اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے

161

زوال کسی بھی قوم اور مورخ کو پوچھ کر نہیں آتا۔ ہماری عادات، ہماری ریشہ دوانیاں، ہماری اقربا پروریاں، ہماری پالیسیاں، ہماری شیطان صفت طبیعتیں، ہمارے اندر لالچ، حرص، ہوس کی بو قلمونیاں، ریاستی جبر اور اقتدار اعلیٰ کے مالک کی نافرمانی حکمرانوں کے زوال کا سبب بنتی ہے اور یہی زوال قوموں کو نیست نابود کر کے آنے والی نسلوں کو حیرت کن اثرات میں ڈبو دیتا ہے۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی نسل کے حکمران نے ان اثرات سے کوئی سبق سیکھا اور نہ ہی قوموں کی بہتری میں ان اثرات کو مدخل کرنے کی کوشش کی۔ خود بھی تاریخ کے سیاہ ترین ابواب کا حصہ بن گئے۔ تاریخ ایسے بے شمار سیاہ ابواب سے بھری پڑی ہے۔

عباسی حکومت کے آخری دور میں ایک وقت وہ آیا جب مسلمانوں کے دارالخلافہ بغداد میں ہر دوسرے دن کسی نہ کسی دینی مسئلہ پر مناظرہ ہونے لگا۔ جلد ہی وہ وقت بھی آ گیا جب ایک ساتھ ایک ہی دن بغداد کے الگ الگ چوراہوں پر الگ الگ مناظرے ہو رہے تھے۔ پہلا مناظرہ اس بات پر تھا کہ ایک وقت میں سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں؟ دوسرا مناظرہ اس اہم موضوع پر تھا کہ کوا حلال ہے یا حرام؟ تیسرے مناظرے میں یہ تکرار چل رہی تھی کہ مسواک کا شرعی سائز کتنا ہونا چاہیے؟ ایک گروہ کا کہنا تھا کہ ایک بالشت سے کم نہیں ہونا چاہیے اور دوسرے گروہ کا یہ ماننا تھا کہ ایک بالشت سے چھوٹی مسواک بھی جائز ہے۔ ابھی یہ مناظرے چل رہے تھے کہ ہلاکو خان کی قیادت میں تاتاری فوج بغداد کی گلیوں میں داخل ہو گئی اور سب کچھ تہس نہس کر گئی۔ مسواک کی حرمت بچانے والے لوگ خود ہی بوٹی بوٹی ہو گئے۔ سوئی کی نوک پر فرشتے گننے والوں کی کھوپڑیوں کے مینار بن گئے، جنہیں گننا بھی ممکن نہ تھا۔ کوے کے گوشت پر بحث کرنے والوں کے مردہ جسم کوے نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔ آج ہلاکو خان کو بغداد تباہ کیے سیکڑوں برس ہو گئے مگر قسم لے لیجئے جو مسلمانوں نے تاریخ سے رتی برابر بھی سبق لیا ہو۔ آج ہم مسلمان پھر ویسے ہی مناظرے سوشل میڈیا پر یا اپنی محفلوں، جلسوں اور مسجدوں کے منبر سے کر رہے ہیں کہ داڑھی کی لمبائی کتنی ہونی چاہیے یا پھر پاجامہ کی لمبائی ٹخنے سے کتنی نیچے یا کتنی اوپر شرعی اعتبار سے ہونی چاہئے۔ مردہ سن سکتا ہے یا مردہ نہیں سنتا۔ امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا جائز ہے کہ نہیں۔
قوالی اور مشاعرے کرنا ہمارے مذہبی فرائض میں شامل ہونے لگے۔ فرقے اور مسلک کے ہمارے جھنڈا بردار صرف اور صرف اپنے اپنے فرقوں کو جنت میں لے جانے کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ دورِ حاضر کا ہلاکو خان ایک ایک کر کے مسلم ملکوں کو نیست و نابود کرتا ہوا آگے بڑھ رہا ہے۔ افغانستان، لیبیا، عراق کے بعد شامی بچوں کی کٹی پھٹی لاشوں کی گنتی کرنے والا کوئی نہیں، بے گناہوں کی کھوپڑیوں کے مینار پھر بنائے جا رہے ہیں۔ فلسطین اور کشمیر کی حالتِ زار ایسی ہے کہ زار و قطار رو کر بھی دل ہلکا نہیں ہوتا۔ آدم علیہ السلام کی نسل کے نوجوانوں، بوڑھے اور بزرگوں کی لاشوں کو کوے نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں، اور حوا کی بیٹیاں اپنی عصمت چھپانے کیلئے امت کی چادر کا کونہ تلاش کر رہی ہیں۔ جی ہاں اور ہم خاموشی سے اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے ہیں، اگر ہم انہی بے معنیٰ باتوں میں الجھے رہے تو دشمن نے یہ نہیں دیکھنا کہ کس کی داڑھی چھوٹی ہے اور کس کا پاجامہ ٹخنوں سے نیچے ہے، جنگ میں دشمن کی گولی شیعہ، سنی، دیوبندی، اہلحدیث حیات و ممات کا فرق نہیں کرتی…!

کہا جاتا ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کو ان کے جاسوسوں نے بتایا کہ ایک عالمِ دین ہیں جو بہت اچھا خطاب کرتے ہیں لوگوں میں بہت مقبول ہو گئے ہیں۔ سلطان نے کہا آگے کہو جاسوس بولے ”کچھ غلط ہے جسے ہم محسوس کر رہے ہیں مگر الفاظوں میں بیان نہیں کر پا رہے“۔ سلطان نے کہا: جو بھی دیکھا اور سنا ہے بیان کرو۔ جاسوس بولے کہ وہ کہتے ہیں کہ نفس کا جہاد افضل ہے، بچوں کو تعلیم دینا ایک بہترین جہاد ہے، گھر کی ذمہ داریوں کیلئے جد وجہد کرنا بھی ایک جہاد ہے۔ سلطان نے کہا تو اس میں کوئی شک ہے؟ جاسوس نے کہا کہ انہیں کوئی شک نہیں لیکن اس عالم کا کہنا ہے کہ جنگوں سے کیا ملا؟ صرف قتل و غارت گری صرف لاشیں، جنگوں نے تمہیں یا تو قاتل بنایا یا مقتول۔ سلطان بے چین ہو کر اٹھے، اسی وقت عالم سے ملنے کی ٹھانی، ملاقات بھیس بدل کر کی اور جاتے ہی سوال کر دیا کہ جناب ایسی کوئی ترکیب بتائیے کہ بیت المقدس آزاد ہو جائے اور ظالم کا سامنا کیے بغیر ظلم کا مداوا ہو جائے یہ ممکن ہی نہیں۔ خدارا سوچیے اب بھی وقت ہے ایک ہونے کا۔ اتفاق و اتحاد پیدا کرنے کا۔ دشمن کو نیست و نابود کرنے کا۔ اور سب سے بڑی بات اپنی آخرت کو بہتر کرنے کا۔ بقول جاوید رامش
نیل کے ساحل سے لیکر وادیِ کشمیر تک
خون کا بہتا ہے دریا اور سب خاموش ہیں

دبئی میں گیارہ سو ارب ڈالر کی پاکستانیوں کی جائیدادیں نکلتی ہیں اور ہم خاموش ہیں۔ ہم کوڑی کوڑی کے محتاج ہیں اور یہ دبئی کے مالک ہیں۔ ہم روٹی کو ترسیں اور یہ عیاشیاں کریں۔ بقول ابراہیم ذوق
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کہ مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے

تبصرے بند ہیں.