ملکی سیاست کے معاملات کچھ ایسے الجھے الجھے اور بکھرے بکھرے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ یہ کس جانب جا ر ہے ہیں اور آنے والے دن کیا صورتحال اختیار کریں گے۔
حکومت اپنی مدت پوری کرے گی یا نہیں؟ کیا ملک میں واقعی ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے؟ پاکستان تحریک انصاف ملکی اور اسمبلی سیاست میں کوئی کردار ادا کر سکے گی یا نہیں؟ اور سب سے بڑھ کرِ اعلیٰ عدلیہ اور آرمی اسٹیبلشمنٹ کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا؟ یہ سب وہ باتیں ہیں جن میں شدید قسم کا ابہام موجود ہے اور یہی ابہام سیاسی عدم استحکام اور عوامی بے چینی کا سبب بنا ہوا ہے۔
ایک طرف مذکورہ بالا مسائل نے ریاست کی گردن دبوچی ہوئی ہے تو دوسری طرف ملک میں احتجاج اور دھرنوں کا فیشن دوبارہ سے چل نکلا ہے۔اس سلسلہ میں ابھی مولانا فضل الرحمن اور پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے دھمکیاں ہی دی جاری ہی تھیں کہ تحریک لبیک پاکستان والوں نے فیض آباد میں دھرنا دے بھی ڈالا جس کی وجہ سے ایک طرف تو راولپنڈی اور اسلام آباد کے شہریوں کی زندگی شدید قسم کی مشکلات کا شکار ہو گئی تو دوسری طرف پبلک ٹرانسپورٹ میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے لیے سفر کرنے والوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔لیکن حیران کن طور پر حکومت نے کسی بھی قسم کی سختی کرنے کے بجائے مصالحانہ رویہ ہی اختیار کیے رکھا۔
گرشتہ جمعہ 26 جولائی کو پاکستان تحریک انصاف نے ملک بھر میں مظاہرے کرنے کا اعلان کیا تھا، اسی روز جماعت اسلامی والوں نے بھی احتجاج کی کال دے رکھی تھی۔ اس سب کے جواب میں حکومت نے ملک بھر میں دفعہ 144 کا نفاذکر کے کسی بھی قسم کے مظاہروں یا دھرنوں وغیرہ کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔
مقررہ تاریخ کو پی ٹی آئی تو توقعات کے عین مطابق پنکچر ہو گئی لیکن جماعت اسلامی اپنے موقف پر ڈٹی رہی اور انہوں نے اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں دھرنا بھی دے ڈالا۔ ویسے تو جماعت اسلامی کے پاس بھی اتنے کارکنان نہ تھے کہ وہ ریاست کی طاقت کے سامنے ڈٹ جاتے لیکن جانے کن وجوہات کی بنا پر ان کے لیے بھی حکومت کا رویہ نرم پڑتا گیا اور بات مظاہرے اور دھرنے سے ہوتی ہوئی مذاکرات تک آن پہنچی۔ اس دوران دھرنے کے شرکا کو حکومت کی جانب سے سہولیات یعنی پانی وغیرہ بھی مہیا کیے جاتے رہے۔
بات جب مذاکرات تک پہنچی تو جماعت اسلامی نے مطالبات کی ایک لمبی چوڑی فہرست (اگرچہ پیش کیے جانے والے تمام تر مطالبات عوامی امنگوں کے عین مطابق ہیں) جاری کر دی۔ مذاکرات کے لیے ٹیمیں تشکیل دے دی گئیں اور جماعت اسلامی کے تمام تر گرفتار کارکنان کو رہا کرنے کا اعلان بھی کر دیا گیا۔
ویسے تو جماعت اسلامی کا بطور ایک سیاسی جماعت کردار تو سال 1941 سے جاری ہے اور کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں اگر آج بھی کسی سیاسی جماعت کے پاس مکمل نظریاتی اور کمٹڈ کارکن موجود ہیں تو وہ پاکستان پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جماعت اسلامی نے اسمبلی کی سیٹوں کی سیاست پر اپنے اصولی موقف اور نظریات کی سیاست کو ترجیح دی ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود جانے کیوں ان کے موجودہ اقدامات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جا رہا ہے اور بعض لوگ تو یہاں تک کہہ رہے ہیں یہ تمام احتجاج اور مطالبات اپٹما کی سپانسر شپ میں ہو رہے ہیں جبکہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے پاکستان عوامی تحریک کے بعد جماعت اسلامی کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر لیا ہے۔
اس موقف کی تائید اس طرح سے ہوتی ہے کہ ایک طرف جماعت اسلامی کا یہ دھرنا وغیرہ اور اس قسم کی سرگرمی جاری ہے تو دوسری جانب پی ٹی آئی ملک گیر احتجاج کی کال کو بھول بھال کر اسمبلی کے سامنے ایک علامتی سی بھوک ہڑتال کر کے گزارہ کر رہی ہے اورامید رکھ رہی ہے کہ اگر حکومت مخالف تحریک نے رنگ ڈھنگ دکھانا شروع کر دیئے تو وہ بھی باقاعدہ طور پر اس کاروان کا حصہ بن جائے گی اور اس تحریک کی کمان بھی سنبھال لینا بھی ان کے عزائم میں شامل ہے۔
ویسے تو یہ پی ٹی آئی والوں کا حق ہے کہ وہ جس مرضی انداز میں چاہیں اپنا احتجاج رجسٹر کرائیں لیکن ان کی بھوک ہڑتال کی ٹائمنگ کا ذکر کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ اوقات بہت دلچسپ ہیں۔
پی ٹی آئی کی قیادت دوپہر کا کھانا وغیرہ تناول فرما کر اطمینان سے تین بجے سہ پہر تک بھوک ہڑتالی کیمپ میں پہنچ جاتی ہے، پھر وہاں شام سات بجے تک گپ شپ، میڈیا ٹاک اور فوٹوگرافی وغیرہ کا سیشن چلنے کے بعد رات کے کھانے سے قبل شو ختم کر دیا جاتا ہے۔ یعنی بھوک ہڑتال ٖصرف دوپہر اور رات کے کھانے کے درمیان ہی کی جاتی ہے۔ اس تمام ایکسرسائز کے متعدد فائدے ہیں۔ اول تو غیر مقبولیت کی جانب اپنا سفر شروع کر دینے والی جماعت کی قیادت کو مفت میں لوکل اور انٹر نیشنل میڈیا پر کوریج مل جاتی ہے اور دوسرا یہ کہ وہ ملک میں جاری احتجاج میں اپنے آپ کو شامل تصور کرتے ہیں۔
پی ٹی آئی کے دھرنے کے موقع پر بھی یہی کچھ ہوتا تھا یعنی سارا دن پنڈال خالی پڑا رہتا تھا اور شام کو نوجوانوں کی ٹولیاں جمع ہو جاتی تھیں اور گانے بجانے،ڈانس اور بریانی کے مزے لوٹنے کے بعد رات گئے شو ختم ہو جاتا تھا۔ اس وقت کے حالات میں تو یہ سب تو یقینا ممکن ہو سکا لیکن اب نہ وہ حالات رہے نہ وہ سرپرستی۔ ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اب وہ پاکستان عوامی تحریک کے بجائے جماعت اسلامی کے کاندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر انہیں جماعت اسلامی کی سیاسی بصیرت کا رتی بھر بھی اندازہ ہوتا تو اس قسم کی غلطی کبھی نہ کرتے۔
پی ٹی آئی نے اگر حقیقت میں احتجاج کی سیاست کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اسے پاکستان عوامی تحریک، جماعت اسلامی یا پھر جمعیت علما اسلام جیسی سیاسی جماعتوں پر تکیہ کرنے کے بجائے خود سامنے آنا ہو گا، پولیس کے ڈنڈے بھی کھانا ہوں گے اور جیل کی ہوا بھی کھانا ہو گی تبھی وہ احتجاج کی سیاست کا ذائقہ چکھ سکیں گے اور انہیں اس کا صحیح مفہوم بھی تبھی سمجھ میں آئے گا۔
تبصرے بند ہیں.