پنجاب بار کونسل اور جعلی وکلا کا خاتمہ

141

جعل سازی ایسا فعل ہے جو دنیا کے ہر خطہ اور ہر شعبہ ہائے زندگی میں پایا جاسکتا ہے۔ حتیٰ کہ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام بھی جعل سازی سے محفوظ نہیں رہ پاتیں۔ آئے روز ہمیں انتظامی آفیسر، ڈاکٹر، پولیس آفیسر، آرمی آفیسرکا لبادہ اوڑھے جعل ساز پکڑنے جانے کی خبریں دیکھنے سننے کو ملتی ہیں۔ پچھلے ماہ بھارت میں ایک جعل ساز پکڑا گیا جو گذشتہ پانچ سال سے بطور جج ثالثی ٹریبونل چلا رہا تھا۔ لیکن اسکاہرگز یہ مطلب نہیں لیا جاسکتا کہ جعل سازی کا سدباب ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جعل سازی کی روک تھام اور سدباب کے لیے قوانین نافذ کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں وکالت کے شعبہ میں متعدد ایسے جعل ساز برآمد ہوئے ہیں جو دہائیوں سے کالا کوٹ پہنے قانون و عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک رہے تھے۔ سال 2020کا بہت ہی مشہور و معروف واقعہ جب پنجاب بار کونسل کی پانچ سالہ ممبرشپ کے لیے منعقدہ انتخابات میں شیخوپورہ سیٹ سے امیدوارشاہنواز اسماعیل بوجہ جعلی ڈگری نااہل قرار پائے اور پنجاب بار کونسل کے رولز کے مطابق امیدوار رانا سیف اللہ خان کی فتح کا اعلان کیا گیا۔ یاد رہے صوبائی بار کونسلز، لیگل پریکٹیشنر ز اینڈ بار کونسلز ایکٹ، 1973کے تحت قائم ہیں۔ اس ایکٹ کے سیکشن 5Aکے مطابق ممبر بار کونسل بننے کی اہلیت یہ ہے امیدوار کا صوبائی بار کونسل میں بطور ایڈووکیٹ ہائیکورٹ رجسٹرڈ اور بطور وکیل دس سال کاتجربہ ہونا لازم ہے۔ جعلی ڈگری کے حامل موصوف کی بار کونسل میں رجسٹریشن کیسی ہوئی؟ کئی دہائیوں تک موصوف نے عدالتوں سے کتنے ہی سائلین اور مخالفین کو جزائیں، سزائیں دلائی ہونگی؟ یہ بہت تلخ سوالات ہیں۔ بہرحال اسی ایک مثال سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جعل سازی ہمارے معاشرے میں کس حد تک پھیل چکی ہے۔
دیر آیددرست آید پاکستان بار کونسل سمیت تمام صوبائی بار کونسلز بالخصوص پنجاب بار کونسل نے جعل سازی کے خاتمہ کے لیے انتہائی احسن اقدامات اور اصلاحات نافذ کی ہیں۔ جیسا کہ وکالت کے شعبہ میں متمنی طلبا کے لیے عمر کا تعین، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے ذریعہ لاء ایڈمیشن ٹیسٹ اور بعدازاں امتحان کامیابی لاء گریجوایٹ اسسمنٹ ٹیسٹ لازم قرار پائے ہیں۔ وکلا کی رجسٹریشن کے مراحل کو جعل سازی سے پاک کرنے کے لیے کیو سہولت پروگرام کو نافذکردیا گیا۔ کیو سہولت کی بدولت رجسٹریشن کے مراحل کو فول پروف بنانے کی ہم ممکن کوشش کی گئی ہے۔ پنجاب بار کونسل کی آن لائن کیو سہولت کے ذریعہ نہ صرف نئے وکلا کا اندراج کیا جارہا ہے بلکہ پہلے سے رجسٹرڈ شدہ وکلا حضرات کی تصدیق بھی کی جارہی ہے۔ سادہ الفاظ میں کہا جاسکتا ہے کہ وکیل کا دعویٰ کرنے والے ہر شخص کی رجسٹریشن کیو سہولت کے ذریعہ لازم قرار پاچکی ہے۔ کیو سہولت رجسٹریشن کے تمام مراحل طے کرنے والے وکلا حضرات کو کیو آر کوڈ سے مزین کارڈ کا اجرا کیا جارہا ہے۔ کیو سہولت پروگرام کے تحت سیکڑوں جعلی وکلا کی رجسٹریشن ختم کر کے انکے خلاف مقدمات کا اندراج کرایا گیا ہے۔

پنجاب بار لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسل 2023 کے تحت رولز میں ترامیم کی گئی ہیں۔ جس کے تحت کوئی درخواست دہندہ جس نے بار کونسل یا بار کونسل کی کسی کمیٹی کے سامنے جعلی دستاویز، انڈر ٹیکنگ، سرٹیفکیٹ یا حلف نامہ جمع کرایا، اس کے خلاف تعزیرات پاکستان کی متعلقہ دفعات کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ ایسا شخص جس کا بارکونسل کے رول پر بطور وکیل اندراج نہ ہو مگر وہ کسی فورم یا عوامی مقامات، پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا، واٹس ایپ وغیرہ پر خود کو بطور وکیل ظاہر کرتا ہو تو ایسے شخص کے برخلاف لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973 کے سیکشن 58 کے تحت فوجداری مقدمہ چلایا جا ئے گا جس کی سزا تین سال تک قید ہو سکتی ہے۔ اسی طرح پاکستان بار کونسل اور پنجاب بار کونسل میں بطور ایڈووکیٹ رجسٹرڈشدہ شخص کے علاوہ کوئی بھی شخص وکلا کے لیے مخصوص یونیفارم نہیں پہنے گا۔ اگر کوئی شخص بشمول کسی ہوٹل / ریسٹورنٹ یا کسی تجارتی ادارے کے ملازمین وکلا کا مخصوص یونیفارم پہنیں گے، تو انکے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعہ 419 کے تحت دھوکہ دہی کے جرم کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

کسی شخص پر لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ،1973، پاکستان لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز رولز، 1976، پنجاب لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسل رولز، 2023 کے تحت لگائے گئے الزامات کے برخلاف مقدمہ مقامی عدالت کے ذریعہ چلایا جائے گا۔ جعل سازی کی روک تھام کے لیے پنجاب بار کونسل کی کاوشیں قابل ستائش ہیں۔ اس تحریر کے آخر میں اپنی چند تجاویز پیش کرنا چاہوں گا کہ پنجاب بار کونسل کی ویب سائٹ پر موجود رجسٹرڈ وکلا کی فہرست ہر وقت اپ ڈیٹ رہنی چاہیے تا کہ اصلی و جعلی وکیل کی شناخت کو چند سیکنڈز میں پرکھا جا سکے۔ عدالتوں میں وکالت نامہ، دعویٰ و جوابِ دعویٰ پر وکلا حضرات کے نام کیساتھ بار کونسل سے جاری کردہ لائسنس نمبر لکھنا لازم قرار دیا جائے۔ صوبہ پنجاب میں ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں کا نظام کمپیوٹرائزڈ ہو چکا ہے۔ لہٰذا عدالتی سافٹ ویئرز کو پنجاب بار کونسل کی ویب سائٹ سے منسلک کیا جانا چاہیے، جس کی بدولت عدالتوں میں دائرگی کے وقت رجسٹرار حضرات کو پابند کیا جائے کہ دائرگی نمبر الاٹ کرنے سے پہلے وکیل کے لائسنس نمبر کی تصدیق کریں اور جعل سازی کی صورت میں فی الفور بار ایسوسی ایشن کے صدر کی مدعیت میں جعل ساز کے خلاف درج بالا دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔ اسکے ساتھ ساتھ ایسے جعل ساز شخص کی تشہیر پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا پر کی جانی چاہیے۔

تبصرے بند ہیں.