ویلڈن، میڈم چیف منسٹر

55

رواداری اسلامی اخلاقیات کا اعلیٰ ترین ورثہ ہے جس میں جرأت وبہادری کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے۔ اس کی لاتعداد مثالوں میں ایک، ہرایک کی سنی ہوئی مثال سلطان صلاح الدین ایوبی کی ہے جس نے دشمن کے مقابل لشکر کے سپہ سالار اور بادشاہ کنگ رچرڈ کی بیماری سے فائدہ اٹھا کراس پر حملہ آور نہیں ہوا بلکہ خود حکیم کا روپ دھار کر کنگ رچرڈ کو تیر بہدف دوائی دی جس سے وہ جلد صحت یاب ہوگیا۔ حقیقت حال جان کر وہ سلطان پر اس فقیدالمثال دواداری سے اتنا متاثر ہوا کر جنگ کئے بغیر واپس ہو گیا اسی لیے کہتے ہیں حسن سلوک بہت بڑی قوت ہے اور ہمارے آقا مولا نبی اکرمؐ کا تو اسوہ حسنہ اعلیٰ ترین حسن سلوک کی زندہ تفسیر ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے اپنی سیاسی مخالف ملیکہ بخاری کی مددکرکے سیاست میں رواداری کی جو مثال قائم کی یہ تو یقیناً لائق تحسین ہے مگر میرے نزدیک اس کا اہم پہلو یہ ہے کہ ملیکہ بخاری کنول شوزب اور عالیہ حمزہ پی ٹی آئی کی ان خواتین میں سرفہرست ہیں جوٹی وی ٹاکس میں سب سے زیادہ مریم نواز کو طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا کرتی تھیں۔ چنانچہ ملیکہ بخاری کو پریشانی میں مبتلا دیکھ کر مریم کا اس سے خط اٹھانا غیر فطری نہیں تھا بلکہ یہ عام انسانی جبلت کا تقاضا ہے حالانکہ ملیکہ بخاری کی پارٹی بالخصوص اس کے چیئر مین نے ایام اسیری سمیت جو زیادتیاں روارکھی تھیں بشری تقاضے کے تحت ان کا مریم کے قلب وذہین میں جاری رہنے والی چھبن بھی غیرفطری نہیں ہے اس کے باوجود مریم نے اسی ملیکہ بخاری کی ذاتی پریشانی حل کرکے جو اچھی روایت قائم کی ہے اس کی تحسین کی جانی چاہئے۔ ملیکہ بخاری نے اپنی مختلف پوسٹ کے ذریعہ اپنی پریشانی کا اظہار کیا تھا کہ میری 46 سالہ بہن آسٹریلیا میں اپنی زندگی کی بازی لڑرہی ہیں میں اس وقت ان کے ساتھ ہونا چاہتی ہوں۔وہ اس وقت وینٹیلیٹر پر ہیں ڈاکٹروں نے ہمیں چوبیس گھنٹے دیئے ہیں یہ فیصلہ کرنے کیلئے کہ انہیں وینٹیلیٹر پر ہی رکھا جائے یا مردہ قرار دے دیا جائے وزیراعظم شہبازشریف سے درخواست ہے ایک بار باہر جانے کی اجازت دیں تاکہ میں اپنی بہن کے پاس جاسکوں۔“اس پوٹ پر مریم نوازنے جواب دیا ”ملیکہ مجھے متعلقہ حکام سے بات کرنے دیں میں امید کرتی ہوں آپ نے باضابطہ درخواست جمع کروائی ہوئی ہے وہ اس کے چند گھنٹے کے بعد ملیکہ بخاری نے ایکس پر مریم نواز کی بروقت مداخلت کا شکریہ ادا کیا اوربیرون ملک جانے پر پابندی کی فہرست سے اپنا نام ہٹائے جانے کی تصدیق کردی۔“

ان لمحات میں یقیناً مریم کے ذہن پر اس خیال نے تیر بن کر کچوکہ لگایا ہوگا جب پی ٹی آئی کے لوگ اس گھناؤنے حرکت کے مرتکب ہوئے کیمرے لے کر ہسپتال یہ دیکھنے پہنچ گئے تھے کہ بیگم کلثوم نواز واقعی بستر علالت پر ہیں۔

ملیکہ کو ذہن نشین رکھنا چاہئے نجاریوں کی اصل متاع مال ومنال، دنیاوی جاہ و اقتدارنہیں بلکہ اعلیٰ اخلاقی روایات ہی ہیں اس لئے چھوٹء بہن سے توقع رکھتا ہوں آسٹریلیا جاکر پی ٹی آئی کے اخلاق باختہ اوورسیز سے مل کر عمرانی دور کی زبان قابو سے باہر نہ ہونے دے، ہاں واپس آکر اپنی زبان کو اس دور سے کروڑ گنا زیادہ زہر آلود کرلے تب بھی شائستگی ہی شعار رہے تو بہتر ہے۔ عمران نے اپنے پیروکاروں کی جس طرح ”اخلاقی تربیت“ کی ہے اس کے باعث میں بہر حال خدشہ کا شکار ہوں۔

وزیراعلیٰ مریم نے کوٹ لکھپت جیل میں قیدی خواتین کے ساتھ بیٹھ کر روزہ افطار کرکے اچھی روایت قائم کی ہے میری مریم سے ادنیٰ تجویز ہے جیلوں میں قیدی خواتین کی سزائے مشقت کو ”سزائے ہنر مندی“ میں تبدیل کر دیا جائے، گناہ گارہوں یا بے گناہ جیل کاٹنے کے بعد معاشرہ میں ایسی خواتین کی قبولیت کا رجحان بہت کم ہے، سزا کے طورپر ہنر سیکھ گئیں تو خود اپنے اور معاشرہ کیلئے مفید ثابت ہوں گی۔

عرفان صدیقی کو اگرچہ میری گواہی کی ضرورت نہیں ہے پھر بھی خود ساختہ گواہ کے طور پر عرض ہے ان کی یہ بات سوفیصد درست ہے کہ میاں نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز اپنی صاحبزادی مریم نواز کو سیاست میں لانے کا بالکل ارادہ نہیں رکھتے تھے جس طرح بلاول کو نابالغی کی عمرمیں ہی پیپلزپارٹی کا چیئرمین بنادیا گیا تھا۔ بلکہ خود مریم کو بھی سیاست میں آنے سے دلچسپی نہیں تھی بلکہ وہ تو کیپٹن صفدر کے بھی سیاست میں آنے کے بھی خلاف تھی جس کا اظہار نظربندی کے دوران مجھ سے گفتگو میں جو انٹرویو کی صورت ہفت روزہ تکبیر میں شائع ہوئی جب فرخ شاہ مجھے جاتی عمرہ کے بچوں کا عربی ٹیچر بناکر اندر لے گئے تھے تب مریم نے سیاست کو ”ڈراؤنا خواب“ قرار دیا تھا ان حالات وکیفیات میں ایسے محسوسات فطری بات تھی اور جب 2009ء میں نوائے وقت میں ”مریم (ن) لیگ کیلئے ترپ کاپتہ“ کے عنوان سے کالم لکھا تو مریم نے اس سے اتفاق نہ کرتے ہوئے کہا ”میرا تو سیاست میں آنے کا بالکل ارادہ نہیں ہے“ تاہم میرے اندازے کی توثیق ہوگئی جب اقامہ کی بنیاد پر مضحکہ خیز نااہلی کے بعد نوازشریف کی جگہ بیگم کلثوم نواز نے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا علالت کے باعث انتخابی مہم نہ چلا سکیں۔ پھر (ن) لیگ کیلئے ”ترپ کا پتہ“ بروئے کار آیا اور ناتجربہ کار مریم نے انتخابی مہم جس طرح تجربہ کاروں سے بڑھ کر چلائی سب ششدرہ رہ گئے اس کامیاب مہم کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی ڈاکٹر یاسمین راشد کی دوسری بار شکست پر ”مریض کے ہاتھوں ڈاکٹر کی شکست“ کے عنوان سے بھی کالم براہ راست لکھا تھا۔

مریم کو عرفان صدیقی کے ساتھ پرویز رشید کی خاموش رہنمائی بھی حاصل ہے۔

پرویز رشید سیاست کے سردوگرم چشیدہ شخصیت ہیں وہ مجھے نہیں جانتے مگرمیں انہیں تب سے جانتا ہوں جب وہ راولپنڈی میں طلبا سیاست میں راجہ انور کے ساتھ بہت سرگرم تھے۔ راجہ انور نے مری روڈ کی ایک بلڈنگ کے سیکنڈ فلور پر اپنا ڈیرہ بنارکھا تھا اسی دور میں طلباء سیاست میں بڑے رشیداور چھوٹے رشید کے نام سے دورشید اور بھی تھے۔ نظریاتی اختلاف کے باوجود پرویز رشید گواہی دیں گے بڑے رشید کی طلباء سیاست میں خدمات چھوٹے رشید سے کہیں زیادہ تھیں۔ مگر شہرت چھوٹے رشید کو زیادہ ملی وجہ یہ تھی کہ چھوٹے رشید کے بڑے بھائی شیخ رفیق قمر نوائے وقت کے بعد ’جاوداں“ کے چیف نیوز ایڈیٹر تھے، مجھے اگرچہ کوچہ صحافت میں قدم رکھنے تین سال پورے نہیں ہوئے تھے تاہم میں ڈے شفٹ کا انچارج تھا اس وقت راولپنڈی کے بڑے صحافتی نام شورش ملک، سعود ساحر، فاروق اعظم، بشیر الاسلام عثمانی عبدالقیوم قریشی اور دیگر صحافی چھوٹے رشید کا خیال رکھتے کہ یہ رفیق قمر کا بھائی ہے یوں وہ ہر روز اخبارات میں نظر آتا اگرچہ اس نے خود کو ”فرزند راولپنڈی“ کے رتبہ پر خود فائز کرلیا ہے مگر کئی حوالوں سے وہ ”چھوٹا رشید“ ہی ہے، بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔

حرف آخر، مریم نواز نے رواداری کا جو فقیدالمثال مظاہرہ کیا ہے اس پر وہ کھلے دل سے بجا طور پر ”ویلڈن، میڈم چیف منسٹر“ کی مستحق ہے۔

تبصرے بند ہیں.