دکھ ایک منفی جذبہ ہے جو ہر انسانی معاشرے میں اور ذی شعور و ذی عقل انسان کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر محسوس ضرور ہوتا ہے۔ یہ خوشی کی عین ضد ہوتا ہے۔ اس جذبے میں ایک تکلیف اور درد چھپا ہوتا ہے۔ یہ درد کئی وجوہ سے ممکن ہے۔ ایک دکھ تو کسی کی فوری ناکامی کی وجہ سے ہو سکتا ہے، چاہے وہ کسی کوشش کی ناکامی ہو یا کسی امتحان میں ناکامی کی وجہ سے ہو۔ ایک دکھ کسی کو اپنی قسمت اور مقام کے دوسروں کے مقابلے میں ارزاں ہونے کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ دکھ کسی بے عزتی کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے، کسی نا گہانی نقصان یا کسی کی بد زبانی اور بد گوئی کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ کسی اپنا ذاتی بھی ہو سکتا ہے اور کسی قریبی شخص کا بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً ماں باپ اولاد کے بیمار ہونے کی وجہ سے دکھی ہو سکتے ہیں۔ دکھ کی وجہ کسی سے عارضی یا مستقلاً بچھڑنا بھی ہو سکتی ہے۔ مثلاً ماں باپ اولاد کی شادی کے بعد ان سے الگ ہونے کی وجہ سے دکھی ہو سکتے ہیں۔ مگر دکھ کبھی دیر پا بھی ہو سکتا ہے۔ مثلاً کسی کے رشتے دار کے گذر جانے کا دکھ ایسا ہو سکتا ہے جو کسی شخص کو تاحیات ستا سکتا ہے باپ دو دن سے بیٹی کے نمبر پر ڈسکہ کے نواحی گائوں کال کر رہا تھا مگر نمبر بند تھا ، وہ گھبرا کر بیٹی کے سسرال چلا آیا اور پوچھا زارا کہاں ہے ؟ فون کیوں بند ہے اس کا ، جبکہ زارا کا دو سال کا بیٹا گھر میں موجود تھا ، ساس اور نندوں نے بتایا دو دن پہلے رات کو کسی آشنا کے ساتھ بھاگ گئی ، موبائل بھی ساتھ لے گئی ۔ ہم تو کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے ، خاموشی سے تلاش کررہے ہیں۔
باپ کو یقین نہ آیا ، چار سال پہلے اس نے بہت چائو سے اس کا رشتہ اس کی خالہ صغریٰ کے بیٹے قدیر سے کیا ، اور وہ دونوں بہت خوش تھے ، ہاں سگی خالہ اس سے اکثر نالاں رہتی تھی مگر وہ پھر بھی بیٹی کو نباہ اور صبر کی تلقین کرتا رہا ۔ اس نے تلاش گمشدگی کے لیے پولیس کی مدد لی ، پولیس نے سسرالیوں کے بیان لیے ، زارا کی ساس اور نندوں کو شامل تفتیش کیا گیا ، ہر ایک کے بیان میں تضاد موجود تھا ، جس پر پولیس نے ان کو گرفتار کر لیا۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ زارا بھاگی نہیں بلکہ 11 نومبر کی رات انہوں اس کو مار کر پھینک دیا تھا۔ اور اس کے شوہر کو بھی یہی بتایا کہ وہ کسی سے رابطے میں تھی اور گھر سے نکل گئی ، جبکہ زارا سات ماہ کی حاملہ تھی ، اس کے ساتھ ننھی جان بھی ماری گئی ۔
جھگڑا کیا تھا؟ وہی ساس بہو کی ازلی چپقلش اور نند بھابی کا بیر ۔۔۔ زارا کی پانچ نندیں تھیں اور قدیر ان کا اکلوتا بھائی ۔۔ اور انہوں نے خود زارا کا رشتہ مانگا اور اپنے ہاتھوں سے رخصت کرکے گھر لائیں ۔ جھگڑا پیسے کا تھا ، ان کا خیال تھا ان کا بیٹا سارا خرچ بہو کے ہاتھ رکھتا ہے جبکہ اسے سب کچھ ماں بہنوں کو دینا چاہیے ، وہ خود زارا کو دیں ۔ انہی جھگڑوں سے تنگ آ کر قدیر اسے اٹلی بھی لے گیا اور کچھ ماہ پہلے سسرال چھوڑ گیا ۔ اس بار ساس اور نندوں نے سوچا کہ زارا کو واپس ہی نہ جانے دیا جائے اور قدیر کی ساری کمائی ہمیں ملے ، پلان کے تحت لاہور سے کسی کو بلایا ، فجر سے کچھ دیر پہلے سوئی ہوئی زارا کے منہ پر تکیہ رکھ کر سانس بند کی اور موت کے حوالے کردیا ۔۔۔ اب مسئلہ لاش کا تھا کہ وہ کہاں غائب کریں ۔۔ اور شناخت کیسے چھپائیں تو سر کو دھڑ سے الگ کرکے چولہے پر جلایا گیا تاکہ نین نقش مسخ ہوجائیں ، پھر جسم کاٹ کر دو الگ الگ بوریوں میں ڈالا ، ایک بوری نہر میں اور ایک دور جھاڑیوں میں پھینک دی ۔ پولیس نے ان کی نشان دہی پر مختلف جگہوں سے جسم کی باقیات برآمد کر لیں ۔
لوگ کہتے ہیں رشتہ اپنوں میں کریں ۔۔ اپنا مارے گا بھی تو چھائوں میں ڈالے گا۔۔ یہاں تو چھائوں میں بھی نہیں ڈالا گیا ۔۔۔ اور پھر اپنا ہو ۔۔ تو مارے ہی کیوں ؟؟۔
تبصرے بند ہیں.