شور برپا ہے خانہ دِل میں

88

پاکستان کے رہنے والے یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہاں شہروں میں خاموشی اَور سکون کا ملنااَب تقریباً ناممکن ہوگیا ہے۔ یہاں ہر طرف ایک شور برپا رہتا ہے۔ لوگ شور کرنے اَور سننے کے عادی ہوچکے ہیں۔ سڑکوں، گلی محلوں میں ہرطرف ایک ہنگامہ برپا رہتا ہے۔ یہ شور صبح تقریباً ساڑھے چھ بجے سے شروع ہوتا ہے جب بچوں کے سکول جانے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اَور رات گئے تک جاری رہتا ہے کیونکہ ہماری عادات اِس طرح کی ہو گئی ہیں کہ ہم راتوں کو دیر تک جاگنا پسند کرتے ہیں۔
ایک اِنسان جتنی آواز آرام سے سہہ سکتا ہے وہ 60dBہے۔ اِس سے مراد عام گفتگو اَور ہلکی ٹریفک کی آواز ہے۔ یہ جان لینا چاہیے کہ اِنسان جو آواز بالکل نہیں سن سکتا وہ 0dB کی ہوتی ہے۔ اِس سے اْوپر کی ہر آواز اِنسان سن سکتا ہے۔ 70dBکی آواز وہ ہے جو بھاری ٹریفک، بلند آواز ویکیوم کلینر یا ڈِش واشر کی ہوتی ہے۔ 80-85dBکی آواز میں اِنسان اگر زیادہ دیر رہے تو اْس کے کان کے پردے برباد ہوسکتے ہیں۔ ٹرک کی آواز 90dB کی ہوتی ہے۔ کار کے ہارن کی آواز 100dB ہوتی ہے۔ اِس سے اْوپر 120dBکی آواز تکلیف دہ ہوتی ہے۔ یہ اِنسان کی برداشت کی حد ہے۔
اِس ساری معلومات کو دینے کا مقصد یہ ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ ہمارے چاروں طرف کیا ہورہا ہے۔ آپ دیکھیں گے ہمیں وہ موٹر سائیکلیں پسند ہیں جن کی آواز بہت بلند ہو۔جس موٹر سائیکل کی آواز کم ہو اْسے ہم ناپسند کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ سڑک پر ہارن کی آوازیں ہر وقت اَور ہر طرف سے سنائی دے رہی ہوتی ہیں۔ اِن میں اْن مخصوص مواقعوں کا اِضافہ کرلیں جو سال میں ہرکچھ مہینے کے بعد آتے ہیں۔ چودہ اگست، عید میلادالنبی، شب برأت وغیرہ پر بچے اَور نوجوان باجے بجاتے ہیں، موٹرسائیکلوں کے سائلنسر نکال کر اْنہیں دوڑاتے ہیں، اسپیکروں پر اْونچی آواز میں نعتیں اَور ملی نغمے بجائے جاتے ہیں، پٹاخے اَور آتش بازیاں چلائی جاتی ہیں۔ غرض ہر طرف ایک طوفان مچا ہوتا ہے۔ یہی معاملہ شادی بیاہ کی تقریبات کا ہے۔ جس گھر میں شادی ہورہی ہو اْس کے آس پاس کے رہنے والوں کا دو تین دِن جینا حرام ہوجاتا ہے۔
اِن سب کے علاوہ وہ بلند آواز جو سال کے تین سو پینسٹھ دِن گونجتی ہے وہ مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر کی آواز ہے۔ ایک لاؤڈ اسپیکر تقریباً 130dB کی آواز پیدا کرتا ہے۔ شاید ہی کوئی مسجد ہو جہاں صرف ایک لاؤڈ اسپیکر لگا ہو۔ وہ مسجدجومیرے دوست میر صاحب کے گھر کے بالکل قریب ہے اْس کے مینار پر چار لاؤڈ اسپیکر لگے ہیں۔ جب اْس پر اذان دی جاتی ہے تو میر صاحب کے بقول اْن کے اعصاب شل ہوجاتے ہیں۔ اْن کی سوچنے اَور سمجھنے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے۔ مزید یہ کہ یہ اسپیکر صرف اذان کے لیے اِستعمال نہیں ہوتے۔ جمعہ کا خطبہ، تقریر، نعتیں، سلام، لوگوں کے مرنے کے اِعلانات، مسجد میں ہونے والے مختلف جلسوں میں یہ اسپیکر بے دریغ اِستعمال ہوتے ہیں۔کوئی بچہ پڑھ رہا ہے، کوئی بیمار ہے، کسی کو پروا نہیں۔ متحدہ عرب امارات میں اذان کی آواز 90dB سے زیادہ نہیں رکھی جاسکتی۔ گویا ہمارے ایک لاؤڈ اسپیکر کی آواز سے بھی کم۔ وہ بھی تو مسلمان ہیں۔ اْن کا اِسلام اْونچی آواز سے مشروط نہیں ہے۔ یْوں بھی اللہ تعالیٰ نے سْورۃ لقمان میں بتایا کہ حضرت لقمان نے اَپنے بیٹے کو نصیحت فرمائی تھی کہ اَپنی آواز پست رکھو۔ بیشک تمام آوازوں میں سب سے بْری آواز گدھے کی آواز ہے۔ (آیت۔۹۱)۔ گدھے کی آواز 90dBکی ہوتی ہے۔ گویا اِتنی اْونچی آواز کو بھی اللہ تعالیٰ بْری آوازوں میں شمار کرتا ہے۔
جب لوگ ہر وقت اِس قدر شور میں رہیں گے تو اْن کے اَندر چند تبدیلیاں واقع ہوں گی۔ اْن کے اعصاب کمزور ہوجائیں گے۔ قوتِ برداشت کم ہوجائے گی۔ بلڈ پریشر بڑھ جائے گا۔ لوگ چڑچڑے ہوجائیں گے۔ آپ دیکھیں گے کہ پاکستانیوں میں یہ بیماریاں عام ہیں۔ آواز کی گندگی (Noise pollution) نے ہر طرف پنجے گاڑے ہوئے ہیں۔ جب ہم یورپ ، جاپان، چین متحدہ عرب امارات یا کسی اَور مہذب ملک میں جاتے ہیں تو جو دو چیزیں سب سے پہلے محسوس ہوتی ہیں وہ صفائی اَور خاموشی ہے۔ وہاں جاکر آپ عجیب قسم کا سکون محسوس کرتے ہیں۔ آپ کے گھر یا ہوٹل کے کمرے میں باہر سے کوئی آواز نہیں آتی یا اِتنی کم ہوتی ہے جو آپ کو پریشان نہیں کرتی۔ چنانچہ آپ دیکھیں کہ وہاں کے لوگ خوش مزاج اَور صحت مند ہیں۔
ہماری قوم میں شہری احساس (civic sense) بھی اَب تقریباً نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ لوگ رات بارہ بجے گھوں گھوں کرکے موٹر سائیکلیں دوڑاتے ہیں، کاروں کی ریس لگاتے ہیں،گلی محلوں یا بازاروں میں اْونچی آواز میں قہقہے لگاتے، شور مچاتے،گالیاں بکتے پھرتے ہیں، گھر پہنچنے پر گاڑی سے باہر نکل کر گھنٹی بجانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے وہیں بیٹھے بیٹھے گاڑی کا ہارن بجاتے رہتے ہیں۔ اْنہیں کچھ خیال نہیں ہوتا کہ لوگ سورہے ہوں گے،کوئی بیمار ہوسکتا ہے۔قوم کے اَندر شور مچانے کا ایک شوق پل بڑھ کر جوان ہوگیا ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ توجہ حاصل کرنے کا یہ آسان اَور آزمودہ نسخہ ہے۔ کچھ محنت کیے بغیر ہم لوگوں کی توجہ اَپنی جانب مبذول کروا سکتے ہیں۔ یہ بیمار ذہنیت کی اعلیٰ مثال ہے۔
اِس سلسلے میں حکومت کو نہایت سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ ساری شہری آبادی نت نئی اقسام کی جسمانی اَور اعصابی بیماریوں میں مبتلا ہوجائے گی اَور جرائم میں بے پناہ اِضافہ بھی ہوگا۔ اِس کا مظاہرہ ہم آج بھی اَپنے چاروں طرف دیکھ سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.