انتشار کی سیاست بانی پی آئی کے گلے پڑ گئی

91

بعض لوگوں کے بارے میں کہا جاتاہے کہ وہ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار ہیں۔ اسی طرح ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بھلا اور یہ اس وقت بانی پی ٹی آئی کے دست راست ذلفی بخاری پر پورا اترتی ہے جس نے آکسفورڈ یونیورسٹی چانسلر کے انتخابات کے چکر میں بانی پی ٹی آئی کی رہی سہی عزت کو بھی خاک میں ملا دیا اور ساتھ ہی پارٹی میں موجود تقسیم کے عمل کو مزید خلفشار اور انتشار کا شکار کردیا اسی وجہ سے اب ذلفی بخاری کو مختلف حلقوں کی تنقید کا سامنا ہے۔ پارٹی پر قبضے کی جنگ میں ذلفی بخاری بھی مصروف ہے۔ اب اس کی جانب سے آکسفورڈ یونیورسٹی کیخلاف عدالت میں جانے کا اعلان بانی پی ٹی آئی کی مزید بدنامی کا باعث بنے گا کیونکہ دنیا کی کوئی بھی یونیورسٹی کسی مجرم کو تو اپنا چانسلر منتخب نہیں کرسکتی۔ ذلفی بخاری کی اس حرکت پر بانی پی ٹی آئی کی بہن روبینہ خان نے الزام عائد کیا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو کیا شوق پڑا ہے آکسفورڈ یونیورسٹی چانسلر بننے کا۔ یہ ذلفی بخاری نے اپنی ذاتی تشہیر کے لیے شوشہ چھوڑا ہے۔ اس نے آج تک کوئی ایسا کام نہیں کیا۔ اس کا خیال ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کا چانسلر بننا کوئی بہت بڑی چیز ہے۔‘روبینہ خان نے دعویٰ کیا کہ ’اس (ذلفی بخاری) نے جیل میں پڑے اس بیچارے کو خوامخواہ اس جگہ پھنسا دیا۔ اس حوالے سے واضح ہو گیا کہ پی ٹی آئی جو پہلے ہی تقسیم اور خلفشار کا شکار ہے اس کیلئے یہ نیا معاملہ مزید پریشان کن ہے اور لگتا ایسے ہی ہے کہ بہت جلد یہ پارٹی قصہ پارینہ بن جائے گی۔ اگرغور سے چیزوں کا مشاہدہ کیا جائے تو پی ٹی آئی کی اصل صورتحال باآسانی سمجھ آسکتی ہے، بشریٰ بی بی کی رہائی، اس کا پشاور جا کر علی امین گنڈاپور کے ساتھ بیٹھنا، سینئر قیادت کا اس سے نالاں ہونا پھر بشریٰ بی بی کی جیل میں بانی پی ٹی آئی سے ملاقات اور زمان پارک چلے جانا ثابت کرتاہے کہ معاملات کافی خرابی کی جانب جا رہے ہیں، اسی طرح علیمہ خان کا جیل سے ضمانت پر رہا ہونا اور پارٹی کے کچھ سینئر قائدین پر تنقید کرنا ، بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے بنائی جانے والی پالیسیوں کو ناقص قرار دینا بھی ثابت کرتا ہے کہ پارٹی میں بشریٰ بی بی اور علیمہ خان کا گروپ وجود میں آچکا ہے اور دونوں ایک دوسرے کیخلاف نبرد آزما ہیں۔ ادھر سیاسی تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ بقول رؤف حسن کے احتجاجی تحریک کا آغاز 8 نومبر سے ہی ہوگا وہ بار بارتاریخ دے رہا ہے مگر ابھی تک اس تاریخ کے حوالے سے نہ ہی پی ٹی آئی چیئرمین گوہر خان، سیکرٹری سلمان اکرم راجا اور نہ ہی بانی پی ٹی آئی نے کوئی حتمی رائے دی ہے، دوسری جانب شیر افضل مروت الگ سے پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کیلئے درد سر بنا ہوا ہے اس کے بیانات اور اعلانات پریشان کن بن چکے ہیں اب تو وہ باقاعدہ سلمان اکرم راجا جیسے لوگوں کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ سیاسی تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ ایسے حالات میں احتجاجی تحریک تو دور کی بات یہ ایک مکمل احتجاجی جلسہ کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ سیاسی تجزیہ کار بھگوڑے مراد سعید کی جانب سے ایکس اکائونٹ پر ایک پوسٹ شیئر کرنے پر بھی اس کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جس میں اس نے سلمان اکرم راجا کے حوالے سے ایک طویل پوسٹ کی ہے جس کا لب لباب یہی ہے کہ تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جائے، آئی ایس ایف کے کارکن باہر نکلیں اور سب سے اہم بات اس میں یہ کی گئی ہے کہ دہشتگردی کے دوران جن کے شہید ہوئے، گھر تباہ ہوئے وہ بھی اس تحریک میں شامل ہوں، سیاسی تجزیہ کار ان سے سوال کرتے ہیں کہ آپ دوسرے کے بچوں کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں، پولیس کے سامنے لاکھڑا کرتے ہیں جب وہ گرفتار ہوتے ہیں تو کوئی ان کو پوچھنے والا نہیں ہوتا، خود مفرور ہو جاتے ہیں، بھاگ جاتے ہیں ، اگر آزادی کا اتنا ہی شوق ہے تو پہلے تم باہر نکلو دوسروں کے بچوں کو استعمال مت کرو۔ سیاسی تجزیہ کار یہ بھی کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ دہشتگردی خیبرپختونخوا میں ہوئی مگر وہاں پی ٹی آئی کی حکومت ہے، وزیر اعلیٰ نے کیا کچھ کیا ہے اس کو روکنے کیلئے۔۔۔؟ تم شہدا کے لواحقین کو بلاتے ہو تمہیں شرم نہیں آتی تمہارا وزیر اعلیٰ یا کوئی صوبائی وزیر تو ان کے جنازوں تک میں شرکت نہیں کرتا اب ذرائع سے یہ بھی خبریں آرہی ہیں کہ اندرونی انتشار اور خلفشار، عوامی سطح پر عدم پذیر ائی اور کوئی متفقہ لائحہ عمل نہ ہونے کی وجہ سے احتجاجی تحریک اور تمام جلسے جلوس منسوخ کر دیئے گئے ہیں۔ مذکورہ بالا حقائق اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی میں ہربندہ اپنا لائحہ عمل لیکر چل رہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی کی رہائی میں کسی کو کوئی دلچسپی نہیں ہے، عمر ایوب سے لے کر مراد سعید تک سب کے سب اپنی شخصیات کو اجاگر کرنے کے چکر میں ہیں ،حتیٰ کہ قریب ترین رشتے بہن علیمہ خان اور اہلیہ بشریٰ بی بی تک واضح طور پر نظر آرہا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے ساتھ مخلص نہیں ہیں، سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ دراصل جو منفی سیاسی اور تقسیم کی سیاست بانی پی ٹی آئی نے شروع کی تھی آج اس کے گلے پڑ چکی ہے۔

تبصرے بند ہیں.