پاکستان کی ٹریڈ باڈیز کی سیاست آج دوستی کے ماحول سے نکل کر مخالفت اور الزامات کی ڈگر اختیار کر چکی ہے اور شاید یہ پہلی بار ہوا کہ ہارنے اور جیتنے یعنی دونوں حیران ہیں کہ یہ ہوا کیا۔ اب جب سب کچھ ہو گیا تو یہاں بھی دھاندلی کی باتیں منظرعام پر آئیں۔ DGTO نے دونوں اطراف کو سننے کے بعد ری کائونٹنگ کا حکم نامہ جاری کر دیا۔ اب ری کائونٹنگ کا سب کو شدت سے انتظار ہے۔ ہار جیت تو اپنی جگہ چیمبر کی تاریخ میں پہلی بار لاہوری ٹریڈ باڈی فائونڈر کی بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ جب اس شکست کے پس منظر کو دیکھتے ہیں تو کئی وجوہات فائونڈر کو تہس نہس کر گئیں۔ کیا فائونڈر اپنے اختتام کو پہنچ گئی؟ کیا فائونڈر خود کو نہلا دہلا کر واپس میدان میں اترے گی۔ اس کی لیڈرشپ سے لے کر نچلی سطح تک پاور دی جائیں گی؟ موروثی سیاست کی جگہ صحیح معنوں میں تنظیم سازی ہوگی اور فائونڈر کو زندہ کرنے کے دعویدار اس کی روح میں جان ڈال سکیں گے یہ ہیں دو تین اہم سوالات جو آج فائونڈر کے اردگرد گھوم رہے ہیں۔ اگر ذرا چند عشرے پہلے کی بات کریں جب فائونڈر کو آرگنائز کیا گیا تب حالات کچھ اور تھے، اب نہ صرف حالات بدلے بلکہ نئی سوچ، نیا خون اور اختیارات کی تقسیم کا نہ ہونا سامنے آیا اور سب سے بڑھ کر موروثی سیاست کے فیصلوں نے فائونڈر کو ایک بری شکست اور آرگنائزیشن میں بدل دیا۔ یہاں یہ ماننا ہوگا کہ بہت کچھ ہونے کے بعد کیا فائونڈر والے اس بات کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ ایک شخصی فیصلوں نے اس کو شکست کی دہلیز پر پہنچایا۔ کیا وہ انتخابی پراسس کے دوران کی گئی اپنی غلطیوں کا تدارک کرتے ہوئے جانے والے کل سے کوئی اچھا سبق سیکھ پائیں گے یا نہیں۔ اس بات کو جانتے ہوئے بھی کہ کہیں بہت غلطیاں، تو کہیں بہت غلط فیصلوں نے ان کو یہاں تک پہنچایا۔ کہتے ہیں کہ جب انسان کا عمل، اس کی تنظیم یا ادارہ جمود کا شکار ہو جائے تو اس جمود کو توڑنا ہی صحیح حکمت عملی اور دانشمندی کا تقاضا ہے۔ کیا یہ سب کچھ فائونڈر کے ساتھ ہوا۔ لاہور چیمبر کے حالیہ انتخابات میں تاجروں کی سب سے بڑی ٹریڈ باڈی فائونڈر جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ کئی دہائیوں سے لاہور چیمبر کا بڑا حصہ رہی۔ وہ اپنے ہی کئے غلط فیصلوں سے کئی عرصوں سے جمود کا شکار تھی۔ یہی فائونڈر جس نے 22صدور کئی وی پی اور ایس وی پی لاہور چیمبر کو دیئے، آج اسی فائونڈر پر کئی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ میاں انجم نثار گروپ کو توڑنے کا سب سے زیادہ فائدہ کس ہوا؟فائونڈر ہی کے حلقوں سے یہ آواز بھی آ رہی ہے کہ ایک منفی سوچ یعنی موروثی سیاست نے فائونڈر کو تباہ کیا یعنی ایک صدر کا بیٹا صدر بنا ہے تو پھر دوسرے صدر کا بیٹا بھی صدر بنے گا۔ یہی عنصر انہیں لے ڈوبا۔ دیکھا جائے تو اس کے اندر اس وقت پہلی دراڑ پڑی جب علی حسام نے موروثی سیاست کیخلاف نعرہ بلند کیا۔ یہاں یہ بھی کہا گیا کہ فائونڈر ایک ایسی تنظیم کا نام ہے جہاں کبھی کسی کو پاور نہیں دی گئی پھر جہاں عہدوں کو پاور نہیں دی جاتی تو وہاں کسی بھی تنظیم یا جماعت کے اندر آمریت جنم لیتی اور کارکنوں میں بھی مایوسی پھیلتی ہے شاید فائونڈر کی تھوڑی بہت عزت بچ جاتی اگر وہ انتخابات سے قبل یکایک جلسے کرتے ہوئے فائونڈر کا پیاف انجم گروپ کے ساتھ یکایک اتحاد توڑ کر میاں شفقت کی پیاف کے گھر نہ جاتی۔ پیاف سے علیحدگی نے جہاں فائونڈر کے بارے بہت سی بدگمانیاں پیدا کیں وہاں فائونڈر کے ساتھ ہی ایسا کیوہں ہوا کہ لوہے کی مانند مضبوط دکھائی دینے والی کچے دھاگے کی طرح ٹوٹ گئی۔ شاید اس لئے کہ فائونڈر کی یکطرفہ قیادت بڑے عرصہ سے لحاف لے کر سو رہی تھی اور لحاف کے اندر ہی سوتے اٹھتے وہ ایسے بے وقتی فیصلے کر بیٹھی جو اس کی ساکھ کو اور اس کی مضبوطی کو بری طرح متاثر کر گئی۔
بطور صحافی چیمبر کی انتخابی مہم میں جو میں نے دیکھا کہ یہ ٹریڈ باڈیز کے چھ گروپس کے درمیان بڑے جوڑ کا مقابلہ نہیں بلکہ یہ بڑا جوڑ ورکرز الائنسز اور باسز الائنسز کے درمیان تھا۔ ایک وقت تھا جب فیصلہ ٹریڈ باڈی کے باسز کا ہوتا تھا۔ اس دفعہ ہوا نے اپنا رخ بدلا اور ملکی انتخابات کی طرز پر انتخابات میں ورکرز کے طرز عمل اور اس کی سوچ کو زیادہ اہمیت ملی اور نیا تاجر یعنی نیا خون، نئے جوش کے ساتھ میدان میں اترا اور پھر جو نتائج سامنے آئے اس نے یہ بات ثابت کر دی کہ یکایک فیصلے کبھی اپنی ہی یکطرفہ قیادت کے گلے پڑ جاتے ہیں۔ اس سلسلے میں کہ فائونڈر کے ساتھ کیا ہوا؟ گزشتہ دنوں میری ملاقات فائونڈر کے ایک بڑے اہم رہنما سے ہوئی۔ دوران گفتگو ان کا کہنا درست تھا کہ فائونڈر کے مقابلے میں پیاف میاں انجم گروپ کی انتخابی حکمت عملی اور ان کا سٹریکچر بہت مضبوط نظر آیا اور انہوں نے اس کو آرگنائزڈ کرنے کے ساتھ ساتھ نئی سوچ والے لوگ لائے جبکہ فائونڈر والے کبھی ایسا نہ کر سکے حالانکہ وہ کئی سالوں سے میاں انجم نثار اور ان کی ٹریڈ سیاسی حکمت عملی سے واقف تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ کل کے مقابلے میں آج کے بدلتے ووٹر نے سابقہ صدور کو نہیں مانا جو فائونڈر کے پرانے چہروں سے بھی ناآشنا تھے۔
لاہور چیمبر کے انتخابات کے بعد فائونڈر کے اندر جو سب سے بڑی خامی سامنے آئی کہ وہ اندرونی طور پر ایک مضبوط آرگنائزیشن نہیں تھی۔ عمومی طور پر جس کا بہت تاثر دیا جا رہا تھا کہ یہ بہت مضبوط ہیں، کیا اب نئی قیادت فائونڈر پھر سے زندہ ہوئی، کیا فائونڈر میں اختیارات کے ساتھ پاور شیئر کرے گی۔ اگلے دو سال تک فائونڈر اپنے وجود کو منوا سکے گی۔ فائونڈر کے لئے جو سب سے بڑا سبق سیکھنے کا ہے کہ وہ پرانے گھر اور پرانے مکینوں کی جگہ نیا گھر اور نئے مکین لائے اور اس کو بہترین ٹریڈ آرگنائزیشن بناتے ہوئے گراس روٹ سے لے کر قیادت تک عہدے اور عہدوں کے مطابق ان کو یکساں پاور دیں۔ اگر وہ اب بھی ایسا نہ کر پائے تو پھر یاد رکھیں آئندہ انتخابات میں ووٹر تو بہت دور کی بات، اس کو امیدوار بھی نہیں ملیں گے۔ فائونڈر کی قیادت اور ورکرز کے درمیان جو لحاف کئی عشروں سے اوڑھا ہوا ہے اس کو اتارنا ہوگا اور دانشمندی کا تقاضا تو یہ ہے کہ فائونڈر کے اندرونی ماحول کو بدلیں۔ آج بھی فائونڈر کے اندر اچھی قیادت اور ایسے لوگ موجود ہیں جو اس کے اقدار کو برقرار رکھنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ بس بات صرف اختیارات اور اختیارات کو طاقت دینے کی ہے۔
اور آخری بات…
بقول سقراط جب تک تم اپنے لوگوں اور اپنی جماعت کے ورکرز جو عرصہ دراز سے تمہارے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ان کو بڑا بنائو وہ بڑا بنیں گے تو تمہاری حیثیت اور مقام بھی بڑا ہوگا۔ میرے نزدیک سقراط کا یہ فلسفہ ہی بہت بڑا سبق ہے۔ ہار جیت ہر کھیل کا حصہ ہوتی ہے، ہارنے والے کو اپنی خامیوں پر توجہ دینی ہوگی اور ہر ٹریڈ باڈی کو پاورز کو بجائے اپنے پاس رکھنے کے تقسیم کرنا ہی ان کے اور ورکرز کے مفاد میں بہتر ہے… باقی رہے نام اللہ کا…
تبصرے بند ہیں.