھی کرنا چاہتے ہیں پھر آپ اس کی جگہ کسی نئے اداکار کو موقع کیوں نہیں دیتے۔ ڈائریکٹر صاحب کہنے لگے اس کی وجہ اس کے جنونی پرستار ہیں جو دل و جان سے اس کی اداکاری پر فدا ہیں پتا نہیں اس نے ان پر کیا جادو کیا ہوا ہے وہ اس کی فلاپ ترین فلم کو بھی ہٹ کرا دیتے ہیں۔ دوسری خوبی اس کی یہ ہے کہ یہ نہ صرف ہمار ے اشاروں کو اچھی طرح سمجھتا ہے بلکہ کسی پتلی کی طرح ان پر ناچتا بھی ہے اور ہماری مرضی کے بغیر کسی بے جان کٹھ پتلی کی طرح ہی ایسے خاموش پڑا رہتا ہے جیسے مر گیا ہو۔ ورنہ تو ہمارے پاس اپنی کمپنی کا ایک وِگ والا اداکار بھی ہے مگر بدقسمتی سے اس کے پرستار بہت کم ہیں حالانکہ وہ اداکار بہت زبردست ہے۔
تبصرے بند ہیں.