9 مئی 2023 ء کے دن کو گزرے ایک سال بیت چکا ہے۔ اُس دِن بانی پی ٹی آئی کی القادر ٹرسٹ کیس میں نیب کی طرف سے اُن کے خلاف جاری وارنٹ گرفتاری کے نتیجے میں گرفتاری عمل میں آئی۔ جس پر ان کی جماعت سے وابستہ فسادی انتشاری ٹولے نے احتجاج کے نام پر جو کیا اس کی ہماری قومی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ عام طور پر کوئی ایسا واقعہ پیش آ جائے یا کسی کے خلاف کوئی ایسی کاروائی ہو جائے جس سے افراد کے مخصوص گروہ، کسی سیاسی جماعت کے وابستگان یا عوام کے کچھ طبقات کو اعتراض ہو یا ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہو یا ان کے مطالبات پورے نہ ہو رہے ہوں تو اس پر وہ احتجاج کا راستہ اختیار کرتے ہیں۔ احتجاج کی عموماً نوعیت کیا ہوتی ہے، یہی کہ گھروں سے نکل کر شہر کی کسی معروف شاہراہ یا بارونق چوک چوراہے کا رُخ کیا جاتا ہے۔ وہاں جمع ہو کر نعرہ بازی، پرانے ٹائروں کو آگ لگانا، کچھ توڑ پھوڑ اور سامنے اگر پولیس آ جائے تو اس کے خلاف نعرہ بازی، اس پر پتھرائو اور پولیس کی طرف سے جوابی لاٹھی چارج اور بعض حالتوں میں آنسو گیس کا استعمال، مظاہرین اور پولیس کے درمیان کچھ دیر کے لیے آنکھ مچولی اور اس طرح کے دوسرے مناظر وغیرہ دیکھنے کو مل سکتے ہیں۔ دیکھنا ہو گا کہ 9 مئی 2023 ء کو بانی پی ٹی آئی کی گرفتاری کے موقع پر کیا احتجاج کا اسی طرح کا سلسلہ شروع ہواتھا، نہیں بالکل نہیں۔ اس دن جو کچھ ہوا اس میں کوئی ابہام نہیں، کچھ ڈھکا چھپا نہیں، شواہد سب کے سامنے اور ظاہر باہر ہیں کہ اس دن واضح منصوبہ بندی اور کچھ مخصوص رہنمائوں کی طرف سے ملنے والی ہدایات کی روشنی میں فسادی اور انتشاری گروہوں نے ملک بھر میں مسلح افواج کی تنصیبات، اداروں اور شہداء کی یادگاروں کو نشانہ بنایا۔ پورے ملک میں شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک مسلح افواج سے تعلق رکھنے والاکوئی مقام ایسا نہیں تھا جہاں عسکری تنصیبات، اداروں اور یادگاروں کو نشانہ نہ بنایا گیا ہو۔ توڑ پھوڑ نہ کی گئی ہواور آتش زنی اور جلائو گھیرائو کے واقعات پیش نہ آئے ہوں۔
یہاں زیادہ تفصیل میں نہیں جاتے، اجمالی سا تذکرہ کرتے ہیں کہ9مئی 2023 ء کو تحریکِ انصاف سے تعلق رکھنے والے فسادی اور انتشاری گروہوں نے ملک بھر میں کِن کِن مقامات پر کِن کِن عسکری تنصیبات، اداروں اور یادگاروں کو نشانہ بنایا اور فتنہ فساد، پر تشدد احتجاج، توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو اور آتش زنی کے کیسے کیسے واقعات پیش آئے۔ لاہور میں تھری سٹار جنرل کور کمانڈر کی سرکاری رہائش گاہ جناح ہائوس جسے بانیِ پاکستان حضرت قائدِ اعظم کی رہائش گاہ کا اعزاز بھی حاصل ہے کو سینکڑوں بلوائیوں اور فسادیوں نے نذرِ آتش کیا کور کمانڈر ہائوس کا سامان لوٹنے اور احاطے میں موجود مسجد کو آگ لگانے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اِسی لاہور میں آرمی ویلفئیر پلازہ، عسکری ٹاورز اور سی ایس ڈی کے تاریخی سٹور کو نذرِ آتش کرنے کے ساتھ وہاں سے ساز و سامان بھی لوٹا گیا۔ راولپنڈی میں فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر (جی ایچ کیو) کے بڑے گیٹ کی توڑ پھوڑ کے ساتھ یادگارِ شہداء کی بے حرمتی اور آرمڈ فورسز انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ایمرجینسی شعبے کی توڑ پھوڑ اور احاطے میں کھڑی گاڑیوں کو نذرِ آتش کیاگیا۔ راولپنڈی مری روڈ پر میٹروبس سٹیشن بھی بلوائیوں کا نشانہ بنا۔ پشاور میں فرنٹیئر کور کے ہیڈکورارٹر قلعہ بالا حصار کو نشانہ بنایا گیا۔ ریڈیو پاکستان پشاور کی تاریخی عمارت بھی فسادیوں اور بلوائیوں کے شر سے محفوظ نہ رہی۔ مردان چھائونی اور سوات میں بھی یہی کھیل کھیلا گیا۔ مردان میں عسکری تنصیبات نشانہ بنیں تو سوات میں موٹر وے انٹرچینج کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیاگیا۔ شاہینوں کے شہر سرگودہا میں فضائیہ کی تاریخی یادگاروں کو اس طرح نشانہ بنایا گیا کہ چشمِ فلک بھی شاید اس پر آنسو نہ روک سکی ہو گی۔ میانوالی میں بھی فضائیہ کے مستقر اوروہاں پاک فضائیہ کے زیرِ استعمال رہے پرانے طیاروں اور تاریخی یادگاروں کو نشانہ بنا کر خوشی کے شادیانے بجائے گئے۔ کوئٹہ ، کراچی، فیصل آباد میں بھی اسی طرح کے کھیل کھیلے گئے۔ کیا ایک ہی انداز کی ان قانون شکن اور لرزہ خیز مجرمانہ کاروائیوں سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ سب ایک ٹھوس منصوبہ بندی اور واضح ہدایات کی روشنی میں ہوا۔ یقینا ایسا ہی ہوا۔ ایسی آڈیو، ویڈیوز، تصاویر، واٹس ایپ میسجز اور بیانات موجود ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ تحریکِ انصاف کی اعلیٰ ترین قیادت سے لے کر نچلی سطح تک اس کے رہنما ، قائدین اور وابستگان اس ساری تباہی و بربادی، تخریب کاری، فتنہ فساد اور جلائو گھیرائو میں شریک تھے۔
حقیقت یہ ہے کہ 9مئی 2023ء کو جو کچھ ہوا، یہ ریاستِ پاکستان، افواجِ پاکستان اور ریاستی اداروں کے خلاف ایک سازش اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے خلاف ایک بغاوت تھی۔ جس میں میں مخصوص سوچ کے مالک اور ایک سیاسی رہنما اور سیاسی جماعت سے ہمدردیاں رکھنے والے ان کے اپنے ادارے کے بعض افراد کا کچھ نہ کچھ کردار ضرور تھا۔ پھر گُڈ ٹو سی یو (Good to See you) کہنے والے اعلیٰ عدلیہ کے اُس وقت کے عزت ماب ججز کی سہولت کاری اور ہمدردی بھی شامل تھی۔ مقامِ شکر کہ مسلح افواج کے ذمہ داران کے بظاہر کمزوری کا تاثر دینے والے صبر وتحمل ، دانائی، سمجھداری اور بہتر منصوبہ بندی سے عبارت اقدامات کی بدولت ملک ایک بڑی خونریزی اور تصادم سے بچ گیا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جوکچھ ہوا، جو کچھ کیا اُس پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے ملک و قوم سے معافی مانگ کر آئیندہ ایسا نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی جاتی اور ملک میں رواداری ، یگانگت اور اتحاد و اتفاق کی فضا پروان چڑھانے میں کردار ادا کیا جاتا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ چور مچائے شور کے مصداق ایسی تاویلیں، ایسے دلائل اور ایسے یو ٹرن سامنے لائے گئے ہیں اور لائے جا ر ہے ہیں کہ الامین والحفیظ کہنے کو جی چاہتا ہے۔
اس سے بڑھ کر اور کیا فضول بات ہو سکتی ہے کہ تحریکِ انصاف کے قائدین 9 مئی2023 ء کے واقعات کو ”فالس فلیگ آپریشن“ کا نا م دے رہے ہیں۔ کچھ تو خدا کو خوف ہونا چاہیے کہ جو بات کی جا رہی ہے اس میں معقولیت کتنی ہے۔ سیدھی سی بات ہے کہ 9مئی 2023ء کو تحریکِ انصاف سے وابستہ قائدین اور حالیوں، موالیوں نے وہ کچھ کیا جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ صریحاً وطن دشمنی کے زمرے میں آنے والی کاروائیاں تھیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اُس کے لیے معافی مانگی جائے اور آئندہ اس طرح کے اقدامات کرنے اور جھوٹ وافترا پردازی کو چھوڑنے کی یقین دہانی کرائی جائے تو پھر جیسے فوج کے ترجمان نے اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ معافی تلافی کی کوئی راہ نکل سکتی ہے۔ ایسااگر نہیں ہوتا اور تحریکِ انصاف کے چھوٹے بڑے قائدین اپنی ضِد، ہٹ دھرمی، نفرت، افترا پردازی اور کذب بیانی پر قائم رہتے ہیں تو پھر یہی ہو گا جس کی طرف اشارہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے 9مئی کو لاہور میں گیریزن آفیسرز سے خطاب کے دوران کیا کہ کوئی معافی نہیں نہ کوئی ڈیل، 9مئی 2023 کے اصل ذمہ داروں کو حساب دینا پڑے گا۔
تبصرے بند ہیں.