ہماری مشکلیں اور رحمتِ خداوندی

62

اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق میں جن اصولوں کو ملحوظ رکھا ہے اُن میں ایک اصول ”زوج“ کا بھی ہے۔ اس اصول کو اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں اس طرح بیان فرمایا ہے: ومن کل شی خلقنا زوجین لعلکم تذکرون۔

ترجمہ: ”اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہی، شاید کہ تم اس سے سبق لو“۔(سورہ الزاریات آیت نمبر ۴۹)

مندرجہ بالاآیت میں لفظ ”زوج“ استعمال ہوا ہے جس کے معنی صرف جوڑا نہیں، بلکہ ایساجوڑا ہے کہ جس میں ایک کی تکمیل دوسرے کی تکمیل کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ جیسے گاڑی کے دو پہیے یا ایک دن (DAY) میں تاریکی اور اُجالے کا ظہور ہونا، یعنی ان میں سے ایک نہ ہو تو دوسرے کا وجود بے کار اور بے معنی ہے۔ اسی طرح خزاں و بہار یا گرمی اور سردی کے تعلق سے بھی زوج کے معنی کو سمجھا جا سکتا ہے۔انسان کو اپنی زندگی میں مختلف حالات و واقعات سے واسطہ پڑتا ہے، جن میں خوشی کے لمحات بھی ہیں اور رنج و غم کی ساعتیں بھی اوربقول علامہ اقبال:
اگر منظور ہو تجھ کو خزاں نا آشنا رہنا
جہانِ رنگ و بو سے پہلے قطع آرزو کر لے

جیسا کہ قرآن حکیم میں ارشاد ہوا ہے:
ترجمہ: ”اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے تمہاری آزمائش کریں گے تو صبر کرنے والوں کو (خدا کی خوشنودی کی) بشارت سنا دو۔ ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت آتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم خدا ہی کا مال ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔ (سورہ البقرہ، آیت نمبر۵۶ا۔ ۱۵۵)

یہ بات عام مشاہدے میں ہے کہ جو لوگ اپنے پروردگارِ عالم کی رحمت پر پُختہ یقین رکھتے ہیں وہ ہر حال میں صابر و شاکر رہتے ہیں، اُن کو یہ یقین ہوتا ہے کہ ہر قسم کے حالات اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کے لئے ہیں۔ اس یقین کے لوگ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے پروردگار سے لو لگائے رکھتے ہیں، اور بقول فیضؔ:
تمہاری یاد سے شیریں ہے تلخی ئایام
لیکن اسکے ساتھ یہ بھی خدائی قانون ہے کہ ہر شخص پر اُتنا ہی بوجھ ڈالا جاتا ہے جتنی اسکی استطاعت ہو: ”اللہ کسی متنفس پر اس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا“۔ (سورہ البقرہ آیت نمبر ۲۸۶)

اور پھر اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقلِ سلیم جیسی نعمت عطا کر کے اُس کو تمام حالات سے عہدہ برا ہونے کے لئے تیار کیا ہے۔ جس سے انسان اپنے فکروتدبر کی بدولت تمام معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، ہر مصیبت اپنے جلو میں خیر کا پہلو بھی رکھتی ہے۔ بے شمار آسانیاں ایسی ہیں کہ مشکلات کے بغیر اس کا حصول نا ممکن ہے جیسے ایک طالب علم، علم کے حصول میں ایک عرصہ کے بعد مقام پاتا ہے۔ لہذا اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ مصیبت میں خیر کے پہلو کو کس طرح تلاش کرتا ہے۔اور بقول غالبؔ جو آنکھ قطرے میں دجلہ نہیں دیکھ سکتی وہ دیدہِ بینا نہیں۔

یقینا مشکلات اپنے جلو میں آسانیاں اور نعمتیں لیکر آتی ہیں اور یہ آسانیاں انسان کی منتظر ہیں، انسان پر تنگی اس لئے آتی ہے کہ اُس کی ترقی کا سبب بنے اور یہ تنگیاں دراصل جلبِ نعمت کا سبب ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ الانشراح کی آیت نمبر ۵ میں فرمایا:”یقینا ہر مشکل کے بعد راحت ہے“۔ اللہ تعالیٰ اپنے ہر بندے کو آزمائش میں ڈا ل کر انکی مدد فرماتے ہیں لیکن یہ مدد مشروط ہے اس بات سے کہ بندہ خود آزمائش میں کامیاب ہونا چاہے، کیو نکہ قدرت انسان سے تقاضا کرتی ہے:
شوقِ دیدار اگر ہے تو نظر پیدا کر

پھر اللہ تعالیٰ کی مدد وہاں سے نمودار ہوتی ہے جہاں انسان کا گمان بھی نہیں ہوتا ہے۔جو لوگ مصیبت اور غم و الم کی صورتحال میں اپنے حواس پر قابو رکھتے ہیں وہ بڑی سے بڑی مصیبت میں خیر کا پہلو ڈھونڈھ لیتے ہیں۔ اس حوالے سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا معروف قول ہے کہ ”مصیبت میں گھبراہٹ ایک دوسری مصیبت ہے“۔ لیکن جو افراد یہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام آفات انسان پر آزمائش کے لئے ہیں اور انسان اپنے پروردگار کی رحمت کی بدولت اس سے نبرد آزما ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے، وہ مایوس ہوتے ہیں اور نہ غمگین۔

غالبؔ نے شائد ایسی ہی صورتحال کے لئے کہا ہے:
پاتے نہیں راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رُکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

کائنات میں العسر اور الیسر (مشکل اور آسانی) کا قانون بھی جاری رہتا ہے، لیکن اسکی رفتار اسقدر سست ہوتی ہے کہ قرآن کے الفاظ میں اس کا ایک ایک دن ہمارے حساب و شمار سے ہزار ہزار برس کا ہے۔لیکن اللہ تعالیٰ کا بہت جلد حساب کرنا بھی ہمارے حساب سے سیکڑوں سال لے لیتا ہے:
آہ کو چا ہیے اِک عمر اثر ہونے تک

اگر انسان چاہتا ہے کہ خدا کا قانون ہمارے حساب و شمار کے مطابق نتائج مرتب کرے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ انسان خدا کے قانون کے ساتھ تعاون کرے اوراسے آگے بڑھانے کے لئے اس کا دست و بازو بن جائے۔ انسان اگر اس طرح خدائی قانون کے ساتھ چلے گا تو اللہ تعالیٰ کا قانون خود اس کا معاون ہو گا۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ انسان خدا کو پکارے اور اسکی پکار کا جواب نہ دے اور بقول علامہ اقبالؒ:
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر

مگر اس کے لیے شرط یہ ہی ہے کہ انسان اپنے پروردگار کی رحمت سے مایوس نہ ہو اور جدوجہد کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے۔

تبصرے بند ہیں.