سپریم کورٹ نےخواجہ حارث کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے کی اجازت دیدی

33

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے سماعت جون کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی، سپریم کورٹ نےخواجہ حارث کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے کی اجازت دیدی۔

 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومتی اپیلوں پر سماعت کر رہا ہے، جسٹس امین الدین، جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس حسن اظہر رضوی بنچ کا حصہ ہیں۔بانی پی ٹی آئی عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے عدالت میں پیش ہوئے۔

 

دوران سماعت بانی پی ٹی آئی اور چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کے درمیان پہلا باضابطہ مکالمہ ہوا، چیف جسٹس نے  استفسار کیا کہ   خان صاحب آپ خود دلائل دینا چاہیں گے یا خواجہ حارث پر انحصار کرینگے؟

 

جس پر بانی پی ٹی آئی نے جواب دیا کہ آدھہ گھنٹہ دلائل دینا چاہتا ہوں،  مجھے تیاری کیلئے مواد ملتا ہے نہ ہی وکلاء سے ملاقات کرنے دی جاتی، قید تنہائی میں ہوں۔  8 فروری کو ملک میں سب سے بڑا ڈاکہ ڈالہ گیا۔

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ بات اس وقت نہ کریں، ابھی نیب ترامیم والا کیس سن رہے ہیں۔ جس پر بانی پی ٹی آئی  نے کہا کہ ہماری دو درخواستیں جو انسانی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ہیں وہ آپ کے پاس موجود ہیں۔

 

چیف جسٹس کا بانی پی ٹی ائی سےمکالمہکرتے ہوئے پوچھا کہ اس میں اپ کے وکیل کون ہیں، جس پر بانی پی ٹی آئی  نے جواب دیا کہ میرے وکیل حامد خان ہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ حامد خان ایک سینیئر وکیل یں انہوں نے ملک سے باہر جاناتھا تو ان کو ان کی مرضی سے ایک مقدمے میں تاریخ دی ہے۔

 

بانی پی ٹی آئی نے چیف جسٹس سے مکالمی کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس صاحب جیل میں ون ونڈو اپریشن ہے جس کو ایک کرنل صاحب چلاتے ہیں،اپ ان کو آرڈر کریں کہ میری قانونی ٹیم سے ملاقات کروانے دیں۔وہ میری قانونی ٹیم سے ملاقات کرنے نہیں دیتے، میرے پاس مقدمے کی تیاری کا کوئی مواد نہیں اور نہ ہی لائبریری ہے۔

 

بعد ازان سپریم کورٹ نےخواجہ حارث کو بانی پی ٹی آئی سے ملاقات کرنے کی اجازت دیتے ہوئے سماعت جون کے پہلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

 

ابتدائی سماعت

اس سے قبل سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت براہ راست دکھانے کی درخواست مسترد کی۔ سماعت کے آغاز پر کیس کی سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا گیا،   کیس کی سماعت براہ راست دکھانے یا نہ دکھانے پر بینچ مشاورت کے لیے اٹھ کر چلا گیا۔سپریم کورٹ نے 57 منٹ تک مشاورت کی۔

 

سماعت کے دوبارہ آغاز پر سپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس کی سماعت براہ راست نشر کرنے کی خیبرپختونخوا حکومت کی  درخواست مسترد کر دی اور کیس کی سماعت لائیو نہ دکھانے کا فیصلہ کیا، فیصلہ 4- 1  سے کیا گیا ہ۔جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا۔

 

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تاخیر کیلئے معذرت چاہتے ہیں، ایسی کوئی درخواست پہلے نہیں آئی اس لیے جلدبازی میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔جسٹس اطہر من اللہ نے براہ راست نشریات کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ سماعت پہلے بھی براہ راست دکھائی جاتی تھی تو اب بھی براہ راست ہونی چاہیے۔

 

بعد ازاں وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیے۔ جس کے بعد بانی پی ٹی آئی نے ویڈیو لنک کے زریعے اپنے دلائل دیے۔

 

واضح رہے کہ گزشتہ سال سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 4 رکنی بینچ نے نیب ترامیم کو بانی پی ٹی آئی کی درخواست پر کالعدم قرار دے کر سیاست دانوں کے 50 کروڑ سے کم مالیت کے کرپشن کیسز نیب کو منتقل کر دیئے تھے۔

 

فیصلے میں بے نامی کی تعریف، آمدن سے زائد اثاثوں اور بار ثبوت استغاثہ پر منتقل کرنے کی نیب ترامیم کالعدم قرار دی تھیں، عدالت عظمیٰ نے حکم دیا تھا کہ عوامی عہدوں پر بیٹھے تمام افراد کے مقدمات بحال کیے جاتے ہیں، فیصلے کیخلاف وفاق نے انٹرا کورٹ اپیلیں دائر کر رکھی ہیں۔

تبصرے بند ہیں.