چاردیواری کے اندرقربانی کا غلط استدلال!

52

 

قادیانی قربانی کر سکتے ہیں یا نہیں یہ سوال پچھلے ایک دو سال سے اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے یہ سوال بنتا نہیں کہ آئین پاکستان میں اس حوالے سے چیزیں کلیئر ہیں لیکن کچھ اہل علم نے پچھلے ایک دو سال سے باقاعدہ پوزیشن لے کر اس کو آئینی و قانونی ثابت کرنے کی ذمہ داری اٹھا رکھی ہے۔ یہ اہل علم طے شدہ امور کو متنازع بنا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں یہ سوالیہ نشان ہے۔ تعزیرات پاکستان کی دفعہ 298 سی کے تحت کلیئر ہے کہ قادیانی شعائر اسلام استعمال نہیں کر سکتے اور ظاہر ہے کہ قربانی بھی ایک شعار ہے لہٰذا اس کی بھی انہیں اجازت نہیں ہے۔ مذہبی استدلال بھی اس حوالے سے واضح ہے کہ قربانی ایک اسلامی شعار ہے اور کسی غیر مسلم کو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ اسلامی شعائر کا استعمال کر کے کسی مسلمان کو دھوکا دے۔
آئینی و مذہبی استدلال واضح ہونے کے باوجود یہ اہل علم اس پر بضد ہیں کہ بہر صورت قادیانیوں کو قربانی کی اجازت دی جانی چاہیے۔ ان حضرات کا مؤقف اور استدلال یہ ہے کہ پاکستانی آئین اور مذہب قادیانیوں کو ان کی اپنی عبادت گاہ اور چار دیواری کے اندر قربانی سے منع نہیں کرتے۔ یہ استدلال کس حد تک ٹھیک ہے آئندہ سطور میں ہم اس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ قربانی کی طرف آنے سے قبل ہم لفظ شعار کی تفہیم کر لیتے ہیں۔ جو چیز کسی دین یا مذہب کی امتیازی شناخت بن جائے اُسے شِعارکہتے ہیں اور اس کی جمع شعائر آتی ہے۔ شعائر اسلام سے مراد اسلام کی وہ مخصوص علامات اور امتیازات ہیں جن سے کسی شخص کا اسلام معلوم ہو اور جو شخص ان علامات کا اظہار کرے اسے مسلمان سمجھا جائے۔ مفتی محمد شفیعؒ معارف القرآن میں لکھتے ہیں: ”شعائر یا شعیرہ اس محسوس چیز کو کہا جاتا ہے جو کسی چیز کی علامت ہو۔ شعائر اسلام ان اعمال و افعال کو کہا جائے گا جو عرفاً مسلمان ہونے کی علامت سمجھے جاتے ہیں اور محسوس و مشاہد ہیں۔“ شاہ ولی اللہؒ حجۃ اللہ البالغہ میں لکھتے ہیں: ”شعائر الٰہیہ سے مراد وہ ظاہری و محسوس امور اور اشیا ہیں جن کا تقرر اسی لیے ہوا ہے کہ ان کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے۔ ان امور و اشیا کو خدا کی ذات سے ایسی مخصوص نسبت ہے کہ ان کی عظمت و حرمت کو لوگ خود اللہ تعالیٰ کی عظمت و حرمت سمجھتے ہیں اور ان کے متعلق کسی قسم کی کوتاہی کو ذات الٰہی کے متعلق کوتاہی سمجھتے ہیں۔“
اسلامی شریعت میں شعائر کا لفظ عبادات کے زمان و مکان اور علامات کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مکاں کے طور پر جیسے کعبہ، عرفہ، مزدلفہ، جمرات ثلاث، منیٰ، صفا مرویٰ اور بیت القدس وغیرہ۔ زماں کے طور پر جیسے رمضان، اشہر حج، عیدین اور جمعہ وغیرہ۔ علامات کے طور پر جیسے اذان، اقامت، نماز باجماعت اور قربانی وغیرہ۔ قربانی ایسا شعار ہے جو اسلامی شریعت میں دو نسبتوں کے اعتبار سے شعار قرار دیا گیا ہے، ایک بطور علامت اور دوسرا بطور زماں۔ بطور علامت یہ ایسا شعار ہے جس کی تاکید نص میں کی گئی ہے۔ سورہ حج میں ہے: ”والبدن جعلنھا لکم من شعائر اللہ (22:36) اور قربانی کے جانوروں کو ہم نے تمہارے لیے اللہ کی نشانیوں میں سے بنایا ہے۔“ صفا مرویٰ کے بعد شاید یہ واحد شعار ہے جس کا ذکر اس تاکید اور نام کے ساتھ قرآن میں آیا۔ نص میں اس شعار کا تذکرہ آنا اس کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے۔ قربانی بطور زماں بھی شعار ہے کہ اس کا زمانہ متعین ہے۔ قربانی صرف عید کے تین ایام کے اندر ہی کی جا سکتی ہے جو مسلمان ان تین ایام کے علاوہ سال کے کسی دوسرے دن میں قربانی کرے گا اس کی قربانی قبول نہیں ہو گی۔
آئین پاکستان کے مطابق قادیانیوں کے شعائر اسلام کے استعمال پر پابندی ہے۔ وہ اہل علم جن کا استدلال یہ ہے کہ قادیانی چار دیواری کے اندر قربانی کر سکتے ہیں وہ قربانی کو بطور علامت شعار مان کر اس کی گنجائش پیدا کر رہے
ہیں کہ قادیانی اگر اپنی عبادت گاہ یا چار دیواری کے اندر قربانی کر لیں تو کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ قربانی بطور زماں بھی شعار ہے کہ یہ عید الاضحی کے مخصوص ایام اور زماں میں ہی کی جا سکتی ہے۔ اس لیے اگر قادیانی عید کے ان ایام میں قربانی کرتے ہیں تو وہ قربانی کے شعار کے بطور زماں استعمال کے مرتکب ہو رہے ہیں اور بطور زمان قربانی کے اس شعار کا استعمال چار دیواری کے اندر ہو یا باہر اس سے فرق نہیں پڑتا ہے کہ زماں ہر شے کو محیط ہے اور کوئی شے اس کے احاطہ سے باہر نہیں ہے۔
اس لیے اگر قادیانی عید الاضحی کے ان مخصوص ایام میں قربانی کرتے ہیں تو قربانی بطور زمان شعار کے ارتکاب کی وجہ سے آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اس خلاف ورزی پر قانون حرکت میں آ سکتا ہے اور اس کو حرکت میں آنا چاہیے۔ فرض کریں اگر کوئی مسلمان ان تین ایام کے علاوہ جانور ذبح کرتا ہے تو جانور تو موجود ہے ذبح بھی ہو رہا ہے لیکن زماں نہ ہونے کی وجہ سے وہ قربانی تسلیم نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی فکر کا مؤقف یہ ہے کہ اگر قادیانی ان ایام کے علاوہ سال کے کسی بھی دوسر ے دن میں قربانی کرتے ہیں تو ہمیں اس سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ اس لیے جو اہل علم قادیانیوں کو اپنی چار دیواری یا عبادت گاہ کے اندر قربانی کی اجازت پر بضد ہیں انہیں اس پہلو کو فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ قربانی صرف جانور ذبح کرنے کا شعار نہیں ہے کہ اسے چار دیواری کے اندر کر لیا جائے بلکہ یہ بطور زماں بھی شعار ہے کہ اسے انہی تین مخصوص ایام میں سرانجام دینا ہوتا ہے اور بطور زماں یہ شعار چاردیواری کے اندر ہو یا باہر اس سے فرق نہیں پڑتا اور جرم کا ارتکاب ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ اس کالم میں صرف آئین پاکستان کی تشریح کے تناظر میں استدلال پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے ورنہ ہم شروع میں بتا چکے ہیں کہ مذہبی استدلال بالکل واضح ہے کہ قادیانیوں کو قربانی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح اجتہاد بالمقاصد کے تناظر میں بھی قربانی کی اجازت نہیں بنتی۔ پہلے کہیں عرض کیا تھا کہ دنیا میں ہر چیز کا استدلال موجود ہے، کوئی نہ سمجھنا چاہے تو وہ الگ بات ہے۔

تبصرے بند ہیں.