لسانیت،قومیت،نفرت،تفریق اورتقسیم کی طرف اٹھنے والاہرہاتھ اوربڑھنے والاہرقدم قابل لعنت اور باعث مذمت ہے۔ اللہ اور اس کے پیارے حبیب حضرت محمدﷺسے محبت اورعشق کرنے والاکوئی بھی انسان اور مسلمان لسانیت، قومیت اورتفریق کی حمایت نہیں کرسکتاکیونکہ اسلام میں لسانیت اورقومیت کی کوئی گنجائش نہیں۔ اللہ کے پیارے رسولﷺ نے خطبہ حجتہ الوداع میں انتہائی واضح اورکھلے الفاظ میں ارشاد فرمایا۔ لوگو! تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ (حضرت آدم علیہ السلام) بھی ایک ہے۔خبردار! کسی عربی کوکسی عجمی پر اور کسی عجمی کوکسی عربی پر، کسی گورے کوکسی کالے پر اور کسی کالے کوکسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔کسی انسان کواگرکسی انسان پرکوئی فضیلت حاصل ہے تووہ صرف اورصرف تقویٰ کی بنیادپر ہے۔یہ الفاظ اورکھلاکھلم وواضح اعلان اس نبی دوجہان ورحمت اللعالمینﷺ کاہے جس نبی پرآج بھی ہم سب مرمٹنے اورقربان ہونے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے۔کتنے افسوس اورشرم کی بات ہے کہ جس نبی کے نام پرہم خود،مال اورآل واولاد کوقربان کرنے کے دعوے کرتے نہیں تھکتے اس پیارے نبیﷺ کے ارشادات اوررب کے احکامات پرہم عمل کرنے کے لئے تیارنہیں۔اللہ اوراس کے پیارے حبیب ﷺنے جن چیزوں کوباربارجوڑنے کاحکم دیاہم برسوں سے ان چیزوں کوتوڑنے میں لگے ہوئے ہیں۔ملک اورقوم کوتقسیم کرنے کاوہ کونساطریقہ اورحربہ ہے جوہم استعمال نہیں کررہے۔کہنے کے لئے ہم سب اللہ اوراس کے پیارے حبیبﷺ کے نام لیواہیں لیکن کام ہم وہ کررہے ہیں جونہ اللہ مانتاہے اورنہ اللہ کارسول۔اللہ کے رسولﷺ ساڑھے چودہ سوسال پہلے حجتہ الوداع کے موقع پرفرماکے گئے کہ انسان کوانسان پرفضیلت تقویٰ اورپرہیزگاری کی بنیاد پر ہے لیکن یہاں ہم انسان کوانسانوں پر برتری، فوقیت اورفضیلت کو مال، دولت، دنیاوی شان وشوکت عہدوں،رتبوں اورقومیت ولسانیت کو دیکھ کر دیتے ہیں۔یہ نام،زبان اور قومیں یہ توفقط شناخت کے لئے ہیں لیکن ہم نے ان چیزوں کو غیرت اورانا کامسئلہ بناکرفضیلت اورفوقیت کا معیار قرار دے دیا ہے۔ کیا پختون، کیا پنجابی، کیا سندھی اور کیا بلوچی یہ سب ایک ہی تو ہیں۔ پختون، پنجابی، سندھی اوربلوچی میں تفریق اورتقسیم کی سازش و کوشش کرنے والے کیاخودانسان نہیں۔؟ اگر انسان ہیں توپھرانسان توسارے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہے۔ایک بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ ملک اورقوم کوتقسیم کرنے کے خواب دیکھنے والوں کواس گناہ عظیم سے آخر ملتا کیا ہو گا۔؟ اسلام اوراللہ کاقرآن تو شروع سے لیکرآخرتک اتحاد، اتفاق اورامن کادرس دیتاہے۔پھرقوم کوتقسیم کرنے والے یہ لوگ نہ جانے کس دین اورکون سے خداکے احکامات پرعمل پیرا ہیں۔اسلام میں توتقسیم وتفریق ہے ہی نہیں۔مسلمان تو آپس میں سارے بھائی بھائی ہیں۔ بھائی چھوٹا بڑا ہو سکتا ہے پردشمن نہیں ۔جولوگ ہمیں آپس میں دشمن بنارہے ہیں وہ نہ ہمارے خیرخواہ ہیں اورنہ ہی اس ملک ،معاشرے اور قوم کے۔ملک وقوم کا مفاد تو اس میں ہے کہ پنجابی، پختون، سندھی اور بلوچی سب بھائی آپس میں مل کراتحادواتفاق سے رہیں۔ یہ ملک ہم سب کاہے ،جب ملک ہمارا ہے تو پھر اس میں پنجاب، سندھ، خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی تقسیم وتفریق کیوں۔؟دوسری بات یہ نام کوئی معنی نہیں رکھتے۔یہ تواللہ کاقرآن کہتاہے کہ نام ،قوم اورقبیلے یہ فقط انسانوں کی شناخت کے لئے ہیں۔ خیبرپختونخوا میں رہنے والوں کی شناخت اگرخیبرپختونخواسے ہے توپھراس سے خیبرہٹانے کاکیافائدہ۔؟فائدہ توصوبہ سرحدہٹانے سے بھی کچھ نہیں ہوا۔ خیبرپختونخوامیں رہنے والے عوام کے آج جوحالات ہیں یہ اس وقت بھی ایسے ہی تھے جب اس صوبے کا نام صوبہ سرحدتھا، خیبر پختونخوا نام رکھنے سے اس صوبے میں دودھ اور شہد کی کوئی نہریں جاری نہیں ہوئیں۔یہاں کے لوگ صوبہ سرحد میں بھی روکھی سوکھی کھا کر گزارا کرتے تھے اوریہ آج خیبرپختونخوا میں بھی روکھی سوکھی کھا کر گزارا کر رہے ہیں۔ اب صوبے کا نام خیبرپختونخوا ہو یا صرف پختون خوااس سے کیافرق پڑنا ہے۔؟ لوگ ترقی کرکے چاندپرپہنچ گئے اورہمارے لیڈر اور سیاستدان ناموں کے ساتھ خیبرلگانے اور خیبرہٹانے سے باہر نہیں نکل رہے۔ اللہ کاکوئی بندہ یہ توسمجھادیں کہ خیبرپختونخواسے خیبر ہٹانے سے کیا ہو گا۔؟ کیا اس صوبے میں راتوں کوبھوکے سونے والوں کولفظ خیبرہٹنے کے بعدپیٹ بھر کر کھانا ملے گا۔؟ کیاصوبے کانام صرف پختونخواہونے سے یہاں کے ہزاروں ولاکھوں بیروزگارنوجوانوں کوروزگارمل جائے گا۔؟ کیالفظ خیبر کو گرانے سے اس بدقسمت صوبے میں امن، ترقی اورخوشحالی کا نیا دور شروع ہو گا۔؟ کیا صوبے کے نام کی دوبارہ تبدیلی سے عام لوگوں کو ایک آنے کا بھی کوئی فائدہ ہو گا۔؟ اگر ہاں تو پھر ایک نہیں سوبلکہ ہزاربارلفظ خیبر کو ہٹایا اور مٹایا جائے لیکن اس نام کی تبدیلی سے اگرعام لوگوں اورصوبے کوکوئی فائدہ نہیں تو پھر خدارا نام کے ان چکروں سے نکل کرعوام اورملک کاکچھ سوچیں۔ خیبرپختونخواکے نام سے کیڑے نکالنے والے یہ کیوں نہیں سوچتے کہ اس صوبے میں پختونوں کے علاوہ بھی باقی لوگ رہتے ہیں۔ماناکہ یہاں اکثریت پختونوں کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس صوبے کو قومیت اور لسانیت کی بنیادپرپختونستان بنایاجائے کیوں کہ ہم جس دین کے نام لیواہیں اس میں قومیت اور لسانیت کے نام پرایسے ا قدام اٹھانے کی اجازت نہیں۔ یہاں رہنے والے بھی آخرانسان ہیں۔ شائدکہ وہ تقویٰ اورپرہیزگاری میں ہم سے بہتر ہوں۔ہمیں قوم، زبان اورنام کے نام پرملک کوتقسیم کرنے کے بجائے اس ملک میں باہمی اتحادواتفاق کے لئے اپنی توانائیاں صرف کرنی چاہئیں۔جولوگ صوبے کے نام کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں یہ اگر پختون قوم سے اتنے مخلص ہیں تویہ ناموں کے بجائے پختوں قوم کی ترقی اورخوشحالی کے لئے کچھ کریں۔ پختونوں کے بچے بھوک، افلاس، غربت، بیروز گاری اور بدامنی سے مررہے ہیں اورانہیں ناموں میں ترمیم سے فرصت نہیں۔عوام کونام نہیں کام چاہئیں۔ایسے لیڈروں اور سیاستدانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ خدارا یہاں کے غریبوں پرکچھ رحم کریں۔ جودوسروں پررحم کرتے ہیں ان پربھی پھر رحم کیاجاتاہے اور جو دوسروں کوبے رحم چھوڑتے ہیں ان کاانجام بھی پھر اچھا نہیں ہوتا۔ جب تک لیڈر اور سیاستدان عوام کے معاملات کے بارے میں خود ٹھیک نہیں ہوں گے تب تک ان کے اپنے سیاسی معاملات اورحالات بھی کبھی ٹھیک نہیں ہوں گے۔ اس لئے ہمارے یہ چھوٹے چھوٹے لیڈر اگر چاہتے ہیں کہ اس ملک کے اندریہ عزت وکامیابی سے سیاست کریں تو پھر اس مقصدکے لئے انہیں قوموں میں تفریق وتقسیم کرنے کے بجائے اس ملک کے ہرشخص کواپنابھائی سمجھ کرگلے لگانا ہو گا۔ بانیان پاکستان اورہمارے بزرگ کہاکرتے تھے ہم سب پہلے پاکستانی ہیں اوربعدمیں پٹھان،سندھی،پنجابی اوربلوچی مگر افسوس ہم اللہ کے احکامات اوردینی تعلیمات کے ساتھ بانیان پاکستان اوراپنے بزرگوں کے ان ارشادات کوبھی بھول یکسر بھول چکے ہیں۔
تبصرے بند ہیں.