کارل مارکس نے کہا تھا کہ بنی نوع انسانیت کی تاریخ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ ہے۔ گزشتہ ادوار کے مقابلے میں سرمایہ داری دورمیں طبقاتی تفریق بہت حد تک واضح ہو چکی ہیں یا یوں کہہ لیں کہ کھل کر سامنے آ چکی ہے آج کی نشست میں جس اہم موضوع کو بروئے کار لانا مقصود ہے وہ پاکستان کی تنزلی اور تباہی کی جانب ہے جو پاکستان کے پرائیویٹ، نیم سرکاری حتیٰ کہ سرکاری ادروں میں یونین،ٹریڈ یونین اور نجانے کس کس نام سے بنائی جانے والے یونینز کا بڑھتا ہوا بلکہ بگڑتا ہوا عمل دخل ہے جو پاکستان کے نظام کو دیمک کے طرح چاٹ رہا ہے ۔
بھلے وقتوں میں ٹریڈ یونینز کے عہدیداران اداروں کی ترقی اور بہتری کے لئے اپناکردار ادا کیا کرتے تھے اس وقت اداروں کے مفادات کو ترجیح دی جاتی تھی اور ذاتی مفادات کو پس پشت رکھا جاتا تھا ٹریڈ یونینز کے قیام کا مقصدمزدور طبقہ وملازمین کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کا تحفظ ہوا کرتا تھا سرکاری محکموں میں تو ٹریڈ یونیز کا تصورہی نہیں کیا جا سکتاتھا البتہ ٹریڈ یونیز نیم سرکاری اداروں اور کارپوریشنز میں بنائی جا سکتی تھیں ان یونینز کا آغاز تو صدرایوب دور میں ہو چکا تھا جبکہ ذوالفقاربھٹو نے نیشنلائزیشن کا نعرہ لگادیاتھا اس کامقصدصرف اقتدار پر قبضہ تھایہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ قائم ہے کہ ہمارے یہاں لیڈر محض اقتدار کی طرف دیکھتے ہیں عوام کی طرف کوئی نہیں دیکھتا ملک کے لئے کوئی نہیں سوچتا حالانکہ اصلی لیڈر وہ ہوتا ہے جو اقتدار کا نہیں بلکہ عوام کا سوچے!
ذوالفقار علی بھٹو کا اس وقت کیا گیا یونین سازی کی آزادی کا سیاہ فیصلہ قوم پچاس برس بعد بھی بھگت رہی ہے اور نجانے کب تک بھگتے گی؟تمام فیکٹریوں کو نیشنلائز کر دینے کے اس فیصلے نے پاکستان کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے ترقی کا سفر رک گیا فیکٹریاں، ادارے بند ہو گئے اور تمام مالکان کے دلوں میں خوف و ہراس بیٹھ گیا، فیکٹریاں حکومتی کنٹرول میں کام کریں گی اس مکروہ فیصلے نے تمام مالکان کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا کیونکہ اور تو کچھ ان کے ہاتھ میں رہنا نہیں تھا سو وہ موم بتیاں بیچنے پر مجبور ہو گئے!
اس وقت ملک میں واپڈا،پی آئی اے، سٹیل ملز، ریلوے،ایل ڈی اے، ایکسائز،پاکستان پوسٹ، کسٹم،ینگ ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکس، اساتذہ الائنس، وکلا برادری، سوئی گیس، پورٹ ٹرسٹ،واسا، نادرا، او جی ڈی سی ایل سمیت تمام سرکاری اور غیر سرکاری داروں سمیت جہاں جہاں یوینز ہیں ان کا حال سب کے سامنے ہے یونینزجو کہ اشرافیہ کا روپ دھار چکی ہیں کی جانب سے کسی بھی ادارے کے مالکان یا ملازمین کو زدو کوب کیا جاتا ہے توبے بس طبقے میں پائی جانے والی بے چینی و اضطراب کے نتیجہ میں آئے روز ریلیاں اور دھرنے،روڈ بلاک بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔۔
اس حوالے سے ایل ڈی اے کے ایک سابق وائس چیئرمین ایس ایم عمران صاحب کے انکشافات نے اس وقت مجھے حیران کر دیا جب انہوں نے کہا ’’میں یونین بازی کو اس قدر طاقتور نہیں سمجھتا تھا مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ایل ڈی اے کی یونین بازی میں کروڑوں روپیہ خرچ کیا جاتا ہے اس معاملے میں ان یونینز کا حصہ بن چکے افراد اپنے مفاد کی خاطر کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں بلکہ گر سکتے ہیں یہاں تک کہ الیکشن میں اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کے لئے ایک دوسرے کے خاندان کے افراد حتیٰ کہ بچوں کو نقصان پہنچانے سے بھی گریز نہیں کرتے‘‘۔
ایک اور ہمدم دیرینہ میاں تجمل حسین مرحوم جن کی موجودہ میٹرو والی جگہ ٹھوکر نیاز بیگ میں ٹیکسٹائل فیکٹری ہوا کرتی تھی مرحوم سابق صدر لاہور چیمبر بھی رہے ساتھ ہی ساتھ ترکی کے اعزازی قونصلیٹ جنرل کے عہدہ پر بھی فائز رہ چکے تھے راقم انکے ساتھ ترکی کا سفر بھی کر چکا ہے انتہائی سچے، متحرک اور شریف النفس انسان تھے (اللہ تعالیٰ انکی مغفرت فرمائے) انکی ٹیکسٹائل فیکٹری میں ہزاروں کی تعداد میں ملازمین کام کیا کرتے تھے اس فیکٹری سے مال پوری دنیا کے ممالک میں جاتا تھا ایک وقت آیا کہ انکی فیکٹری میں بھی یونین سازی کی لعنت کا آغاز ہو گیا اس حوالے سے احتجاج جاری تھا کہ میاں تجمل حسین مرحوم وہاں پہنچے وہ جیسے ہی گاڑی سے نیچے اترے یونین کے صدر نے انہیں گریبان سے پکڑ کر گھسیٹا یونین مافیا کے لیڈر کی اس نازیبا حرکت کے بعد میاں تجمل حسین مرحوم نے اٹھتے ہوئے خود اعلان کیا کہ آج سے میں یہ ٹیکسٹائل فیکٹری بند کرنے کا اعلان کرتا ہوں یہ کہہ وہ گاڑی میں بیٹھ کر واپس چلے گئے اور دوبارہ فیکٹری نہیں کھولی انہوں نے دھمکانے والے یونین لیڈر کے ساتھ افہام تفہیم کی کوشش کی بجائے فیکٹری واقعی بند کر دی اور ہزاروں لوگ بے روزگار ہو گئے اور ایک اور ادارہ بند ہو جانے کی صورت میں پاکستان کی ترقی کی راہ ایک مرتبہ پھر متاثر ہوئی۔ پاکستان کی پہلی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ائر لائنز ان دنوں یونین اشرافیہ کی بدولت بستر مرگ پر ہے اور اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے کبھی پی آئی اے کا بول بالا دوسرے ممالک میں بھی ہوا کرتا تھا لیکن آج اسی پی آئی اے کو ہر سال حکومت کو بیل آئوٹ پیکیج دینا پڑتا ہے کیونکہ پی آئی اے کا عروج بھی یونین سازی کی بھینٹ چڑھ گیا کس کس ادارے کا نام لیں ہر ادارہ ہی اس یونین اشرافیہ کی بھینٹ چڑھ چکا ہے اس یونین سازی کے ہاتھ پر کس کس ادارے کا لہو تلاش کریں گے؟ ۔
پاکستان ریلویز جس کی کارکردگی کبھی ہمارے لئے قابل فخر ہوا کرتی تھی آج قابل افسوس ہے یونین نے اپنے اپنے خاندان کے افراد کو یونین کے بل بوتے پر ملازمت دلوا کر تمام اداروں کی کارکردگی کا ستیاناس کر دیا ہے۔
پاکستان سٹیل ملز جو کبھی ملک کو کما کر دیا کرتی تھی لیکن ٹریڈ یونیز نے پاکستان سٹیل ملز کا بھی بیڑا غرق کر دیا ہے۔ آج پاکستان کے یہ بڑے بڑے ادارے نجکاری کے مراحل سے نبرد آزما ہو رہے ہیں اور نفع بخش ہونے کے بجائے تنزلی اور خسارے کا شکار ہیں ا گر ہم اپنے ملک میں کامیابی و کامرانی اور اداروں کو پھلتا پھولتا ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں تو ملک کے بہترین مفاد میں تمام اداروں میں ٹریڈ یونینز کی مداخلت کے بغیر آزادی سے اپنا کام کرنے دیا جائے عین ممکن ہے کہ حدود سے تجاوزکر چکی یونین مافیا کا قلع قمع کرنے سے پاکستان پھر سے بہتری کی جانب گامزن ہو سکے یہ چھوٹا سا قدم شائد بڑی تبدیلی لا سکے، لیکن یونین اشرافیہ کا خاتمہ شرط ہے معلوم نہیں کتنے ہزار فیکٹریاں بند ہو چکی ہیں اور کتنے لاکھوں کروڑوں لوگ بے روزگار ہو چکے ہیں ورنہ پاکستان آج یقینا سپر پاور ہوتا بقیہ اگلی نشست میں۔ (جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.