سموگ کی وجہ انڈیا سے آنے والی آلودہ ہوائیں یا؟

164

ہر برس موسم سرما کی آمد کے ساتھ فضائی آلودگی کی شرح میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ لاہور حالیہ دنوں میں بدترین فضائی آلودگی کی زد میں ہونے کے باعث دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہونے لگا ہے، لاہور میں فضائی آلودگی کی سطح عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی مقرر کردہ حد سے 80 گنا سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔فضائی آلودگی سے عوام کو سانس کی بیماریوں سمیت آنکھوں اور جلد کی الرجی کے علاوہ شدید ذہنی کوفت کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ انسانوں کے ساتھ حیوانوں اور ماحول پر بھی شدید منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ماہرین ماحولیات کے مطابق اس حد تک بڑھتی ہوئی آلودگی صرف انسانوں کے لیے نہیں بلکہ شہر میں موجود چرند پرند اور نباتات کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔‘

سموگ کی اصطلاح دنیا میں پہلی بار 1950 میں استعمال ہوئی، جب مغرب میں صنعتی انقلاب کے بعد انھیں سموگ کا سامنا کرنا پڑا۔ پاکستان، انڈیا اور بنگلہ دیش اس وقت فضائی آلودگی کے سب سے بڑے متاثرین ہیں جبکہ پنجاب حکومت وہی پرانے روائتی حربے اور طریقے استعمال کر رہی ہے،اس ضمن میں ماحولیاتی تحفظ کے ایک سینئر آفیسر راجہ جہانگیر انور نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ فضائی آلودگی کے حوالے سے ’ہم کبھی ایک ہزار کی سطح پر نہیں پہنچے ہیں۔دوسری جانب وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا ہے کہ انڈیا فضائی آلودگی کو اس طرح کنٹرول نہیں کر رہا جیسے پنجاب میں اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔یہ بات انہوں نے ایک پر ہجوم پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتائی کہ انڈیا سے آلودگی کے آنے سے لاہور میں فضائی آلودگی کا انڈیکس ایک ہزار تک پہنچ گیا ہے جو کہ الارمنگ ہے۔انہوں نے کہا کہ ’پنجاب حکومت نے اقدامات کیے تھے تاہم فضائیں کنٹرول نہیں کی جا سکتیں۔‘ انہوں نے یہ بھی کہا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے کسانوں کو سپر سیڈر فراہم کیے جا رہے ہیں جن سے فصلوں کی باقیات جلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔عظمیٰ بخاری نے مزید کہا کہ سموگ پہلے بھی ملک میں ہوتی تھی تاہم پہلے کبھی یہ نہیں دیکھا گیا اینٹوں کے بھٹے مسمار کیے گئے ہوں اور آلودگی پھیلانے والی گاڑیوں کے چالان کیے گئے ہوں۔وہ فیکٹریاں بھی گِرائی جا رہی ہیں جو دھواں چھوڑ رہی ہیں۔ اسی طرح کئی اینٹوں کے بھٹّے گرائے گئے ہیں جو نئی ٹیکنالوجی پر شفٹ نہیں ہو رہے۔ لیکن بارڈر پار ایسا کچھ نہیں ہو رہا جس سے ہم بھی متاثر ہو رہے ہیں۔‘ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’محکمہ تحفظ ماحول کو پہلے سے زیادہ طاقتور کیا جا چکا ہے۔ اب ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ کسی بھی دباؤ کے بغیر اپنی طاقت کو استعمال کریں اور سموگ کا باعث بننے والوں کے خلاف کارروائیاں کریں۔‘ فضائی آلودگی پر قابو پانے کے لیے حکومت پنجاب نے لاہور کے 11 علاقوں میں گرین لاک ڈاؤن بھی لگایا، تاہم یہ اقدام مؤثر ثابت نہیں ہوا۔

ادھر پنجاب پولیس کو بھی اس کے سد باب کے لئے احکامات جاری کئے گئے ہیں، پولیس نے سموگ کے سدباب کے لیے ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والے 1035 افراد کو گرفتار کیا اور 1330 مقدمات درج کیے ہیں۔ پنجاب پولیس کے مطابق لاہور میں 73 ملزمان کو حراست میں لے کر 184 مقدمات درج کیے گئے ہیں۔پولیس کی جانب سے زہریلا دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف کارروائیاں بھی جاری ہیں۔ جس میں چھ لاکھ گاڑیوں کے چالان کیے گئے اور ڈیڑھ لاکھ گاڑیوں کو غیر معیاری فٹنس پر بند کیا گیا۔ 10 ہزار گاڑیوں کے فٹنس سرٹیفکیٹ بھی معطل کیے گئے۔ان اقدامات کے ساتھ ساتھ کروڑوں روپے کے جرمانے بھی عائد کیے گئے ہیں تاکہ شہریوں کو فضائی آلودگی کے قوانین پر عمل کرنے کی ترغیب دی جا سکے۔

سردیوں کے موسم میں پاکستان کے بڑے شہروں میں سخت دھند دیکھنے کو ملتی تھی مگر سموگ کا نام پہلی بار 2015 میں پاکستانیوں نے سنا۔ اس کی ممکنہ وجوہات میں انڈسٹری کی جانب سے ماحولیاتی آلودگی کے قوانین سے انحراف، فصلوں کی باقیات کو آگ لگانا، کارخانوں میں ناقص ایندھن کے استعمال سے پیدا ہونے والا دھواں،لاہور جیسے بڑے شہر میں لوہا پگھلانے کے لیے بے شمار بھٹیاں اور فیکٹریاں لگائی گئیں ہیں۔ ’ان فیکٹریوں میں لوہا پگھلانے کے لیے کاربن پاؤڈر کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے اور بڑھتی ہوئی ٹریفک سے پھیلنے والی آلودگی شامل ہیں۔عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال فضائی آلودگی سے اموات کی تعداد 70 لاکھ کے قریب ہے۔ پاکستان بھر میں بھی یہ تعداد لاکھوں میں ہے۔یونیورسٹی آف شکاگو کی ایک رپورٹ کے مطابق فضائی آلودگی کے باعث پاکستان میں اوسط عمر میں ڈھائی سال کی کمی واقع ہوئی ہے، جبکہ زیادہ متاثرہ شہروں میں یہ اوسط عمر پانچ سال تک بھی کم ہوئی ہے۔
چین میں بھی صنعتی دھویں کی بدولت، مختلف شہروں میں سموگ کے مسائل رہتے ہیں۔ فی الحال بارش کے سوا اس کا کوئی اور وقتی حل موجود نہیں، البتہ چین کے ان شہروں میں مخصوص ڈیزائن کی گاڑیاں ہائی پریشر سے پانی کو دو میٹر بلندی تک سپرے کرتی ہیں، جس سے پانی کے انتہائی چھوٹے ذرات ہوا میں موجود میکرو پارٹیکلز کو ہوا سے الگ کر دیتے ہیں۔ یوں اس عمل سے فضا کافی حد تک صاف ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی بڑے شہروں میں یہ طریقہ استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ الیکٹرک ٹرانسپورٹ بہترین متبادل ہو سکتا ہے۔

اپنے ماحول کو پاک اور صاف بنانے کے لیے درخت لگائیں یا ایسے اداروں کا ساتھ دیں جو درخت لگانے کے لیے سرگرم ہوں۔ درخت قدرتی طور پر فلٹر کا کام کرتے ہیں اور ان سے فضا صاف ہوتی ہے۔فضائی آلودگی کے بارے میں شعور پیدا کریں ۔فضائی آلودگی ہر ایک انسان کے لیے عذاب بن چکی ہے۔ بطور ذمہ دار شہری اپنے حلقہ احباب میں فضائی آلودگی کے بارے میں شعور پیدا کریں اور اسے انفرادی طور پر کم کرنے کی کوششیں کرنے کی ترغیب دیں۔

فضائی آلودگی کے بارے میں حکومت اقدامات کرے اور اسے کم کرنے کے لیے حکومت کو حفاظتی اقدامات کرنے چاہئیں جس میں سخت قانون سازی شامل ہو۔ حکومت گاڑیوں سے خارج ہونے والے دھویں کے بارے میں قانون سازی کرے جبکہ ری نیوایبل انرجی کو فروغ دے۔

تبصرے بند ہیں.