ہم سب بلیک میلر ہیں۔۔۔۔۔۔

27

ہم سب سوا سیر ہیں، سیر کوئی نہیں؟ جس کا جہاں ”دا“ لگتا ہے، ڈنگ مار دیتا ہے اور جس کا کہیں ہاتھ نہیں پہنچتا، وہ کہتا ہے ”میں شریف ہوں“ ورنہ ہر کوئی چکر میں رہتا ہے کہ کب ”دا“ لگے اور کب کسی کی جیب پر ہاتھ صاف کیا جائے، سیاست ہو، صحافت ہو، کوئی وڈے سے وڈا دیندار ہو، دوسرے کو بلیک میل کرنا فرضِ اوّلین سمجھتا ہے جیسے کہ اب حکومتی اتحادی پیپلزپارٹی کررہی ہے، بجٹ سے پہلے خاموش رہے اور جیسے ہی بجٹ پیش کیا گیا، حکومت کو آنکھیں دِکھانا شروع کر دیں کہ بجٹ پاس کرانے میں ساتھ نہیں دیں گے پھر مذاکراتی کمیٹی بنا دی گئی جس میں مُک مُکا ہوا اور بجٹ اجلاس میں شرکت کی یقین دہانی کروا دی گئی،پی ڈی ایم دَور میں بھی سیلاب زدگان کے نام پر خزانے کے منہ کھل گئے، سیلاب زدگان آج بھی پتھر کے دَور کی زندگی گزار رہے ہیں،آئیں آگے چلتے ہیں، کسی بھی سرکاری محکمے میں چلے جائیں جائز کام کروانے کے لیے وہاں بھی آپ کا واسطہ کلرک بادشاہ سے پڑے گا، جب تک اس کی جیب گرم نہیں ہوگی، آپ کا کام نہیں ہوگا، خاص کر تھانے، کچہریوں میں ہر کام کی بولی لگی ہے، ڈی سی لگنے کے لیے ریٹ 5کروڑ سے شروع ہوتا ہے اور پھر وہ جو ”اَنّھی“ ڈالتاہے اس کا اندازہ رجسٹری برانچ جانے والوں کو زیادہ ہوتا ہے،جہاں منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں کسی کو شکایت کا بھی کوئی اثر نہیں ہوتا کیونکہ ایمانداری سے حصہ اوپر تک پہنچتا ہے ایک سچا واقعہ بتاتا ہوں ایک باجے بجانے والا رجسٹری پاس کروانے گیا اور اس نے پیسے بچانے کیلئے بڑے صاحب کو کہا کہ”بادشاہو! تہاڑے ویاہ تے واجے اَسی وجانواں گے۔“ یہ سنتے ہی بڑے صاحب نے فائل چُک کے ماری اور کہا کہ ”وزیراعلیٰ کو مہینے کے 57 کروڑ تیرا پیو دیوے گا“ اس طرح باجے والے کو مجبوراً نوٹ دینے ہی پڑے، جیل میں چلے جائیں قیدی کو کھانا دینے کیلئے وہاں سنتری بادشاہ کو پہلے چنگا چوکھا کھانا دینا پڑے گا ساتھ ساتھ مٹھی بھی گرم کرنی پڑے گی، وزیر جیل اور آئی جی جیل کہیں کہ جیل میں کرپش نہیں یہ سفید جھوٹ ہوگا، کبھی بھیس بدل کر کسی قیدی سے ملنے جائیں تو انہیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہو جائے گا، افسوس یہ ہے کہ ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر فیصلے کرنے اور فیلڈ میں جا کر کام کرنے میں فرق ہوتا ہے، ہماری بربادی یہی ہے کہ ہم بڑھکیں لمبی لمبی مارتے ہیں، عملی طور پر کچھ نہیں کرتے، پٹرول بڑھتا ہے تو ساتھ ہی کرائے بھی بڑھ جاتے ہیں، کسی کنڈیکٹر سے تکرار کریں تو وہ دھکے دیکر گاڑی سے اُتار دیتا ہے، محکمہ ٹرانسپورٹ والے کچھ نہیں کرتے کیونکہ تمام بس اڈوں سے ماہانہ لاکھوں وصول کرتے ہیں، وکلاء کو ہی لے لیں ججز مرضی کا فیصلہ نہ کریں تو وہ انہیں بھی بلیک میل کرتے ہیں عدالتوں کو تالے لگا دیتے ہیں بدتمیزی کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتے کیونکہ یہ قانون کے نام نہاد رکھوالے ہیں؟ سبزی اور پھل منڈی میں چلے جائیں، بدتمیزی گاہک کا مقدر ہوتی ہے، مارکیٹ کمیٹی والے کبھی بھی کارروائی کرتے دکھائی نہیں دیتے، سرکاری ریٹ کچھ اور جبکہ اشیا فروخت ہوتی ہیں کسی اور نرخ پر، فوڈ اتھارٹی والے لاکھوں کی آبادی والے شہر میں ایک آدھ کارروائی کرکے بڑے پھنے خاں بنتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ شہر بھر کی مِلک شاپ جہاں دودھ کے نام پر زہر فروخت کیا جا رہا ہوتا ہے سے ماہانہ وصول کرکے اپنی آنکھیں بند رکھتے ہیں، گلی محلوں میں آجائیں صفائی کرنے والا بھی ہر گھر سے ماہانہ 500روپے ماہانہ لیتا ہے، تب جا کر گھر کے سامنے سے صفائی کرتا ہے اور کوڑا اُٹھتا ہے، ماہانہ نہ دیں تو آپ کے گھر کے سامنے گندگی کے ڈھیر نظر آئیں گے، واپڈا والوں کی بھی خیر ہو جس کا میٹر ریڈر ”رَج“کے بے ایمانی کرتا ہے اور نت نئے طریقوں سے بجلی چوری کرواتا ہے، واسا والے بھی کسی سے کم نہیں، کنکشن لگوانے سے لیکر کنکشن کٹوانے تک رشوت وصول کرتے ہیں، میڈیکل سٹوروں پر ڈنگروں کی ادویات انسانوں کے نام پر فروخت ہو رہی ہیں، مجال ہے کہ کوئی انہیں روک سکے، ہسپتالوں کی ادویات مارکیٹ میں اور ملازمین کے کلینکوں پر بِکتی ہیں، میڈیا میں اگر خبر آ بھی جائے تو وہاں بھی قلم فروش بیٹھے ہوئے ہیں جبکہ مالکان سے لیکر عام نامہ نگار تک دیہاڑی لگانے کیلئے بلیک میلنگ کرتا ہے، فرق صرف اِتنا ہے کہ میڈیا ہاؤسز حکومت کو بلیک میل کرتے ہیں اور نامہ نگاران گلی محلوں میں بیٹھے ڈسپنسر، دائیوں، ہوٹلوں، قلفی فروشوں پر ہاتھ ڈالتا ہے، پولیس والے جگہ جگہ ناکے لگا کر شہریوں کو بلیک میل کرکے ر قم بٹورتے ہیں، تھانے کا اَن داتا محرر اہلکاروں کو بلیک میل کرتا ہے ورنہ کوئی ناکہ نہ لگے، آئی جی بڑی صفائی سے دن رات جھوٹ بولتا ہے، حالانکہ آئی جی کو یہ بھی پتہ ہے کہ کمائی والے تھانے میں تعیناتی کا کیا ریٹ ہے، عدالتوں میں فائل اُٹھانے والا بھی کسی کے دھی پتر سے کم نہیں جو تنخواہ سے زیادہ کمائی کرتا ہے، ریڈر وغیرہ تو سائل کو انسان کا بچہ ہی نہیں سمجھتے، وہ سرعام بلیک میل کرکے جیبیں بھرتے ہیں، محکمہ ماحولیات والے سری پائے بھوننے والے کو تو پکڑ لیتے ہیں لیکن ان فرنس فیکٹریوں اور بھٹوں کو کچھ نہیں کہتے جو دن رات آلودگی پھیلا رہے ہوتے ہیں، دفعہ 144 کے نام پر لوگوں کی پکڑ دھکڑ کر کے ان کی جیبیں خالی کروائی جاتی ہیں جبکہ آلودگی پھیلانے والی فیکٹریوں سے حرام کا مال اکٹھا کیا جاتا ہے، اس طرح ہم ایک دوسرے کو بلیک میل کرکے سمجھتے ہیں بڑا تیر مار لیا، کہا جاتا ہے کہ ہم کسی سے کم نہیں اور یہ آج سچ ثابت ہو رہا ہے، ہم سب بلیک میلر ہیں ایک دوسرے کو بلیک میل کرکے ہم اپنی قبریں بھاری کر رہے ہیں جہاں صرف اور صرف انصاف ہوتا ہے، آیئے! کل کیلئے آج سوچ بچار کریں۔

تبصرے بند ہیں.