جیون دے لئی مرنا پیندا اے

115

پاکستان کی سیاسی تاریخ اس سیا ہ رات کی طرح ہے جس کے آخر میں روشنی کم کم ہی نظرآتی ہے اور جب آئے بھی توبتیاں زبر دستی بجھا دی جاتی ہیں ، سیاسی جماعتوں کو اس تاریکی پر شرم بھی محسوس نہیں ہوتی اور وہ اس پر بھی سیاست کرنے کو ہی اپنی کامیابی سمجھتے ہیں ، موجودہ مشیر داخلہ رانا ثنااللہ دس سال تک پنجاب کے وزیر قانون رہے ،جب وہ اقتدار سے الگ ہوئے تو ان کی گاڑی سے سیروں کے حساب سے ہیروئین برآمد ہو جاتی ہے اور انہیں لاہور کی کیمپ جیل میں رکھا جاتا ہے،قید اتنی سخت کہ فیملی کے علاوہ طویل عرصہ تک اس جرم کی وجہ سے کوئی انہیں مل بھی نہیں سکتاتھا ،اپنی عمر کا ایک حصہ وہ عدالتوں کے چکر لگاتے رہے مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ ان پر ڈالی جانے والی ہیروئین کا کوئی وجود ہی نہیں ہے ،موجودہ حکومت کے اہم عہدیدار ہوتے ہوئے بھی وہ اپنے ملزموں کو ڈھونڈ نہیں سکے۔سندھ کے ایک صوبائی وزیر سے پاکستان کے ایک سابق منصف اعلیٰ نے ہسپتال کی جیل میں اپنے ہاتھوں سے شراب برآمد کی جس کا بڑا چرچا ہوا ،بعد ازاں پتہ چلا وہ شراب نہیں شہد تھا، ایک سابق وزیر اعظم اور تحریک انصاف کے سربراہ کے پیشاپ سے کوکین اور شراب ثابت کرنے کی کوشش کی گئی،کہا جاتا رہا وہ ’’کوک‘‘ کے رسیا ہیں اس کے بغیر ایک دن رہ نہیں سکتے ،اب وہ طویل عرصہ سے جیل میں ہیں اور نہ صرف زندہ بھی ہیں بلکہ صحت مند بھی ہیں۔

ہماری سیاسی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو پاکستان میں چند پارٹیاں ہی کردار ادا کرتی نظرآتی ہیں، ان میں دو پارٹیاں زیادہ نمایاں رہی ہیں، مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی،اب نمایاں ہونے والی تیسری بڑی پارٹی پاکستان تحریک انصاف ہے جو ان دنوں اپنے بعض اقدامات کی وجہ سے عتاب کا شکار نظرآتی ہے۔ یوں تو سیاسی پارٹیوں میں کئی چیزیں یکساں اور کئی مختلف نظرآتی ہیں لیکن ایک معاملہ ایک تجربہ ایسا ہے جس سے سبھی سیاسی پارٹیاں گزرتی رہی ہیں، وہ معاملہ یہ ہے کہ ان سب کو مختلف مواقع پر دبانے اور ان کا اثر و رسوخ کم یا ختم کرنے کی کوشش کی جاتی رہی اور اس سلسلے میں مخالف سیاسی پارٹیاں بھی کردار ادا کرتی رہیں۔

پیپلز پارٹی روٹی، کپڑا اور مکان، جمہوری سوشلزم ،مساوات پر مبنی معاشرے کا قیام جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ،کسانوں اور ان کے مفادات کا تحفظ جیسے نظریات لے کر عوام کے سامنے آئی تھی۔ ان نظریات پر عمل ہو سکا یا نہیں یہ الگ بات ہے لیکن یہ واضح ہے کہ اپنے منشور کوآگے بڑھانے کے سلسلے میں پیپلز پارٹی کو شدید مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔ اگر کسی کو بْرا نہ لگے تو میں یہاں شیخ مجیب الرحمن کی عوامی لیگ کا حوالہ دینا چاہوں گا جس نے 1970ء کے انتخابات میں اکثریت حاصل کر لی تھی لیکن اقتدار میں اسے اس کا حصہ نہ دیا گیا اور یوں دبانے کی کوشش کی گئی، نتیجہ ایک المناک سانحے کی صورت میں سامنے آیا۔

اس کے بعد1977ء کے انتخابات آئے حکومت اوراپوزیشن کے درمیان اختلافات ختم کرنے پر سمجھوتہ ہو چکا تھا لیکن پھر مارشل لا لگا دیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیئے جانے کے بعد ان کی بیٹی بینظیر بھٹو نے پارٹی کی باگ ڈور سنبھالی لیکن ضیاء الحق کے مارشل لا کی وجہ سے بھٹو کے متعدد قریبی ساتھی ان کی بیٹی کا ساتھ چھوڑ گئے۔ ممتاز بھٹو ڈاکٹر مبشر حسن عبدالحفیظ پیرزادہ غلام مصطفیٰ جتوئی، غلام مصطفیٰ کھر اور کئی دوسروں نے پیپلز پارٹی سے اپنی راہیں جدا کر لیں حتیٰ کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو ملک سے فرار ہو کر دوسرے ممالک میں پناہ لینا پڑی۔ جنرل ضیا الحق کے ایک حادثے کا شکار ہونے کے بعد نئے عام انتخابات کا ڈول ڈالا گیا تو اسلامی جمہوری اتحاد بنا کر پیپلز پارٹی کا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی جو کامیاب نہ ہو سکی۔ عام انتخابات کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کی حکومت تو بن گئی لیکن پیپلز پارٹی کے مخالفین کو کسی پل چین نہیںآ رہا تھا چنانچہ حکومت قائم ہوئے ابھی چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد لائی گئی جو ناکام ہو گئی، بالآخرآئین کے آرٹیکل 58 2B کے تحت پیپلز پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کر دیا گیا۔

1993ء میں ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں مرکز میں ایک بار پھر پیپلز پارٹی کی حکومت تو بن گئی لیکن یہ ٹرم بھی پوری نہ ہونے دی گئی۔ بے نظیر بھٹو کے اپنے منتخب کردہ صدر فاروق لغاری نے بے نظیر کی منتخب حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعدآنے والے مسلم لیگ (ن) کے دور میں بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو جلا وطنی اختیار کرنا پڑی۔ 1999ء میں پرویز مشرف نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیا تو کہا کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف اب واپس نہیںآئیں گے لیکن پھر حالات اور وقت نے ایسا پلٹا کھایا کہ ان کو واپس آنے دیا گیا تاہم 27 دسمبر 2007ء کو بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی میں ایک خود کش حملے میں شہید کر دیا گیا،اس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت تو قائم ہو گئی لیکن کچھ تقاضے پورے کرنے کے سلسلے میں ان پر مسلسل دبائو رہا،قبل ازیں اس پارٹی نے 11 سالہ آمریت کا سامنا کیا حتیٰ کہ بھٹو کو پھانسی تک دے دی گئی، ان کی بیوی اور بیٹی کو پابندِ سلاسل کیا گیا لیکن پیپلز پارٹی ختم نہ کی جا سکی۔

مسلم لیگ (ن) کی کہانی بھی اس سے مختلف نہیں ہے اس کو بھی جتنا زور زبردستی کے ساتھ دبانے کی کوشش کی جا تی رہی ، اتنا ہی یہ پارٹی ابھر کر سامنے آ تی رہی ،اس کو ایک طویل عرصے تک دودھ پلایا جاتا رہا وہ طاقتور ہوئی تو اسے بھی سبق سکھانے کی کوشش کی گئی اور پھر دیس نکالا دے دیا گیا ،میاں نواز شریف واپس آئے تو پھر وزیر اعظم بن گئے مگر راس نہ آئے اور پھر عظمیٰ کی بھینٹ چڑھ گئے اور وہ جنرل باجوہ کو ذمہ دار کہہ کرللکارتے رہے،بیمار ہو کر باہر چلے گئے اور ایک دفعہ پھر عظمیٰ کے جھانسے میں واپس آ گئے اب کہہ رہے ہیں ،ان کے ساتھ جو ہو اوہ بتا بھی نہیں سکتے ۔ اب تحریک انصاف شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے ،اس کے کارکنوں کی لاشیں اٹھ رہی ہیں مگر پتہ نہیں کتنے قربان ہو گئے ہیں ،اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ جب بھی کسی پارٹی کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ پہلے سے زیادہ ابھر کر سامنے آ جاتی ہے۔

تمام تر رکاوٹوں اور مزاحمتوں کے باوجود سیاسی پارٹیاں اپنا وجود تو برقرار رکھتی ہیں،مگر جمہوری دعوؤں کے باوجود سیاسی جماعتوں اور ان کے راہنماؤں کو اب بھی ہوش نہیںآیا۔منو بھائی نے کیا خوب کہا تھا۔
کیہ ہویا اے؟
کجھ نئیں ہویا
کیہ ہووے گا؟
کجھ نئیں ہونا
کیہ ہوسکدا اے؟
کجھ نہ کجھ تے ہوندا ای رہندا اے
جو تْوں چاہنا ایں، او نئیں ہونا!
ہو نئیں جاندا، کرنا پیندا اے
عشق سمندر ترنا پیندا اے
سْکھ لئی دْکھ وی جرنا پیندا اے
حق دی خاطر لڑنا پیندا اے
جیون دے لئی مرنا پیندا اے

تبصرے بند ہیں.