حالات اس قدر مشکل ہوتے جا رہے ہیں کہ غریب تو کیا سرمایہ داروں کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ ہر آنے والا دن اپنے ساتھ مشکلات کی بھرمار لے کر طلوع ہوتا ہے ۔ ایسے میں غریب اور سفید پوش لوگ تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ لوگوں کی قوت خرید کم ہوتی جا رہی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ سالوںسال گوشت، دودھ اور اس جیسی غذائی قلت دور کر نے والی خوراک استعمال نہیں کر پارہے ۔ جس کی وجہ سے جہاں حالات کی ستم ظریفی اور جس کی نتیجے میں ہونے والی ڈپریشن اور فرسٹریشن جیسی لعنتوں کو لوگوں نے اپنے گھیرے میں لیا ہوا ہے ، غذائی قلت کا شکار ہونے کی وجہ سے بیماریاں بھی تیزی کے ساتھ حملہ آور ہیں اور یوں غریب آدمی پر زندگی عذاب بنتی جا رہی ہے ۔
حکمران صرف مہنگائی کے گراف کو سنگل ڈیجٹ پر لانے کی زبانی دعووں کے علاوہ اور کچھ نہیںکر رہے ۔ ذخیرہ مافیا اور گرانفراشی کرنے والے دھڑلے کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہیں اور اسے کنٹرول کر نے والے ادارے اپنا حصہ لے کر خاموش تماشائی کا کردار اداء کر رہے ہیں۔ ابھی حالیہ دنوں میں شہر لاہور میں تجاوزات کے خلاف جاری رہنے والی مہم میں متعلقہ اداروں کے ملازمان و افسران کی جانب سے کرپشن و حرام خوری کی ایسی ایسی داستانیں سننے کو ملی ہیں کہ کیسے یہ لوگ صرف اپنے ذاتی مفاد کی خاطر اپنے فرائض سے لاپرواہی و غفلت میں مبتلا ہیں اور جو ان کی مٹھی گرم کر رہا ہے ، وہ تو بد معاشی کے ساتھ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے اور جو غریب ہے اور اپنے بچوں کا رزق بمشکل پورا کر رہا ہے اور ان کی مٹھی گرم کرنے کی سکت نہیں رکھتا ، اس کا سارا سامان اٹھا لیا جاتا ہے اور اس کی عزت نفس کو مجروح کیا جاتا ہے ۔
قارئین کرام ! یہ بھی حقیقت ہے کہ وزیرا علیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز شریف ، معاملات کو بہتر کر نے میں انتہائی سنجیدگی کے ساتھ اپنے کام میں مصروف ہیں لیکن بیورو کریسی میں کچھ ’’بابو‘‘ مزاج افسران انہیں اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہونے دیتے اور بلکہ ہمدردی کی بجائے لوگوں کے دلوں میں مسلم لیگ کی حکومت کے خلاف نفرتیں پیدا کی جا رہی ہیں جس کی تازہ مثال سموگ کی آڑ میں غریب ڈرائیوروں کے ہزاروں روپے کے چالان ہیں ۔ کیا یہ ظلم نہیں کہ محکمہ ٹرانسپورٹ نے گاڑیوں کی مکمل فٹنس کا اپنا ایک ادارہ VICSکے نام سے بنایا ہوا ہے جہاں بڑی سختی کے ساتھ آن کیمرہ گاڑیوں کی فٹنس، انجن، دھواں اور دیگر چیزوں کو بغور کمپیوٹرائزد مشینوں اور انجئیرز کی زیر نگرانی چیک کیا جا تا ہے اور گاڑیوں کو فٹنس سرٹیفیکٹ جاری کیا جاتا ہے اور یہ عمل ہر چھ مہینوں بعد ہوتا ہے ۔ پاسنگ و دیگر کاغذات مکمل ہونے کے باوجود سموگ کی آڑ میں دس ہزار روپے کا چالان کس قانون کے تحت کیا جا رہا ہے؟ اس کا مطلب ہے کہ محکمہ ٹرانسپورٹ کو اپنے ہی قائم کردہ ادارے کی پاسنگ پر یقین نہیں اور اگر یقین ہے تو پھر لاتعداد چالان کرکے غریب ڈرائیوروں کے دلوں میں کیوں نفرت پیدا کی جا رہی ہے ؟ مجھے یقین ہے کہ محترم وزیر اعلیٰ اس بارے ضرور غور فر مائیں گی۔
قارئین کرام ! ان تمام تر مشکل حالات کے باوجود کہیں سے جینے کی امید پیدا ہو جاتی ہے ۔ اس گئے گذرے دور میں بھی کچھ لوگ ، اپنے لوگوں کے لئے آسانیاں تقسیم کر نے کے مشن پر گامزن ہیں ۔ ان میں سے ایک گروہ لاہور کریانہ مرچنٹس ایسوسی ایشن کا ہے جس کے مرکزی صدر ثقلین بٹ اور ان کے ساتھیوں نے مہنگائی، ذخیرہ اندوزی اور گرانفروشی کی اس دور میں معاشرے کے ہر طبقے ضروریات زندگی کی اشیاء انتہائی سستے ترین نرخوں پر فراہم کرنے کے لئے ’’فئیر پرائس شاپس‘‘ کا آغاز کیا ہے ۔ پہلی شاپ کا افتتاح لاہور میں واقع ایل۔او۔ایس روڈ پر کردیا گیا ہے اور ان کے مطابق 20ایسی مزید فئیر پرائس شاپس کا آغاز کیا جائے گا جہاں سے لوگوں کو سستا اور معیاری آٹے سمیت دیگر اشیاء بھی میسر ہوں گی۔ میں سمجھتا ہوں کہ ثقلین بٹ اور کے ساتھیوں کو یہ بہت بڑا کارنامہ ہے ۔ یہ کام حکومت کے کر نے کا تھا جو چند تاجروں نے اپنی مدد آپ کے تحت شروع کیا ہے ۔ اب حکومت کو چاہیے کہ ایسے لوگوں کی سر پرستی کرے اور جو اربوں روپے سستے آٹے کے نام پر ضائع کر دیئے جاتے ہیں ، ان سے تاجروں کے ساتھ مل کر ایسا کوئی لائحہ عمل تشکیل دیا جائے کہ فوری اورآسان طریقے سے لوگون کو سستی اشیاء میسر ہو سکیں ۔میں یہاں پھر سے وزیر اعلیٰ پنجاب ، محترمہ مریم نواز سے در خواست کروں گا کہ آپ ان تاجروں سے فوری طور پر ملاقات کریں اور ان کے اس ماڈل کو دیکھتے ہوئے حکومتی سطح پر بھی گلی محلوں تک اسے پہنچائیں جس کے نتیجے میں جہاں غریب اور سفید پوش لوگ اپنی عزت نفس کو مجروح کئے بغیر ضروریات زندگی کی اشیا ء خرید سکیں گے وہاں لوگوں کے دلوں میں عوامی حکومت کی محبت بھی پیدا ہو گی اور لوگ اپنے محسنوں کو کبھی نہیں بھولتے ۔ محترمہ وزیر اعلیٰ!!!
تبصرے بند ہیں.