14 دسمبر 2024 کو مری کے علاقے لوئر ٹوپہ میں عوامی مسائل پر بات کرنے کے لیے ایک عوامی جرگہ منعقد ہوا، مگر بدقسمی سے یہ جرگہ جسے منعقد تو عام عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے کیا گیا تھا مختلف سیاسی جماعتوں، تاجروں اور مقامی شخصیات کے اختلافات اور الزامات کی نذر ہو گیا۔ جرگہ ایک قدیم روایت ہے جو اجتماعی مسائل کے حل کے لیے ایک ذریعہ رہا ہے، مگر جب یہ روایت مختلف مقاصد کے لیے استعمال کی جانے لگے، تو اس کے اثرات مثبت کے بجائے منفی زیادہ ہوتے ہیں۔ اس جرگے نے نہ صرف عوامی مسائل اجاگر کرنے میں ناکامی دکھائی بلکہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم بن گیا جہاں سیاسی جماعتوں اور با اثر تاجروں نے اپنے ذاتی مفاد کو اولیت دی۔ یوں تو اس جرگے کا بنیادی مقصد پنجاب حکومت کے متعارف کردہ ’مری ڈویلپمنٹ پلان‘ جس کا مقصد غیر قانونی تعمیرات کا خاتمہ اور علاقے کی سیاحت کو بہتر بنانا ہے کے خلاف احتجاج کرنا تھا، لیکن یہ جرگہ اہلیانِ مری کے مفادات کو بھلاتے ہوئے سیاسی ہنگامہ آرائی کا میدان بن گیا۔ بظاہر تو اس جرگے کا مقصد یہاں کے عوام کے تحفظات اور مری کی ترقیاتی پالیسیوں پر نظرِ ثانی اور مقامی لوگوں کی رائے کو شامل کرنا تھا۔ اس جرگے میں شامل مختلف سیاسی جماعتوں سے وابستہ شخصیات نے حکومت کے خلاف شدید بیانات دئیے، جبکہ مسلم لیگ ن نے جرگے کا بائیکاٹ کرتے ہوئے حکومت کے اقدامات کی حمایت کا اعلان کیا اور اس جرگے کو ترقیاتی منصوبوں کے خلاف ’سیاسی سازش‘ قرار دیا۔ ملک کے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی اور دیگر رہنمائوں نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ مری کے عوام کو اعتماد میں لیے بغیر ان کے مستقبل کے فیصلے لے رہی ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا واقعی یہ جرگہ عوام کے مسائل کے حل کے لیے منعقد کیا گیا تھا یا پھر ذاتی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے اسے عوامی جرگے کا نام دیا گیا؟ حکومتِ پنجاب کی جانب سے ملکہ کوہسار مری کیلئے جو ترقیاتی منصوبے پیش کیے گئے ہیں، ان میں کئی بلند و بالا عمارتوں کو غیر قانونی قرار دے کر گرانے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ ان عمارتوں کی تعمیر میں کئی با اثر شخصیات کے ساتھ ساتھ سیاستدان بھی ملوث ہیں، اور یہی وہ افراد ہیں جو اس جرگے میں حکومتِ پنجاب کے احکامات کو ’عوام دشمن‘ قرار دیتے رہے۔ ویسے تو مری کے تاجر بھی اس جرگے میں پیش پیش تھے جن کا دعویٰ تھا کہ نئے ڈویلپمنٹ پلان پر عملدآمد سے ان کی روزی روٹی متاثر ہو گی لیکن یہاں یہ حقیقت سرے سے نظر انداز کر دی گئی کہ ان میں سے کئی کاروبار غیر قانونی ہیں یا پھر عوام کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ آیا واقعی یہ سب عوامی مفاد کیلئے تھا یا صرف اپنے اپنے مبینہ غیر قانونی کاروبار اور تعمیرات کو بچانے کے لیے پنجاب حکومت پر دبائو ڈالنے کی ایک ناکام کوشش کی جا رہی تھی۔ درحقیقت یہ جرگہ ان تمام مسائل کو اجاگر کرنے میں ناکام رہا جن کا مری کے عوام کو روزمرہ زندگی میں سامنا ہے۔ بجلی، پانی اور ٹرانسپورٹ، سیاحت کے نظام میں موجود خامیوں، مقامی باشندوں کے روزگار کے مواقع کی کمی، ٹریفک کے بڑھتے مسائل پر بات کرنے اور انہیں اجاگر کرنے کے بجائے شرکاء نے اس جرگے میں پنجاب حکومت پر تنقید اور سیاسی ہتھکنڈے آزمانے کو ترجیح دی۔ جرگے میں شامل افراد اور ان کے ایجنڈے نے اس پورے عمل کو مشکوک بنا دیا جس کے باعث یہ جرگہ مری کے عوام کی ترقی کے بجائے مزید تنازعات کو جنم دے گیا۔ اس جرگے میں زیادہ تر وہ شخصیات شامل تھیں جو سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہیں یا علاقے میں اپنی طاقت کو مستحکم کرنا چاہتی ہیں، جو اپنے بیانات میں پنجاب حکومت پر مری کے عوام کے مستقبل سے کھیلنے کے الزامات عائد کرتے رہے، لیکن درحقیقت یہ تمام بیانات ان غیر قانونی عمارتوں کو تحفظ فراہم کرنے کی ناکام کوشش تھی جو ان ہی افراد کے زیرِ انتظام ہیں۔ ان تمام سیاسی شخصیات کے بیانات عوامی مفادات سے زیادہ اپنے ذاتی اثاثے بچانے پر مرکوز تھے۔ دیکھا جائے تو یہ جرگہ ایک واضح مثال ہے کہ کس طرح پاکستان میں سیاسی اور ذاتی مفادات عوامی مسائل پر غالب آ جاتے ہیں۔
بات بہت واضح ہے کہ مری کے پہاڑوں کے درمیان منعقد ہونے والا یہ جرگہ ایک ناکام سیاسی کھیل کے سوا کچھ نہ تھا جس میں عوام کے روزمرہ کے مسائل اور بنیادی سہولتوں اور ضرورتوں پر بات کرنے کے بجائے غیر قانونی تعمیرات اور سیاسی و ذاتی مفادات کا غلبہ رہا۔ عوامی نمائندگی کا فقدان اور عام شہریوں کی شمولیت نہ ہو نے کے باعث یہ جرگہ چند با اثر افراد کی اپنی دولت، حیثیت، غیر قانونی تعمیرات اور غیر معیاری کاروبار کو بچانے کی ایک کوشش بن کر رہ گیا۔ یہ انتہائی افسوسناک حقیقت ہے کہ عوام کی مشکلات کو پسِ پشت ڈال کر طاقت ور افراد نے اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ اس تمام صورتحال میں ایک اہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جرگے کا یہ ماڈل واقعی عوامی مسائل کے حل کے لیے موزوں ہے؟ یا پھر یہ ایک ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں ذاتی اور سیاسی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مری کے عوام جو اس جرگے سے کافی امیدیں لگائے بیٹھے، ان کے لیے یہ ایک مایوس کن تجربہ ثابت ہوا۔ اگر اس جرگے کا انعقاد خلوصِ نیت کے ساتھ کیا جاتا اور اس میں مری کے عوام کی حقیقی نمائندگی کی جاتی تو یہ علاقے کے مسائل کے حل میں ایک سنگِ میل ثابت ہو سکتا تھا، لیکن بدقسمتی سے اس جرگے نے ثابت کر دیا کہ جب روایتی فورمز کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا جائے تو وہ اپنی افادیت کھو بیٹھتے ہیں۔ عوام کو درپیش حقیقی مسائل پر بات کرنے کے بجائے سیاسی شخصیات اپنی سیاست چمکاتی رہتی ہیں۔ وقت کی اشد ضرورت ہے کہ مری کے عوام ان سیاسی اور معاشی کھلاڑیوں کو پہچانیں اور اپنے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کریں تا کہ ان کے حقیقی مسائل حل ہو سکیں۔ عوامی اعتماد کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ جرگے جیسے فورمز کو ذاتی سیاست سے پاک رکھا جائے اور انہیں عوام کے حقیقی مسائل کے حل کے لیے استعمال کیا جائے تاکہ یہ عوامی بھلائی کے اصل مقصد کو پورا کر سکیں۔
تبصرے بند ہیں.