ہم اکثر سنتے رہتے ہیں دفعہ 144 نافذ ہوگئی ہے، دفعہ 144 ایک خاص قسم کا قانون ہے جو ایمرجنسی ماحول میں خاص علاقے شہر یا جگہ پر نافذ کیا جاتا ہے،اس قانون کو آزادی کی تحریک روکنے کے لیے انگریز سرکار نے بنایا تھا، اس قانون کے تحت آزادی کی جدوجہد کرنے والی تحریکوں کو کچلا جاتا تھا،بدقسمتی سے آج بھی پاکستان میں حکومتیں دفعہ 144 کا نفاذ احتجاج کو روکنے کے لیے کرتی ہیں لیکن یہ سب مخالفین کو کچلنے کیلئے کیا جاتا ہے اگر نقص عام دہشت گردی کا خطرہ ہو تو جلسے جلوسوں پر پابندی ہوسکتی ہے، لوگوں کے اکٹھے ہونے پر پابندی ہوسکتی ہے ڈبل سواری پر پابندی ہوسکتی ہے، دوکانیں کھولنے پر پابندی ہوسکتی ہے،دفعہ 144 کے نام پر حقوق سلب کیے جا رہے ہیں ہونٹوں پر تالے ہیں،مریض موت کے منہ میں جا رہے ہیں میتیں دفنائی نہیں جا رہیں شادیاں کینسل اور باراتیں راستوں میں پھنسی ہیں ایسے لگ رہا ہے کہ جیسے سیاہ رات ہے جو ختم ہی نہیں ہو رہی پورا ملک لاک ڈائون کی زد میں ہے ایک دوسرے سے رابطہ منقطع ہے کوئی عیادت کیلئے جا سکتا ہے نہ کسی جنازے میں شرکت کر سکتا ہے بلکہ عمرہ کرنے جانے والوں کو بھی مشکلات سے گزرنا پڑا ہے ہر ماہ ملک میں ایک عجیب تماشا لگتا ہے اپوزیشن اپنا نا ٹک کرتی ہے اور حکومت اپنا؟احتجاج اسلام آباد میں ہو تو سرکار پورا ملک کنٹینرلگا کر بند کر دیتی ہے مرمت کے نام پرموٹرویزبند،سڑکیں بند ،پل تک بند کر دئیے گئے ملک میں نہ جانے کون سا کھیل کھیلا جا رہا ہے کہ ملک کو بند گلی میں دھکیلا جا رہا ہے شہریوں کے حقوق سلب کیے جا رہے ہیں کسی کو بھی ملک کی فکر ہے نہ عوام کی سب اپنے اپنے مفادات میں سرکس لگائے بیٹھے ہیں۔ ادارے خاموش ہیں الجھن کو سلجھن میں کوئی نہیں بدلنا چاہتا۔ کے پی میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے روزانہ ہمارے جوان ملک پر قربان ہو رہے ہیں کرم اورپارا چنار واقعات نے کے پی کو جھنجھوڑکررکھ دیا ہے دوسری طرف کسی کو بھی خیال نہیں کہ اس آگ پر کس طرح قابوپایا جائے دشمن چاروں طرف پھن پھلائے بیٹھا ہے کل کیا ہو گا کسی کو معلوم نہیں اپوزیشن اقتدار کیلئے کچھ بھی کرگزرنے کو تیار ہے اس سارے کھیل میں عوام پریشان ہیں ہر ماہ غیرملکی وفد کی آمد پر پلان کے تحت انتشار پھیلایا جاتا ہے اسلام آباد پر چڑھائی کرکے ملک کی جگ ہنسائی کی جاتی ہے ماضی سے ہم نے سبق نہیں سیکھا ملک دولخت ہو گیا آج بلوچستان میں دشمن پھرسقوط ڈھاکہ جیسا کھیل کھلینے میں مصروف ہے سیاستدان کرسی کیلئے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں مگن ہیں ادارے تماشائی بنے ہیں کہا گیا تھا اسلام آباد میں کسی احتجاج کی اجازت نہ دی جائے تو پھرپورے ملک کو کیوں جیل میں تبدیل کر دیاگیاپی ٹی آئی کا احتجاج کامیاب ہونا تھا یا نہیں یہ تو بعد کی بات ہے لیکن حکومت نے ملک بھر میں راستے‘ موٹرویز‘ ہائی ویز‘ پل،انٹر نیٹ بند کرکے احتجاج کی کال کو کامیاب بنا دیا ملک میں احتجاجی مظاہروں سے ملکی معیشت کو 200ارب روپے سے زائد کا روزانہ کی بنیاد پر نقصان کا سامنا ہے،جی ڈی پی کی مد میں 144ارب ، برآمدات 16ارب اور ٹیکس ریونیو کا 26ارب روپے کانقصان ہے، سامان کی ترسیل بند ، تلف پذیر اشیاء خراب، منڈیاں بند ہونے سے تاجروں کو کروڑوں کانقصان ہوا جبکہ وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگ زیب کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کے احتجاج کی کال سے روزانہ 190 ارب کا نقصان ہوتا ہے،احتجاج کی وجہ سے ٹیکس وصولی میں کمی ہوتی ہے کاروبار میں رکاوٹ سے برآمدات متاثر ہوتی ہے،احتجاج کے باعث امن برقرار رکھنے کے لئے سیکورٹی پر اضافی اخراجات آتے ہیں آئی ٹی اور ٹیلی کام کے شعبے میں نقصانات اس کے علاوہ ہیں ،آئی ٹی اور ٹیلی کام کی بندش سے سماجی طو رپر منفی اثر پڑتا ہے احتجاج کے باعث صوبوں کو زرعی شعبے کے حوالے سے روزانہ نقصان 26 ارب روپے کا ہوتا ہے ، صوبوں کو صنعتی شعبے میں ہونے والا نقصان 20ارب روپے سے زیادہ ہے بتایا جائے کہ کنٹنٹر لگا کر ملک کو کس نے بند کیا جب ہر چیز بند ہو گی تو ملک کو نقصان تو ہوگا سارا نزلہ اپوزیشن پر گرانا کسی صورت درست نہیں ، ٹرانسپورٹ کی معطلی سے اشیا ء کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا ہونے سے کاروبار ٹھپ ہو چکا ، حکومت سڑکوں کی بندش کووطیرہ نہ بنائے ، معمولات زندگی متاثرہوتے ہیں،ویسے بھی پر تشدد احتجاج کے خدشات، قومی شاہراہوں ، انٹر سٹی ٹرانسپورٹ کی بندش اورسیاسی افرا تفری کے معاشی سر گرمیوں پر انتہائی منفی اثرات پڑ رہے ہیں ایسے حالات میں جب مقامی سرمایہ کارآگے آنے سے ہچکچاتے ہیں، وہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کی توقع کرنا بیوقوفی ہو گی، پی ٹی آئی کو حکومت سے اختلاف اور پُرامن احتجاج کا آئینی جمہوری حق حاصل ہے لیکن اس کی آڑ میں گھیرائو جلائو نہیں ہونا چا ہیے اندرونی سیاسی بگاڑ کو پاکستان کے عالمی تعلقات خراب کرنیکا ذریعہ نہ بنایا جائے ،پہلے امریکہ اور اب سعودی عرب کے بارے میں پی ٹی آئی قیادت نے جو احمقانہ رویہ اختیار کیا ہے کسی صورت درست نہیں، کرم پارا چنار میں فسادات وفاقی، صوبائی اور سیکورٹی اداروں کی مکمل ناکامی ہے،اپوزیشن ہر ماہ سیاسی میلہ سجانے کے موقف سے پیچھے ہٹے اور مذاکرات کی میز پرآئے، احتجاج کی کال کے پیش نظر جس طرح کی فضا بنتی ہے اس سے عام شہریوں سمیت تاجر طبقہ شدید اضطراب میں مبتلا ہے،اپوزیشن کو تو عوامی مسائل سے سروکار ہے ہی نہیں لیکن جو بھی حکومت اقتدار میں آتی ہے عوام کیلئے خون و پسینہ کا آخری قطرہ بہانے کا مسلسل دعویٰ کرتی ہے، اپنے موقف اور اصولوں سے ہر روز انحراف کرتی نظرآتی ہے، معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار اورآئی ایم ایف کے معاہدے کا بہت خیال اور قوم کے مفادات کا نہیں ، مہنگائی کا پنجہ ہررو ز مضبوط ہوتا جا تا ہے، ایک طرف ریلیف کا سنہرا بیان دیا جاتا ہے دوسری طرف مہنگائی اور ٹیکسوں کے تیر برساکر عوام کے معاشی جسموں کو چھلنی کیا جاتا ہے، عوام سمجھتے ہیں کہ حکمران بے حس ہوچکے ہیں، غریب عوام خواہ اپنے تن کے کپڑے بیچے ان کو کوئی غرض نہیں اگر حالات کو تبدیل کرنے کے اقدامات نہ کئے گئے تو عوام اب خاموش نہیں بیٹھیں گے، ان کا صدائے احتجاج ریڈ لکیر کوعبور کرسکتا ہے، غریب عوام کو قرضوں میں نہ جکڑا جائے،معاشی طور پر انتہائی مشکلات کا شکار ملک اس طرح کی سیاسی افرا تفری کا متحمل نہیں ہو سکتا، عوام کے درد کو جانتے ہوئے مسائل کا حل تلاش کیا جائے ،آخر میں بس اتنا ہی کہ ایک منڈا روز اپنی ماں کو چھت سے کودنے کی دھمکی دیتا تھا ایک روزایک سرپھرا قریب سے گرزا تواس نے خاتون سے کہا کہ اسے آج چھلانگ مارہی لنے دو یہ سننا تھا کہ لڑکے نے کہا کہ ماں یہ تومجھے مروانا چاہتا ہے۔
تبصرے بند ہیں.