آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی جانب سے ایک بیان موضوع بحث بن رہا ہے ، جہاں ابہام دور ہوا وہیں آرمی چیف کی دور اندیشی کی بھی باتیں ہو رہی ہیں۔ سپہ سالار قوم کا حقیقی لیڈر ہوتا ہے جس نے یقینا بیرونی و اندرونی خطرات پر نظر رکھتے ہوئے اپنی فوج کو پروفیشنل انداز میں ہر خطرے سے نمٹنے کے لئے تیار رکھنا ہوتا ہے۔۔ موجودہ صورتحال میں آرمی چیف کا بیان بہت حوصلہ افزا اور امن کے لئے امید کی نئی کرن ہے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ نیا میں امن و استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے مگر ہم کسی عالمی تنازع کا حصہ نہیں بنیں گے ۔ اسلام آباد میں مارگلہ ڈائیلاگ 2024کی خصوصی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا کہ حالیہ برسوں میں دنیا کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے جن میں غلط اور گمراہ کن معلومات کا تیزی سے پھیلائو ایک اہم چیلنج ہے، دنیا میں کئی تبدیلیوں کے پیش نظر غیر ریاستی عناصر کا اثر و رسوخ بڑھ جانا بھی ایک اہم چیلنج ہے۔
انہوں نے کہا کہ عالمی سطح پر مذہبی، فرقہ وارانہ اور نسلی بنیادوں پر عدم مساوات، عدم برداشت اور تقسیم بڑھ رہی ہے، عالمی سطح پر معیشت، افواج اور ٹیکنالوجی میں بے انتہا تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، پرتشدد غیر ریاستی عناصر اور ریاستی سرپرستی میں دہشتگردی عالمی سطح پر ایک بڑا چیلنج ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں ہمارا عزم غیر متزلزل ہے جب کہ دہشتگرد ی عالمی سطح پر تمام انسانیت کے لیے ایک مشترکہ چیلنج ہے۔
آرمی چیف کا کہنا تھا کہ ہمارے مشترکہ مقاصد میں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنا، دہشتگردی کے خلاف جنگ اور عالمی صحت کی فراہمی جیسے اہم چیلنجز شامل ہیں، پاکستان دنیا اور خطے میں امن اور استحکام کے لیے اپنا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔
جنرل عاصم منیر نے مزید کہا کہ عزمِ استحکام نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم جزو ہے جس کا مقصد دہشتگردی اور انتہا پسندی کا خاتمہ ہے، فتنہ الخوارج دنیا کی تمام دہشتگرد تنظیموں اور پراکسیز کی آماجگاہ بن چکی ہے، پاکستان افغان عبوری حکومت سے توقع کرتا ہے کہ وہ دہشتگردی کے خلاف افغان سرزمین کا استعمال نہیں ہونے دیں گے اور اس حوالے سے سخت اقدامات کریں گے۔
بھارت کے انتہا پسندانہ نظریے کی وجہ سے بیرون ملک خاص طور پر امریکا ، برطانیہ اور کینیڈا میں بھی اقلیتیں محفوظ نہیں، مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارت کا ظلم و بربریت بھی ہندوتوا نظریے اور پالیسی کا تسلسل ہے، مقبوضہ جموں و کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی اْمنگوں کے مطابق حل ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ہمیشہ غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کا مطالبہ کیا، غزہ اور لبنان کو انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر متعدد بار امداد روانہ کی، پاکستان نے ہمیشہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام پر زور دیا ہے، ہم کسی عالمی تنازع کا حصہ نہیں بنیں گے مگر دْنیا میں امن و استحکام کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔
قارئین آرمی چیف کا یہ خطاب مختلف حلقوں میں گردش کر رہا ہے۔ ایسے میں مختلف حلقے سپہ سالار کی مدبرانہ اور بے مثال پالیسی کی داد رہے ہیں۔ سوال یہی ہے کہ پاکستان کسی بھی عالمی بلاک کا حصہ کیوں بنے ؟ پاکستان کے اندرونی اور بیرونی چیلنجز بہت زیادہ ہیں ایسے میں کسی بھی پرائی جنگ میں شامل ہو کر اپنا وقت ضائع کرنا ملکی مفاد میں نہیں۔ ماضی کی اگر بات کی جائے تو سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک عالمی لابی کاحصہ بننے کی غالباً کوشش کی تھی۔ موصوف بغیر سٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لئے ایک ایسے وقت میں روس جا پہنچے جب یوکرین سے جنگ چھڑ چکی تھی اور عالمی دنیا روس کے اس جارحیت کی مذمت کر رہی تھی۔ عمران خان کے اس دور ے پر کئی حلقے خوش نہیں تھے ۔ اس دور میں سابق سفارتکاروں ، سفارتی ماہرین نے بھی اس قدم کو غیر ضروری قرار دیا تھا۔ عمران خان نے سفارتی سطح پر جہاں پاکستان کو تنہا کیا وہیں اہم دوست ممالک کو بھی ناراض کر دیا۔ جیسا کہ ان کے کئی غیر ضروری سفارتی بیانات دوست ممالک کو مناسب نہیں لگے۔ ان تمام صورتحال میں آرمی چیف کا بیان امید کی کرن ہے۔ انہوں نے اپنی دانشمندی سے یہ باور کر دیا کہ پاکستان کسی بلاک کا حصہ بننے کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی ایک مضبوط اور بہترین پالیسی ہے۔ ریاست پاکستان جانتی ہے کہ امریکا کی پاکستان کے لئے کتنی اہمیت ہے اور چین کی کتنی۔ پاکستان نے ہمیشہ سے ہی برابری کی سطح پر تعلقات کو اہمیت دی ہے۔ موجودہ آرمی چیف سول حکومت کیساتھ شانہ بشانہ کام کرنے اور اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے متحرک ہے ایسے میں کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان ایک نئے دور میں داخل ہو رہا ہے اور سفارتی سطح پر مسلسل کامیابیاں مل رہی ہیں اور ایسے میں فوج کا اپنی حدود میں رہتے ہوئے آئینی کردار بے مثال ہے۔
تبصرے بند ہیں.