میاں نواز شریف جنرل ضیاء الحق کی مارشل لاء کی چھتری کے زیرِ سایہ برسرِ اقتدار آئے، لیکن پھر دیکھا گیا کہ ووٹ کو عزت دو کے نعرے نے میاں صاحب کو ایک اصول پسند سیاست دان کی حیثیت سے اپنے آپ کو کافی بلندی کے درجے پر فائز کر لیا تھا۔ جب کسی لیڈر کا ایسا امیج بن جائے، تو امیدکی جاتی ہے کہ وہ اپنا بھرم رکھنے کے لئے ایسا کوئی فیصلہ نہیں کرے گا، جس کی وجہ سے اس کی اصول پسندی پر حرف آئے۔ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد منتخب اراکینِ اسمبلی کی جو حمایت حاصل کی تھی وہ درحقیقت ارکان کی خریداری کہی گئی مگر ان پر بے اصولی کا الزام نہیں لگ سکتا تھا، انہیں یہ حمایت دلوائی گئی تھی، یہ لوگ غیر جماعتی بنیادوں پر منعقد ہونے والے انتخابات میں کامیاب ہو کر اسمبلیوں میں پہنچے تھے، گو وہ پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب نہیں ہوئے تھے۔ مگر 1993 میں جب منظور وٹو نے مسلم لیگ ق کی حکومت پیپلز پارٹی سے مل کر بنائی جس میں مسلم لیگ ن کے کچھ لوگ بھی شامل تھے تو میاں صاحب ان کو چھوڑ کر جانے والے لوگوں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر لئے۔ ایک وقت آیا کہ پیپلز پارٹی اور ان کے اتحادی لوٹوں کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے تو میاں صاحب کو چھوڑ کر جانے والے لوٹوں کا ایک گروپ میاں صاحب کی طرف واپس آنے کا خواہاں تھا۔ جب پیغام آیا تو ان کی تعداد اتنی تھی کہ مسلم لیگ صوبے میں اکثریت حاصل کر کے اپنی حکومت بنا سکتی تھی لیکن جنرل مجید ملک جب لوٹوں کو ساتھ لے کر ماڈل ٹاؤن پہنچے تو تب تک لوٹوں کی تعداد کافی کم ہو گئی تھی جو کہ حکومت تبدیل کرنے کے لئے مطلوبہ اکثریت سے کم تھے۔ چنانچہ انہیں خاطر مدارت کر کے واپس بھیج دیا گیا۔
جلا وطنی کے دنوں میں میاں صاحب نے بینظیر سے میثاقِ جمہوریت کیا اس طرح انہوں نے ایک انقلابی قدم اٹھایا۔ پاکستان آئے تو ان کی پارٹی نے انتخابات میں حصہ لیا، پنجاب میں پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کر کے حکومت بنا لی۔ لیکن جیسے ہی معاملات ان کے حق میں ہوئے انہوں نے پیپلز پارٹی کے وزراء کو فارغ کر کے مسلم لیگ (ق) کے اراکینِ اسمبلی کے لوٹوں کا ایک یونیفکیشن بلاک بنا کر حکومت میں شامل کر لیا۔ اس سارے عمل میں حکومت بن گئی میاں نواز شریف نے نہ صرف میثاقِ جمہوریت کی دھجیاں اڑائیں بلکہ اپنے اصولوں کی سیاست کو بھی سر عام رسوا کیا۔ بلکہ ان لوٹوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ یہ اپنے ہی لوگ تھی جو گھر واپس آ گئے ہیں لیکن بات نہیں بنی مسلم لیگ (ق) کے چودھری پرویز الٰہی نے بتا دیا کہ (ن) لیگ میں جانے والے لوٹوں میں دو ایک کے سوا کوئی پرانا مسلم لیگی نہیں۔ میاں صاحب نے اس وقت عمران خان سے ایک ملاقات میں کہا تھا کہ وہ مشرف کے ساتھیوں کو واپس نہیں لیں گے لیکن 2008ء کے عام انتخابات میں جو لوگ (ق) لیگ کے امیدوار تھے 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ ہولڈر تھے۔ میاں نواز شریف لوٹوں کی سرپرستی کر کے وزیرِ اعظم بن تو گئے لیکن جو ان کے ساتھ سلوک ہوا تو پھر انہیں سمجھ آئی کہ انہوں نے وہ گھاٹے کا سودا کیا تھا۔ قائد (ن) لیگ نے فرمایا تھا کہ اصولوں پر سمجھوتہ نہیں ہو گا پارٹی مسلم لیگ سے غداری کرنے والوں کو واپس نہیں لیا جائے گا لیکن لے لیا گیا اور اس کا نتیجہ پھر ایک بار جلاوطنی کی صورت میں سامنے آیا۔ اقتدار سے فراغت پر میاں صاحب اسلام آباد سے بذریعہ جی ٹی روڈ لاہور آئے تو وہاں انہوں نے ووٹ کو عزت دو کا ایک نیا بیانیہ متعارف کرایا پھر ان کے مقدمات کا فیصلہ آ گیا جس میں انہیں سزا ہوئی اور وہ بیماری کا بہانہ بنا کر برطانیہ کوچ کر گئے۔
عمران خان کی حکومت بنی وہ برطانیہ بیٹھے رہے، پھر جب اربابِ اختیار کو ضرورت پڑی تو انہوں نے میاں صاحب سے رجوع کیا وہ نہ صرف کیس ختم کرانے کی گارنٹی پر واپس آ گئے بلکہ انہوں نے ایک بار پھر وہی غلطی دہرائی کہ پی ٹی آئی اراکینِ اسمبلی کو ساتھ ملا کر پی ٹی آئی کی حکومت ختم کرا دی اور سندھ ہاؤس میں بیٹھے لوٹوں کو ایک بار پھر بڑی عزت بخشی۔ میاں صاحب نے سیاسی نا بالغ ہونے کا ثبوت دیا اور اپنے ہی ووٹ کو عزت دو کے بیانیے سے پیچھے ہٹ گئے اور انتخابات ہوئے مسلم لیگ (ن) کو جتوایا گیا، میں کہتا ہوں کسی کو بھی دھاندلی سے برسرِ اقتدار نہیں آنا چاہئے لیکن میاں صاحب جیسے سینئر سیاست دان کو تو بالکل بھی ایسے کسی سسٹم کا حصہ نہیں بننا چاہئے جیسا انتخاب فروری 2024ء کو ہوا ہے۔ 27ویں آئینی ترمیم منظور تو ہو گئی لیکن مولانا فضل الرحمان نے مسلم لیگ (ن) پر 27 ویں ترمیم کے لئے ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگایا ہے، ان کے مطابق حکومت نے 11 اراکینِ اسمبلی خریدے ہوئے تھے لہٰذا ہمیں مجبوراً ترمیم کے لئے ووٹ دینا پڑے۔ دوسری جانب مسلم لیگ کے ایما پر بلاول بھٹو ببانگِ دہل کہتے پھر رہے تھے کہ اگر اکثریت نہ ملی تو ہم مسلم لیگ (ن) کے پلان کے مطابق ترمیم کرا لیں گے۔ یعنی ایک بار پھرمسلم لیگ (ن) نے لوٹا سازی کی صنعت کی آبیاری شروع کر دی۔ میاں صاحب دوبارہ لندن روانہ ہو چکے ہیں دیکھیں وہ کب واپس آتے ہیں یا وہیں کہ ہو کر رہ جاتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہی ہے کہ ملک کے معروضی حالات ایسے نہیں ہیں کہ کسی پارٹی کے مینڈیٹ کا احترام نہ کیا جائے۔ اربابِ اختیار کو سوچنا پڑے گا کہ اب عوام باشعور ہو گئے ہیں اس کی رائے کے برعکس کسی کو حکومت دینے کا مطلب ہے کہ وہ اس کے خلاف احتجاج کریں گے۔ اس وقت وطنِ عزیز معاشی مسائل اور ایک بار پھر سے دہشت گردی کے عفریت کا سامنا کر رہا ہے۔ ایسے میں پی ٹی آئی اپنے مینڈیٹ کی واپسی چاہتی ہے اگر اس کی بات نہ مانی گئی تو وہ احتجاج کی پالیسی پر گامزن رہے گی۔ ابتر سیاسی حالات میں ملکی ترقی پر سوالیہ نشان ہی رہے گا۔ ملکی خزانہ تاریخ کی بدترین بدحالی کا سامنا کر رہا تھا، عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور آئی ایم ایف کے پروگرام کی وجہ سے کچھ صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن قرضے کا انبار اور بڑھ گیا ہے۔ ایسے میں ہمیں درست حکمتِ عملی اور رویے کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اب لوگ موجودہ سسٹم سے بیزار ہو چکے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ بیداری کا عمل بھی شروع ہو چکا ہے جس کا مظاہرہ احتجاجوں اور مظاہروں میں ہو رہا ہے۔ نہ جانے محلات میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں کو عوام کی آنکھوں میں بھڑکتے ہوئے شعلے کیوں نظر نہیں آتے؟۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.