جنرل عاصم منیر کا دورہ امریکا!

96

امریکا کا دورہ کسی بھی سیاستدان اور افواج کے سربراہ کے لیے اس لیے بھی ضروری ہوتا ہے کہ ہم 80 فیصد سے زائد امریکی بلاک اور 20 فیصد سے کم چین روس بلاک میں ہیں۔ 80 فیصد سے زائد اس لیے کہا کیوں کہ ہمیں چاہتے،نا چاہتے ہوئے بھی امریکا سے اچھے تعلقات رکھنا پڑتے ہیں، اُس کی وجہ آئی ایم ایف کہہ لیں، ورلڈ بنک کہہ لیں یا امریکا امداد کہہ لیں جو ہمیں ماضی میں ملتی رہی ہے اور فی الوقت بھی کسی نہ کسی مد میں مل رہی ہے۔ لیکن امریکا کے ساتھ رہنا ہماری مجبوری نہ ہوتی تو ہم کب کے امریکا بلاک سے نکل کر روسی اور چینی بلاک میں جا بیٹھتے۔ خیر اسی لیے ہمارے تمام حکمرانوں کا امریکا کا دورہ انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس دورے کے دوران کئی علاقائی ایشوز پر بات ہوتی ہے، کشمیر کاز پر بات ہوتی ہے اور فلسطین ایشو پر بھی بات ہو ہی جاتی ہے۔ تبھی آج کل ہمارے آرمی چیف جنرل عاصم منیر امریکا کے دورے پر ہیں اور میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ دورہ وطن عزیز کے لیے خاصا سود مند رہا ہے۔ یہ دورہ پاکستان کے نقطہ نظر سے انتہائی اہم، پاک امریکہ تعلقات میں بہتری لانے، غلط فہمیاں دور کرنے اور دفاعی معاہدوں کے حوالے سے دور رس نتائج کا حامل ہوگا۔ بھارت کے پاکستان کے خلاف جھوٹ اور بے بنیاد اطلاعات پر مبنی پروپیگنڈے کا بھی توڑ ہوسکے گا۔ عالمی میڈیا پر آرمی چیف کے دورہ کو بڑی پذیرائی بھی مل رہی ہے۔ واشنگٹن میں ان کا پرتپاک استقبال کیا گیا۔ ان کی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن، وزیر دفاع لائیڈ جے آسٹن، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف جنرل چارلس کیو براؤن، نائب وزیر خارجہ وکٹوریہ نولینڈ اور نائب قومی سلامتی مشیر جوناتھن فائنر سے بھی ملاقاتیں ہوئیں۔ دونوں اطراف نے مشترکہ مفادات کے حصول کے لئے دو طرفہ تعاون کی کوشش جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ ان ملاقاتوں میں جنرل عاصم منیر نے علاقائی سلامتی کو درپیش چیلنجوں اور جنوبی ایشیا میں علاقائی سلامتی کو متاثر کرنے والے پہلوؤں پر ایک دوسرے کے نقطہ نظر کو سمجھنے کی اہمیت پر زور دیا۔ آرمی چیف ملک کی پائیدار معاشی بحالی کے لئے بڑے سنجیدہ ہیں پاکستانی کمیونٹی کے استقبالیہ میں ان کا کہنا تھا کہ امریکہ پاکستان کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے جو ہماری کل برآمدات کا 21.5 فیصد ہے۔ انہوں نے بیرون ملک پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کی دعوت دیتے ہوئے انہیں اثاثہ قرار دیا۔پھر آخر میں انہوں نے یو این کے سیکرٹری جنرل سے بھی ملاقات کی اور کہا ہے کہ کشمیر کا دیرینہ تنازع حل ہونے تک جنوبی ایشیا میں امن نہیں آ سکتا۔ مسئلہ فلسطین پر پاکستان کا موقف اصولی ہے۔ انہوں نے مسئلہ کشمیر کو بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جموں و کشمیر کی حیثیت تبدیل کرنے کی یکطرفہ اور غیر قانونی بھارتی کوشش سلامتی کونسل کی قراردادوں کے خلاف ہے۔ یہ امریکی دورہ آرمی چیف کے لیے یقینا پہلا دور ہے مگر انہوں نے پاکستان کے موقف کو ایسے وقت میں اْجاگر کیا ہے جب دنیا فلسطین اور روس یوکرین جنگ میں پھنسی ہوئی ہے۔ یقینا یہ اُن کی پہلی کامیابی نہیں بلکہ سپہ سالار جنرل سید عاصم منیر نے آج سے ٹھیک ایک برس قبل پاک فوج کی کمان سنبھالی تو پاکستان مشکلات اور بحرانوں میں گھرا ہوا تھا، سیاسی کشیدگی، اقتصادی بحران، امن و امان کی دگر گوں صورتحال کے باعث غیر یقینی کے بادلوں نے ہر شے کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، پاکستانی کرنسی تنزلی کے سفر پر گامزن تھی، مہنگائی نے رکنے سے انکار کر رکھا تھا۔ایک سال قبل ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا لفظ گلی کوچوں، چوک چوراہوں اور ایوانوں میں سننے کو مل رہا تھا، صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دشمن سوشل میڈیا کے ذریعے مایوسی اور بدگمانی میں اضافہ کر رہا تھا مگر ریاست ہاتھ پر ہاتھ رکھے نہیں بیٹھی بلکہ جنرل عاصم منیر کی قیادت میں پاک فوج نے مایوسی کے سفر کو مستحکم پاکستان کی جانب موڑنے کی ٹھانی۔ایک سال بعد پاکستان کے پاس بتانے کیلئے آج بہت کچھ ہے، ملکی معیشت سے کھلواڑ کرنے والے سمگلنگ مافیا پر ریاست پاکستان نے ایسا ہاتھ ڈالا جو کسی کے گمان میں نہ تھا، ڈالر کی قدر میں تاریخی کمی اور اشیائے ضروریہ کی ذخیرہ اندوزی رکنے کے بعد عام آدمی کی زندگی پر گہرا اثر پڑا۔ آرمی چیف نے پاکستان کی ڈولتی معیشت، زر مبادلہ کے ذخائر کو سنبھالا دینے کیلئے سپیشل انویسٹمنٹ اینڈ فیسیلی ٹیشن کونسل کا قیام پاکستانی تاریخ کا ایک گیم چینجر منصوبہ ثابت ہوا جس نے صرف 5 ماہ کے قلیل عرصہ میں پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے دروازے کھول دیئے ہیں، دوست ممالک کی جانب سے 60 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری اب زیادہ دور نہیں۔ انہوں نے اپنے عرصے کے دوران پاکستان میں زراعت کے شعبے میں بھی انقلاب برپا ہونے لگا ہے جس کے نتائج اب صرف چند ماہ کی دوری پر ہیں، پاکستان کی سنجیدہ معاشی پالیسیوں کے باعث آئی ایم ایف نگران حکومت پر بھی اعتماد کرنے لگا ہے، سرمایہ کاروں کے اعتماد کے باعث سٹاک مارکیٹ نے تمام بیریئرز توڑ دیئے اور روز نئے ریکارڈ بننے لگے ہیں۔ جنرل عاصم منیر کی ملٹری ڈپلومیسی کے ذریعے پاکستان ایک مرتبہ پھر عالمی دنیا میں اہم ممالک کے قریب ہوا جبکہ ملک میں امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنے کیلئے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کے نتیجے میں 464 دہشتگردوں کو چن چن کر جہنم واصل کیا گیا ہے۔ملکی معیشت اور امن و امان کو پہنچنے والے نقصان کو روکنے کیلئے غیر قانونی غیر ملکیوں کے خلاف ایک کٹھن مگر مؤثر اقدامات کا فیصلہ کیا گیا جس کے حیران کن نتائج آ رہے ہیں، صرف چند ہفتوں میں اڑھائی لاکھ سے زائد غیر قانونی غیر ملکی پاکستان چھوڑ چکے ہیں، آج کا پاکستان 29 نومبر 2022ء کے پاکستان سے مختلف ہے اور استحکام کا سفر جاری و ساری ہے۔اُمید کی جا سکتی ہے کہ اگلے دو سال میں امریکا جیسے وہ کئی دورے کریں گے، اور نئی آنے والی حکومت کے ساتھ بھی اُن کے تعلقات بہتر سے بہترین رہیں گے۔ تاکہ وہ ملک میں جمہوری استحکام کی علامت بھی بنیں!

تبصرے بند ہیں.