یوم خواتین اور فلسطین!!

41

8 مارچ کو دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد یہ ہے کہ خواتین کے حقوق، آزادی اور خود مختاری کے حق میں آ واز اٹھائی جائے۔ دنیا کی متوجہ کیا جائے کہ خواتین بھی مردوں ہی کی طرح انسان ہیں۔ لہٰذا انہیں بھی مردوں کے برابر حقوق دئیے جائیں۔ رواج ہے کہ اس دن کے حوالے سے مختلف تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے۔ عورتیں اور ان کے حقوق کے علمبرار مرد حضرات، اس دن اکھٹے ہو کر مطالبہ کرتے ہیں کہ خواتین کو مزید حقوق دئیے جائیں۔ ان کو مزید آزادی دی جائے۔ ان پر ہونے والے مظالم کا خاتمہ کیا جائے وغیرہ وغیرہ۔

گزشتہ کئی سالوں سے پاکستان میں بھی خواتین کا عالمی دن نہایت جوش و خروش سے منایا جاتا ہے۔ اس ضمن میں رنگا رنگ تقاریب ہوتی ہیں۔ کانفرنسیں، سیمینار، مذاکرے، مباحثے، واک وغیرہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ یقینا پاکستانی عورت کے بہت سے مسائل ابھی حل طلب ہیں۔ شہری خواتین کی نسبت دیہاتی خواتین کی زندگی زیادہ مشکل ہے۔ مثال کے طو ر پر دیہاتوں میں خواتین کے لئے تعلیم اور صحت کی سہولیات کا نہایت فقدان ہے۔ شہر ہوں یا دیہات، خواتین کو ہراساں کیا جاتا ہے، انہیں تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے، انہیں ملازمتوں کے محدود مواقع میسر آتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود، پاکستانی عورت کو ان بدترین حالات کا سامنا نہیں ہے، جس کی منظر کشی مغرب میں کی جاتی ہے۔ مغربی ممالک کو لگتا ہے کہ خواتین کو سرے سے کوئی حقوق اور آزادی حاصل نہیں ہیں۔ جبکہ یہ وہ ملک ہے جہاں ایک عورت محترمہ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں۔ یہاں پر خواتین اسمبلیوں میں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ اس وقت مریم نواز شریف سب سے بڑے صوبے یعنی پنجاب کی وزیر اعلیٰ ہیں۔ یہ سب تو آج کے زمانے کی باتیں ہیں۔ 60 کی دہائی میں قائداعظم محمد علی جناح کی بہن محترمہ فاطمہ جناح سیاست میں متحرک رہیں۔ اس زمانے میں انہوں نے ایک فوجی آمر کو للکارا اور اس کے خلاف الیکشن لڑا۔ 1947 سے پہلے، تحریک آزادی میں برصغیر کی مسلمان خواتین نے باقاعدہ قائد اعظم کی جدوجہد آزادی میں حصہ ڈالا۔ قائد کا پیغام گھر گھر پہنچایا۔جیلوں میں گئیں۔ انگریز حکومت کا سامنا کیا۔ آ ج کے پاکستان میں خواتین ہمیں صحافت، معیشت، کاروبارسمیت ہر شعبے میں متحرک دکھائی دیتی ہیں۔ سچ پوچھیں تو بہت سے شعبوں میں خواتین نے مردوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ سو پاکستان کی عورت آگے بڑھ رہی ہے، ترقی کر رہی ہے۔

ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی مجھے 8 مارچ کو چند تقاریب میں جانے کا موقع ملا۔ میں نے وہی باتیں دہرا ڈالیں جو ہر سال ہم دہرایا کرتے ہیں۔ یعنی یہ کہ ہمیں اہل مغرب سے عورتوں کے حقوق کا درس نہیں چاہیے۔ چودہ سو سا ل پہلے ہمیں ہمارے پیارے نبی ؐ نے وہ تمام حقوق دئیے تھے، جن کی ایک عورت کو ضرورت ہے۔ اور یہ کہ اس زمانے میں بھی حضرت خدیجہ ایک کامیاب بزنس وومن تھیں۔ اور یہ کہ اس زمانے میں بھی حضرت عائشہؓ سے جید صحابہ احادیث کی اصلاح لیا کرتے تھے۔ اس زمانے میں بھی صحابیات جنگیں لڑا کرتی تھیں۔ ایک تقریب جو میں نے جامعہ ام کتاب میں خانم طیبہ نقوی صاحبہ کی دعوت پر اٹینڈ کی وہ فلسطینی عورت کے حوالے سے تھی۔اس تقریب میں جا کر مجھے بہت خوشی ہوئی کہ چلیں کسی نے تو فلسطین کی خواتین کو یاد رکھا ہے۔

اس تقریب میں عرض کیا کہ انسانی حقوق کا واویلا کرنے والی نام نہاد مہذب دنیا فلسطین میں ہونے والے مظالم پر کیوں خاموش ہے۔ حقوق نسواں کی عالمی تنظیمیں کیوں نہیں فلسطین کی عورتوں پر ہونے والی بمباری پر آواز بلند کرتیں۔ اس وقت حالت یہ ہے کہ خواتین اور بچے غزہ میں سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ روز شہادتیں ہو رہی ہیں۔ عورتیں زخمی ہو رہی ہیں۔ خوراک کی ترسیل بند ہے۔ ادویات کی ترسیل بند ہے۔ گھر بار ان کے تباہ ہو چکے ہیں۔ لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ دنیا کے طاقتور ممالک خاموش ہیں یا پھر اسرائیل کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق وہاں پر 52 ہزار حاملہ خواتین موجود ہیں۔ لیکن ان کو ادویات اور علاج کی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ روزانہ 182 خواتین زچگی کے عمل سے گزرتی ہیں۔ اور اس حالت میں کہ انہیں انیستھیزیا دئیے بغیر، یعنی سن یا بے ہوش کئے بغیر ان کے آپریشن ہو رہے ہیں۔ آپ اندازہ کیجئے کہ فلسطین کی عورت کس کرب سے دوچار ہے۔ یہ مشکل صرف حاملہ خواتین تک محدود نہیں ہے۔ خواتین اپنے مخصوص مسائل کے حوالے سے بھی مشکلات کا شکار ہیں۔ انہیں اپنے ماہواری کے ایام کے لئے کسی طرح کی سینٹری پروڈکٹس مہیا نہیں ہیں۔ یہ سب کچھ آج کے زمانے میں ہو رہا ہے، جب ہم حقوق نسواں کا واویلا کرتے نہیں تھکتے۔

یہ وہ زمانہ ہے جب عورت کے حق میں بلند آہنگ تقاریر ہوتی ہیں۔ ان کو حقوق دلوانے کی باتیں ہوتی ہیں۔ لیکن فلسطینی عورت کے حق میں آواز اٹھانے والا کوئی نہیں ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ 50 کے قریب مسلمان ممالک بھی اس ضمن میں کوئی ٹھوس اور عملی اقدام کرنے سے قاصر ہیں۔ او۔ آئی۔ سی زبانی جمع خرچ تک محدود ہے۔ مسلمان ممالک بیان بازی کرکے اپنا فرض ادا کر رہے ہیں۔ سو ایسے میں فلسطین کی عورت بس اپنے رب سے ہی فریاد کر سکتی ہے۔

پاکستان میں بھی ہم نے عالمی یوم خواتین پر فلسطین کی عورتوں کو کم ہی یاد کیا۔ ہم اپنے حقوق کا تذکرہ کرتے وقت اس عورت کے لئے آواز اٹھانا بھول گئے، جو پچھلے پانچ ماہ سے مشکلات و مصائب میں گھری ہے۔ 5 ماہ کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اسرائیل کے مظالم میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ کاش کہ حقوق انسانی کا واویلاکرنے والی عالمی تنظیمیں فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کریں۔ کاش حقوق نسواں کی علمبردار تنظیمیں آگے بڑھیں اور فلسطین کی عورت پر ہونے والے مظالم پر بھی شور ڈالیں۔ کاش ہمارے ملک کی لبرل خواتین، جو رنگ برنگ مارچ کرتی پھرتی ہیں،وہ بھی کبھی فلسطین کی مظلوم عورت کے لئے کچھ بولیں۔

تبصرے بند ہیں.