بلوچستان میں مثالی ترقیاتی منصوبے

38

گذشتہ ماہ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی اور خصوصی اقدامات احسن اقبال کی زیر صدارت پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) منصوبوں پر جائزہ کا اجلاس ہوا، جس میں فیصلہ کیا گیا کہ بلوچستان میں 400 ارب روپے کے ترقیاتی منصوبے 3 سال میں مکمل کیے جائیں گے۔ صوبے کی سڑکات بروقت مکمل کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ 80 فیصد مکمل منصوبوں کو فوری فنڈز فراہم کر کے جلد پایہ تکمیل تک پہنچایا جا رہا ہے، بیرونی امداد سے جاری منصوبے جلد مکمل کیے جا رہے ہیں تا کہ نئے منصوبے شروع کیے جا سکیں۔ حکومت پاکستان نے بلوچستان میں محرومیوں کے خاتمے کے لیے مختلف شعبہ جات میں جامع حکمت عملی کے تحت تیزی سے کام کیا اور آج بلوچستان ملکی ترقی میں خاص اہمیت کا حامل ہے۔ بلوچستان کا شمار ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں ایک پسماندہ صوبہ کے طور پر کیا جاتا تھا لیکن اب خصوصی طور پر ویژن بلوچستان 2030ء کے تحت کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔ خوشحال بلوچستان کے اس پروگرام کے تحت صوبہ بھر میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا گیا ہے جس کا مقصد صرف مستحکم بلوچستان ہے۔ آج ویژن بلوچستان 2030ء کی بنیاد پر صوبے پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ واقعی بلوچستان ترقی کی جانب تیزی سے گامزن ہے، بلوچستان میں جاری منصوبے کے تحت کیمونیکشن انفراسٹر کچر، ڈیموں کی تعمیر، پانی کی قلت کو دور کرنے سمیت دیگر منصوبوں پر کام جاری ہے۔ پروگرام کے تحت طبی حوالے سے کوئٹہ میں سٹیٹ آف دی آرٹ کارڈیک سنٹر، گوادر ہسپتال، آواران، ژوب، خضدار اور پنجگور میں صحت عامہ کی بہترین سہولیات ان تمام منصوبوں میں سرفہرست ہیں۔ بلوچستان میں تعلیم، صحت اور ہنر پر خصوصی طور پر توجہ دی جا رہی ہے۔ حکومت کی بیرونی سرمایہ کاری کے لیے تشکیل کردہ The Special Investment Facilitation Council ایس آئی ایف سی کی معاونت سے 2024ء میں بین الاقوامی گریجویٹ ڈویلیمنٹ پر وگرام کے تحت کے دوسرے مرحلے کے لیے ریکوڈک مائننگ کمپنی کے دو سالہ آن جاب ٹریننگ پروگرام کے لیے بلوچستان سے 18 گریجوٹیس کا انتخاب کیا گیا ہے۔ ان میں 4 خواتین بھی شامل ہیں۔ اس پروگرام کے تحت منتخب ہونے والے بلوچ طلبا کو ارجنٹینا اور زیمبیاد میں ریکوڈک مائننگ کمپنی کی بنیادی کمپنی بیرگ گولڈ کے ذریعے چلائی جانے والی کانوں میں تربیت دی جائے گی۔ دوسری طرف 30 ہزار با ہمت با صلاحیت اور ہنر مند بلوچ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کی غرض سے بیرون ممالک بجھوانے کے لیے جرمنی، رومانیہ اور سعودی عرب سے معاملات طے پا چکے ہیں اور بلوچستان ٹیکنیکل ایجوکیشن اینڈ ووکیشنل ٹریننگ اتھارٹی (BTEVTA) کی جانب سے اس پر کام شروع کر دیا گیا ہے۔ پہلے مرحملے میں 6 ہزار نوجوانوں کی درخواستیں موصول ہوئیں جن کی سکریننگ کے بعد تربیت کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ منتخب امیدواروں کو سعودی عرب اور رومانیہ تعمیرات کے شعبہ میں کام کے لیے بجھوایا جا رہا ہے جبکہ جرمنی کے لیے منتخب نوجوانوں کو صحت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی (آئی ٹی) کے شعبوں میں ملازمتیں ملیں گی۔ اس پروگرام سے بلوچ نوجوانوں کو عالمی سطح پر روزگار کے مواقع ملنے سے بے روزگاری کی شرح میں واضح کمی کے ساتھ معیشت بہتر ہو گی، جس سے خوشحالی آئے گی۔ ریاست کی جانب سے تعلیم یافتہ بلوچ نوجوانوں کے لیے ’’پاک چائنہ ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل انسی ٹیوٹ گوادر‘‘ کی تعمیر کسی نعمت سے کم نہیں جہاں سے ہزاروں نوجوان ہنر سیکھ کر زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ تعلیم اور ہنر دو ایسی چیزیں ہیں جن کا تعلق انسانی عقل سے ہے۔ تعلیم یعنی علم کا حصول ایک خداداد نعمت اور ایسی دولت ہے جو بھٹکے ہوئے انسانوں کو راہ راست پر لے آتی ہے جبکہ ٹیکنیکل ایجوکیشن کسی بھی معاشرے کے تعلیمی اور نتیجتاً معاشی استحکام کی ضامن ہوتی ہے۔ شعبہ تعلیم کے حوالے سے اس وقت بلوچستان، صرف مکران میں پاکستان کی بہترین یونیورسٹیاں موجود ہیں جن میں یونیورسٹی آف مکران، پنجگور، یونیورسٹی آف گوادر، یونیورسٹی آف تربت، لاء کالج اور مکران میڈیکل کالج کے علاوہ کیڈٹ کالج خاران، کیڈٹ کالج پنجگور اور بلوچستان کا پہلا گرلز کیڈٹ کالج تربت شامل ہیں جو ہماری نئی نسل کو بہترین تعلیمی و فنی سہولیات فراہم کر رہے ہیں۔ ریاست شاہرات پر بھی خصوصی توجہ دے رہی ہے، مکران کوسٹل ہائی وے، جس کی لمبائی 653 کلومیٹر ہے، گوادر کو کراچی سے پسنی، اورماڑہ، لسبیلہ کے ذریعے ملاتی ہے اور بحیرہ عرب سے ایران اور وسطی ایشیا تک رسائی فراہم کرتی ہے۔ اس کا شمار نہ صرف پاکستان کی خوبصورت شاہراہوں میں ہوتا ہے بلکہ علاقے کی ترقی میں اس کا کلیدی کردار ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے والا موٹروے M-8 (گوادر، راتو ڈیرو) 892 کلومیٹر طویل موٹر وے، جو گوادر کو صوبہ سندھ سے سکھر تک تربت، ہوشاب، آواران اور خضدار کے راستے کو ملاتی ہے۔ اس کا ہوشاب سے پنجگور، بیسیمہ اور سوراب تک کا سیکشن، جو سی پیک روٹ کا حصہ ہے، مکمل ہو چکا ہے اور 146 کلومیٹر طویل ہوشاب ۔ آواران سیکشن پر بھی کام جاری ہے۔ شعبہ زراعت کے حوالے سے گرین پاکستان انیشیٹو پروگرام کے تحت تقریباً بارہ ہزار ایکڑ زمین کو قابل کاشت اور پیداوار بڑھانے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لیے حکومت پاکستان کی طرف سے خطیر رقم کسانوں میں تقسیم کی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ بڑے منصوبوں میں میرانی ڈیم اور مختلف چھوٹے بڑے ڈیم موجود ہیں جو زرعی زمینوں کو پانی فراہم کر رہے ہیں اور ڈیٹ پراسسنگ پلانٹ پنجگور جیسے بڑے منصوبے شامل ہیں۔ یہاں کی کپاس اور پنجگور کی مخصوص مضافاتی کھجور دنیا بھر میں اپنے ذائقے کے اعتبار سے منفرد ہے اور ڈیٹ پراسسنگ پلانٹ کی وجہ سے یہ کھجور آج پورے پاکستان میں ناصرف بھیجی جا رہی ہے بلکہ اس کے ذریعے لوگوں کا ذریعہ معاش اور اپنے ہی علاقے میں اچھے اور منافع بخش دام پر بیچنے کے مواقع فراہم کر رہا ہے۔ بیرونی ممالک کی شراکت داری سے بلوچستان میں تیزی سے پایہ تکمیل تک پہنچنے والے ترقیاقی منصوبے، ان ملک دشمن عناصر جو بلوچستان کی پسماندگی اور محرومیوں کا رونا رو کر ریاستی ناانصافیوں کی جھوٹی اور من گھڑت کہانیاں سنا کر بلوچ عوام خصوصاً تعلیم یافتہ نوجوانوں کو گمراہ کر کے ریاست کے خلاف بغاوت پر اکسا رہے ہیں، کے منہ پر زور دار طمانچہ ہیں۔ واضح رہے کہ بلوچستان میں جب سے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) جیسے بڑے ترقیاتی منصوبوں کا آغاز ہوا ہے، کوسٹل ہائی وے بنی ہے، تب سے ملک دشمن عناصر کی ریشہ دوانیوں میں شدت آئی ہے، نئی نسل کے سامنے تاریخی حقائق کو مسخ کر کے پیش کیا گیا، مگر وقت کے ساتھ ساتھ ملک دشمن عناصر کا ایجنڈا کھل کر سامنے آنے کی وجہ سے بلوچستان میں بلوچ قوم کو گمراہ کرنے والی قوتیں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.