آخر کار پی آئی اے کی نجکاری کے حوالے سے چھائی دھندچھٹ کر منظر صاف شفاف سامنے آ گیا ۔ پی آئی اے کو پنجاب انٹر نیشنل ائرلائنز یا پختون انٹرنیشنل ائر لائن بنانے کی تمام خواہشات اور دل کے نہاں خانوں میں پلنے والی خواہشات نے دم توڑ دیا ۔ پی آئی اے کی نجکاری کے سامنے آتے ہی ایک ایسا طوفان ِ بدتمیز سامنے آیا کہ الا مان الامان کی صدائیں فضا میں گونجتی سنائی دیں۔ یقینا ہم نے عالمی سود خوروں کے عالمی معاشی ایجنڈے پرعمل کرتے ہوئے اس کی نجکاری کی طرف جانا ہے لیکن دنیا جان لے کہ پاکستان کا وعدہ پی آئی اے کی نج کاری کا ہے نہ کہ عالمی یا مقامی سرمایہ کاروں کی خواہش کے ریٹ پر اُن کے سپرد کرنے کا ۔ نجکاری کا جو ماڈل شکاگو سکول آف تھاٹ ہمیں پڑھا رہا ہے اُ سمیں توبس نجکاری کردیں کسی بھی قیمت پر لیکن کیا ہمارے پاس پی آئی اے کیلئے صرف یہی ایک رستہ ہے کہ ہم اپنی اس قومی غیرت کو بھی کہیں گروی رکھ دیں ؟ جیسا کہ اس سے پہلے بھی نجکاری کے حوالے سے پی ٹی سی ایل ٗ یوبی ایل اور ایم سی بی ہمارے سامنے ہیں ۔نجکاری کامطلب عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینا ہے تو کیا پاکستان کے نسل در نسل حکمران سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتے ہیں کہ اس سے پہلے ہونے والی نجکاری کے ثمرات پاکستان کے عام آدمی تک پہنچے تھے ؟ اس کا دیانتدارانہ جواب تو یہی ہو سکتا ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوا ۔ ہم اپنے اداروں کی نجکاری کا وعدہ عالمی سود خوروں سے کرنے پر کیوں مجبور ہو جاتے ہیں ؟اس سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو نے اداروں کو قومیانے کا تلخ تجربہ کیا جب کہ اداروں کو نیشنلائز کرنے کیلئے جس کیڈر کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھٹو صاحب کے پاس نہیں تھا ۔ نجکاری کا معاملہ بھی اُسی سے ملتا جلتا ہے کہ ہم اپنے اداروں یا ادارے کو بیوروکریسی کے 8ریعے بیچنا چاہتے ہیں ۔ وہی بیوروکریسی جس کے پاکستان پر اعتماد کا عالم یہ ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ کے بعد براق کی رفتار سے پاکستان کی جغرافیائی حدود سے نکل جانا چاہتا ہے ۔پاکستان کے حقیقی حکمران جانتے ہیں کہ جس معاشی ماڈل پر نجکاری کرنے کی خواہش کی جارہی ہے وہ ایک ناکام تجربہ ہو گا ۔ ہم نے اسے ٹھیک کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ۔جہاز ڈوبنے لگے تو سب سے پہلے اُس کا بوجھ کم کرکے اُسے بچانے کی طرف لے جایا جاتا ہے اور اکثر جہاز بوجھ کم کرنے سے بچ جاتے ہیں ۔ پی آئی اے میں سفید ہاتھیوں کی ایک فوج ہے جو قومی خزانے کو اس رفتار سے چٹ کر رہی ہے کہ اُن کی کارکردگی پر دیمک بھی حیران ہے۔ ہمارے پاس نجکاری اورماڈرنائزیشن کے دو ہی رستے ہیں لیکن ہم ماڈرنائزیشن کی طرف تو گئے ہی نہیں ۔ ہم نے اس ادارے کو بچانے کی کوشش ہی نہیں کی اور پاکستانی سرمایہ داروں کی خواہشات دیکھ کر تو یوں لگ رہا ہے کہ وہ سارا پاکستان خریدنا چاہتے ہیں لیکن یہی سرمایہ دار اپنا سرمایہ پاکستان میں لانے کیلئے تیار نہیں ورنہ پی آئی اے کی نجکاری کی ضرورت ہی نہ پڑے ۔ ریاست بچانے کیلئے ریاست ہی کو سخت ترین اقدامات کرنا ہوں گے۔ وفاقی وزیر نجکاری، سرمایہ کاری بورڈ اور مواصلات عبدالعلیم خان نے لاہور میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان انٹرنیشنل ائیر لائن ہم سب کا قومی اثاثہ ہے جسے بہتر پالیسیوں اور مناسب سرمایہ کاری کے ساتھ آج بھی منافع بخش بنایا جا سکتا ہے اور ہم اسے کسی طور بھی اونے پونے داموں نہیں بیچ سکتے اور اگر کے پی کے، پنجاب یا کسی اور صوبے کی حکومت پی آئی اے کی نجکاری میں حصہ لینا چاہتی ہے تو ہم اُن کا خیر مقدم کریں گے۔ پی آئی اے کی نجکاری کا ڈھانچہ میری چھ ماہ کی وزارت سے پہلے ہی شروع ہو چکا تھالیکن میرے پاس اُس فریم ورک میں تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں تھا اور نہ ہی میری ذمہ داری پی آئی اے کو ٹھیک کرنے کی تھی ۔میرا کام پی آئی اے کو بیچنا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں لیکن قوم بخوبی جانتی ہے کہ پی آئی اے کو اس حال تک پہنچانے میں ہر حکومت نے بلا تفریق اپنا حصہ ڈالا۔عبد العلیم خان کا کہنا تھا کہ میں بطور وفاقی وزیر نجکاری اُن قوانین و ضوابط کا پابند ہوں جن کے تحت مجھے نجکاری کے عمل کو آگے بڑھانا ہے اور پی آئی اے کی نجکاری ضرور کریں گے اور بہتر انداز میں کریں گے اور جہاں تک میری وزارت کا تعلق ہے میں نے مواصلات کے شعبے میں پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی سرکاری ادارے کی طرف سے 50ارب روپے کے ریونیو کا اضافہ کیا ہے۔ جس کے لئے میں نے نہ تو کوئی تشہیری مہم چلائی نہ اشتہارات دیئے اور نہ ہی اداریے لکھوائے۔ یہ میرا قومی فریضہ ہے کہ میں اس ملک کی بہتری اور غریب عوام کے پیسے کو بچانے کے لئے اپنے فرائض سر انجام دوں۔ عبدالعلیم خان نے کہا کہ ایسے لوگ بھی مجھ پر تنقید کرتے ہوئے نصیحتیں کر رہے ہیں جو خود لمبا عرصہ پرائیویٹائزیشن کے محکمے کے وزیر رہے،اگر وہ اپنے دور میں اس مسئلے کو حل کر لیتے تو آج یہ معاملہ مجھ تک نہ پہنچتا۔عبد العلیم خان نے بتایا کہ پاکستان پوسٹ کے محکمے سے ایسی 3500آسامیاں ختم کرائی ہیں جو قومی خزانے پر 2.8ارب روپے کا بوجھ تھیں حالانکہ نوکریاں کسی بھی سیاسی رہنما کیلئے بنیادی ضرورت ہوتی ہیں لیکن میں نے ملکی مفاد کو اپنی سیاست پر ترجیح دی۔
عبد العلیم خان نے بتایا کہ پی آئی اے کے باقی ماندہ 200ارب روپے کے واجبات کو بھی حکومت نکال کر ”کلین پی آئی اے”دے سکتی ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل شفاف تھااور سب کچھ میڈیا کے کیمروں کے سامنے ہوا اور لائیو دکھایا گیا۔ ایک دوسرے کو الزام اور ماضی کو رونے کے بجائے ہمیں آگے بڑھنا ہے اس وقت پی آئی اے کے علاوہ9ڈسکوز کی نجکاری پائپ لائن میں ہے، جہاں تک سرمایہ کاری کا تعلق ہے صرف سعودی عرب سے ایم او یوزکی تعداد 34اور 2.8ارب روپے کی سرمایہ کاری سے مختلف معاہدوں پر عملی پیشرفت کا آغاز ہو چکا ہے۔ روس اور چین سے سرمایہ کار آ رہے ہیں اور جہاں تک میرے محکموں کا تعلق ہے مواصلات کے شعبے میں سالانہ ریونیو آئندہ 5 برس میں 500ارب تک لے جائیں گے۔24کروڑ لوگوں کے پاس صرف ایک ائیر لائن جہاں سے وہ ڈائریکٹ فلائٹ کے ذریعے یورپ اور امریکہ جا سکتے ہیں اور ادارے میں بہتری لا کر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔عبد العلیم خان کی پریس کانفرنس کو بغور سنا انہوں نے صحافیوں کے تلخ سوالات کے جواب مسکراتے چہرے کے ساتھ دئیے۔ پی آئی اے کی نجکاری ضرور کریں مگر ریاست کے ذمہ داری ہے کہ وہ قومی سرمایہ کار کو اپنے پیروں پر کھڑا کرے کہ اس طرح ہم اپنے قومی اداروں سے بہت مستفید ہو سکتے ہیں ۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.