سیاسی گُرو

16

”پنچاتانترا“ سنسکرت کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں پانچ تکنیک۔ اسی ٹائٹل کے تحت ہندوستان میں دو ہزار سال پہلے کچھ سبق آموز کہانیاں لکھی گئیں۔ پنچاتانترا کی ایک مشہور کہانی ”تاجر کا عروج و زوال“ ہے۔ اس کہانی میں بتایا گیا ہے کہ سیاسی چالیں چل کر کس طرح اپنا مقصد پورا کیا جاتا ہے اور مقصد پورا ہو نے کے بعد حالات دوبارہ کیسے نارمل کیے جاتے ہیں۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ”وَردھامانا شہر میں ایک بہت ہی متحرک اور امیر تاجر رہتا تھا۔ بادشاہ نے اُس کی قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے اسے شہر کا چیف ایگزیکٹو بنا دیا۔ تاجر نے اپنی صلاحیتوں کا صحیح استعمال کیا۔ عام شہریوں کو سہولتیں دینے کے ساتھ ساتھ بادشاہ کو بھی خوش کرنا جاری رکھا۔ ایسا شخص جو عوام اور بادشاہ میں یکساں مقبول ہو، بہت کم ملتا ہے۔ کچھ عرصے بعد تاجرنے اپنی بیٹی کی شادی کی۔ حسب توقع تاجر نے شادی کی تقریب کے عالی شان انتظامات کئے۔ اس نے بادشاہ اور ملکہ کے ساتھ ساتھ دربار کے سب اُمراء اور خواص کو دعوت دی۔ تقریب کے دوران تاجر نے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ اس کے معزز مہمانوں کو ہرلحاظ سے پروٹوکول ملے۔ مہمانوں کی آمد پر تاجر انہیںقیمتی تحائف پیش کرتا اور خود لے جاکر انہیں ان کی مخصوص نشست پر بٹھاتا تاکہ مہمانوں کے دل میں زیادہ سے زیادہ جگہ بنا سکے۔ محل کا ایک ملازم تاجر کو بائی پاس کرکے خود جاکر ایسی نشست پر بیٹھ گیا جو اس کے لیے مخصوص نہ تھی۔ تاجر کو شاہی ملازم کی اس دیدہ دلیری پر بہت غصہ آیا۔ اُس نے ملازم کو گردن سے پکڑا اور بے عزت کرکے تقریب سے نکال دیا۔ شاہی ملازم نے اپنی بے حد توہین محسوس کی۔ اس نے سوچا کہ اگر میں بادشاہ اور تاجر میں بداعتمادی پیدا کردوں تو اپنی بے عزتی کا بدلہ لے سکتا ہوں لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا؟ اچانک اس کے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ کچھ دنوں بعد وہی ملازم صبح سویرے بادشاہ کے کمرے میں گیا۔ بادشاہ ابھی بستر پر دراز تھا۔ وہ آدھا جاگ رہا تھا اور آدھا سو رہا تھا۔ بادشاہ کی اس کیفیت کو موزوں سمجھتے ہوئے ملازم ہلکی آواز میں بڑبڑانے لگا ـ”کیسا بے حیا زمانہ آگیا۔ تاجر کی بے باکی دیکھو کہ اس نے ملکہ سے چھیڑ چھاڑ شروع کردی ہے“۔ جب آدھے جاگتے بادشاہ نے ملازم کی یہ بڑبڑاہٹ سنی تو وہ بستر سے اچھل پڑا اور ملازم کو پکڑ کر غصے سے پوچھنے لگا ”کیا تم نے تاجر کو ایسا کرتے خود دیکھا ہے؟“ ملازم منصوبے کے تحت ایک دم بادشاہ کے قدموں میں گرگیا اور گڑگڑا کر کہنے لگا ”عالی جاہ! میں ساری رات جوا کھیلتا رہا ہوں، نیند پوری نہیں ہوئی۔ نہ جانے بدخوابی میں کیا کیا بکواس کررہا ہوں۔ اگر میں نے کوئی گستاخانہ جملے کہے ہیں تو مجھے معاف کردیں“۔ بادشاہ خاموش ہوگیا مگر شاہی ملازم سمجھ گیا کہ اس کا تیر نشانے پرلگا ہے۔ بادشاہ کے ذہن میں ملازم کی بات اٹک کر رہ گئی۔ وہ سوچنے لگا کہ شاید یہ درست ہو کیونکہ تاجر محل میں آزادانہ گھومتا پھرتا ہے اور یہ ملازم بھی ہر جگہ آتا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے ملازم نے کچھ دیکھا ہو مگر جان کے خوف سے بتا نہ رہا ہو۔ بادشاہ کے دل میں تاجر کے خلاف شک کا زہر پلنے لگا۔ ایک دن جب تاجر محل میںداخل ہوا تو بادشاہ کے حکم پرمحافظوں نے اسے روک دیا۔ بادشاہ کے رویئے میں اس اچانک تبدیلی پر تاجر بہت حیران ہوا۔ اس وقت وہی ملازم محافظوں کے پاس کھڑا تھا۔ وہ اونچی آواز میں کہنے لگاـ ”یہ تم کیا کر رہے ہو؟ یہ تاجر تو بہت طاقتور درباری ہے۔ بادشاہ اس کی بہت حمایت کرتا ہے۔ یہ لوگوں کو گرفتار اور رہا کرا سکتا ہے۔ یہ لوگوں کو بے عزت کرکے تقریب سے باہر پھینکوا سکتا ہے جیسا کہ اس نے اپنی بیٹی کی شادی پر مجھے تقریب سے ذلیل کرکے نکلوا دیا تھا“۔ تاجر نے جونہی ملازم کی یہ گفتگو سنی اسے اندازہ ہوگیا کہ معاملہ کیا ہے۔ وہ پورے واقعے پر افسردہ ہوا اور اس کا توڑ نکالا۔ تاجر نے اس شاہی ملازم کو اپنے گھر میں خصوصی دعوت دی اور اُمراء جیسا پروٹوکول دیا۔ بیشمار قیمتی تحائف سے نوازا۔ تاجر نے ملازم سے مودبانہ درخواست کی کہ ”میں نے اُس دن آپ کے ساتھ جو کیا اس پر شرمندہ ہوں، مجھے معاف کر دیں“۔ شاہی ملازم جو تاجر کی طرف سے ملنے والے پروٹوکول اور تحائف کے باعث پہلے ہی بہت ممنون ہوچکا تھا بولا کہ ”جناب آپ نے مجھے بہت عزت دی۔ میں آپ کو دل سے معاف کرتا ہوں“۔ شاہی ملازم نے تاجر کے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا کہ ”جناب آپ دیکھیں گے کہ میں کیسے کیسے سیاسی گُر جانتا ہوں۔ بادشاہ آپ کے ساتھ پہلے کی طرح کا سلوک کرے گا اور آپ کو دربار میں وہی عزت ملے گی جو پہلے ملتی تھی“۔ اگلی ہی صبح شاہی ملازم نے اس بات کا انتظار کیا کہ بادشاہ آدھا جاگ رہا ہو اور آدھا سو رہا ہو۔ جب ایسا موقع آیا تو وہ بادشاہ کے کمرے میں کسی کام سے گیا اور بڑبڑانے لگا ”کیسا بے حیا زمانہ آگیا۔ ہمارا بادشاہ لیٹرین میں بیٹھ کر کھیرے کھاتا ہے“۔ جونہی بادشاہ نے یہ سنا وہ آگ بگولا ہوگیا اور کہنے لگا ”تم یہ کیا بک بک کر رہے ہو؟ کیا تم نے مجھے کبھی لیٹرین میں کھیرے کھاتے دیکھا ہے؟ میں تمہیں سخت ترین سزا دوں گا“۔ بادشاہ نے جونہی اپنی تلوار کھینچی ملازم اس کے قدموں میں گرپڑا اور گڑگڑا کر کہنے لگا ”بادشاہ سلامت! میں ساری رات جوا کھیلتا رہا، نیند پوری نہیں ہوئی۔ مجھے کچھ معلوم نہیں کہ میں کیا کیا بکواس کر رہا ہوں۔ آپ میری جان بخشی کر دیں۔ میں آپ کا نمک حلال ہوں“۔ بادشاہ سوچنے لگا ”ملازم نے جو میرے بارے میں کہا وہ حقیقت نہیں ہے۔ اِسی طرح اِس نے میرے بااعتماد دوست تاجر کے بارے میں جو کہا تھا وہ بھی حقیقت نہیں ہوگی“۔ بادشاہ نے غور کیا کہ تاجر بہترین انتظامی صلاحیتیں رکھتا تھا، اس کے بغیر سلطنت کا کام ڈھیلا پڑگیا ہے۔ بادشاہ نے تاجر کو اپنے محل میں بلایا اور اعزازات و تحائف سے نوازا۔ تاجر کو اس کے پرانے عہدے پر بحال کیا اور مزید اختیارات بھی دیے۔ ہزاروں برس پرانی اس کہانی کو اگر ہم آج کی اپنی سیاست پر لاگو کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہماری سیاست میں آصف علی زرداری زیادہ سیاسی گُر جانتے ہیں۔ آصف علی زرداری خوب جانتے ہیں کہ کس کو کس وقت اپنے قریب کرنا ہے اور کس کو کس وقت اپنے سے دور کرنا ہے۔ پاکستانی سیاست کی اونچ نیچ جاننے کے لیے سیاست دانوں کو آصف علی زرداری سے سیاسی گُر سیکھنے چاہئیں۔

تبصرے بند ہیں.