ملک کسے کہتے ہیں، یہ کیسے بنتا ہے۔ ضروری ہے ایک خطہ ارضی ہو وہاں کچھ لوگ بستے ہوں، وہاں کے باسیوں کے حقوق کے تحفظ کیلئے کوئی ضابطہ قانون یا آئین ہو، آئین بنانے کیلئے ایک اسمبلی کا انتخاب کیا جاتا ہے جو آئین دے کر ختم ہو جاتی ہے، اسے آئین ساز اسمبلی کہتے ہیں۔ بعد ازاں دیئے گئے آئین کے مطابق نظام وضع ہو جاتا ہے، پارلیمانی جمہوری نظام میں اس کے تین ستون ہوتے ہیں۔ مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ، ہر ایک کا اپنا اپنا کردار ہے لیکن ستون کی تعریف پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ ستون اسے کہتے ہیں جو اپنی بنیاد پر مضبوطی سے کھڑا ہو۔ اس نے اپنے سر پر کچھ بوجھ اٹھا رکھا ہو یعنی کسی کو سہارا دے رکھا ہو۔ وہ بوجھ اٹھانے اور سہارا دینے کی صلاحیت رکھتا ہو، جو کسی بوجھ تلے خود دب جائے، اپنی جگہ چھوڑ جائے، جھک جائے یا گر جائے وہ ستون کی تعریف سے خارج ہو جاتا ہے۔ مقننہ قانون بناتی ہے، انتظامیہ اس قانون پر عملدرآمد کراتی ہے اور عدلیہ دیکھتی ہے کہ ملک کے بسنے والوں کیلئے جو قانون بنائے جا رہے ہیں وہ ان کے بنیادی حقوق کے مطابق ہیں یا ان سے متصادم ہیں اور ان پر عملدرآمد کی ذمہ دار انتظامیہ کس انداز میں اپنا کام سرانجام دے رہی ہے۔ مقننہ اور انتظامیہ سے اگر عوام الناس کو شکایت پیدا ہو تو عدلیہ انصاف مہیا کرتی ہے۔
مملکت کے تین ستون کسی بھی دوسرے ستون کو نگلنے کا استحقاق نہیں رکھتے۔ انتظامیہ یا مقننہ، عدلیہ کو ریگولیٹ نہیں کر سکتی یعنی عدلیہ کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں چلا سکتی، عدلیہ آزاد ہوتی ہے اور آزادانہ فیصلے کرنے کی پابند ہوتی ہے۔ بس یہی ایک نکتہ ہے جس پر 26ویں آئینی ترمیم کو عدلیہ نے پرکھ لیا تو یہ آئینی ترمیم ہوا میں اڑ جائے گی کیونکہ اس ترمیم کے ذریعے عدلیہ کے سربراہ کے اختیارات سلب کرنے کی کوششیں نظر آتی ہے۔ اس ترمیم کے بعد اب چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان خود سووموٹو نہیں لے سکتے۔ وہ اپنی صوابدید کے مطابق بنچ بھی تشکیل نہیں دے سکتے، یہ کام کلی طور پر ان کے تھے لیکن اب ان کا ساتھ بٹانے کیلئے کچھ اور شخصیات شریک کار بنا دی گئی ہیں، یہ سب مداخلت کے زمرے میں آئے گا۔
سوچا جا رہا ہے کہ اگر آئینی درخواستیں سننے والے بنچ میں حکومت کی سوچ سے ہم آہنگ شخصیات کی تعداد زیادہ ہو تو اکثریت فیصلے حکومت کا تقرر بطور جج ہو جائیگا۔ منصب کا حلف اٹھانے کے بعد وہ عدلیہ کا حصہ بن جائیں گے۔ کچھ جج صاحبان ہائیکورٹس سے لئے جائیں گے۔ وہ عدلیہ کا حصہ ہیں۔ اگر سب نے انفرادی طور پر نہیں بلکہ ایک ادارے کے ذمہ دار فرد، عدلیہ کے ذمہ دار جج بن کر سوچا کہ ایک ادارے کے سربراہ کے اختیارات کم کئے جا رہے ہیں یا ایک بنچ یا اس کے کسی معزز ممبر سے مرضی کا فیصلہ حاصل کرنے کی خواہش نظر آ رہی ہے اور ان شخصیات نے فیصلہ کر لیا کہ وہ ادارے کے سربراہ یا ادارے کے معزز ممبر کے اختیارات میں مداخل کو جائز تصور نہیں کرتے اور سب اس کے تحفظ کیلئے ایک موقف اپنا لیتے ہیں تو پھر 26ویں اور اس جیسی ترامیم کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟
عدلیہ کی تاریخ بہت زیادہ درخشاں نہیں ہے، بعض جج صاحبان کے فیصلے متنازع ہوئے، کچھ اہم فیصلے انصاف کے منافی قرار پائے، جن میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے کا فیصلہ شامل ہے جبکہ جناب قاضی فائز عیسیٰ کے زمانے میں ہونے والا ایک اہم فیصلہ بھی شامل ہے جو الجہاد ٹرسٹ کیس میں لکھا گیا، فیصلہ جاری ہوا، فیصلہ کرنے والے اس پر ڈٹے رہے لیکن پھر اس فیصلے میں سے متنازع اور تکلیف دہ پیراگراف حذف کرنے پر مجبور ہوئے۔
عدالتیں فیصلہ کرتی ہیں، یہ فیصلہ ایک فریق کے حق میں آتا ہے دوسرے فریق کے خلاف آتا ہے لیکن فیصلے تو تسلیم کرنے والے اور نہ تسلیم کرنے والے فریقین کے باوجود اعلیٰ عدالتیں اپنے کئے گئے فیصلوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں، اعلیٰ عدلیہ کی تاریخ میں ایک ایسا فیصلہ بھی ہوا جو اکثریتی جج صاحبان کا فیصلہ تھا جن میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ خود بھی موجود تھے۔ انہوں نے اکثریت ججوں کے فیصلے سے اختلاف کیا جو ان کا حق تھا۔ انہوں نے اپنے اختلافی نوٹ میں اپنی وجہ اختلاف تحریر کرنے میں ایک کاغذ جبکہ سابق ججوں پر تنقید میں بارہ صفحات استعمال کئے۔ بات یہیں پر ختم ہو جاتی تو معاملہ سمٹ جاتا لیکن تاریخ گواہ رہے گی۔ اکثریتی فیصلے کو پذیرائی نہ بخشی گئی اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی لیت و لعل پر بھی کوئی توجہ نہ دی گئی۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے بار دگر تحریری طور پر کہا گیا کہ وہ اس فیصلے کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ سپریم کورٹ کے منفرد جج صاحبان کی طرف سے دو مرتبہ وضاحت جاری کی گئی لیکن وہ بھی ان کی سمجھ میں نہ آئی جو نہ سمجھنے اور اس پر نہ عمل کرنے کا فیصلہ کئے بیٹھے تھے۔ مملکت خداداد پاکستان کے ستونوں کا کردار کیا نقشہ پیش کرتا ہے، مقننہ اور انتظامیہ، عدلیہ کے مقابل کھڑے نظر آئے، ان کی پشت پر کچھ نادیدہ جسم بھی کھڑے تھے۔ اب آتے ہیں اس نکتے کی طرف، اگر کچھ معزز شخصیات نے ان سب کے سامنے کھڑے ہونے کا فیصلہ کر لیا تو کیا ہوگا۔ دوسری صورت میں محمود و ایاز سب کے سب ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے تو کیا چوبیس کروڑ نہ سہی بارہ کروڑ بھی ان کے ساتھ ہی آ کر کھڑے ہو جائیں گے؟ تمام سوالوں کے جواب آنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا، سارا نظام ایک طرف اور نظام کی نظر میں چھان بورا سے زیادہ اہمیت نہ رکھنے والے عوام مقابل نظر آئے تو پھر کیا ہوگا، سب سے زیادہ اہمیت اسی سوال کی ہے۔ قانون نے نظام کو طاقت بخشی تھی کہ دشمنان پاکستان کی بیخ کنی جائے۔ یہ طاقت ایک دوسرے کو نگلنے کیلئے استعمال نہیں ہونی چاہئے۔ اس میں صرف اور صرف پاکستان کا نقصان ہے، گھمسان کا رن پڑا تو کٹھ پتلیاں بیگ اٹھا کر پہلی فلائٹ لیں گی اور پاکستان چھوڑ جائیں گی۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.