کرکٹ میں شکست

53

کرکٹ ٹیم بڑی امیدوں کے ساتھ ہندوستان میں ورلڈ کپ کھیلنے گئی تھی اور ایک امید تو سبھی کو تھی کہ کم از کم سیمی فائنل تک تو پہنچ ہی جائیں گے لیکن وہاں تک بھی رسائی نہیں ہو سکی توآج کی گفتگومیں ہم کرکٹ کی شکست پر جس پہلو سے گفتگو کریں گے اس حوالے سے شاید کسی اور نے بات نہ کی ہو۔ سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ کرکٹ اب تک اگر پاکستان کا مقبول ترین کھیل ہے تو اس میں کسی اور کا کوئی کردار نہیں بس یہ سمجھ لیں کہ یہ کھیل دیگر کھیلوں سے زیادہ ڈھیٹ ثابت ہوا ہے ورنہ تو آج سے چالیس پچاس سال پہلے تک بہت سے شعبوں میں پاکستان دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتا تھا۔ہاکی کے کھیل کی مقبولیت کسی طرح بھی کرکٹ سے کم نہیں تھی بلکہ گاؤں دیہاتوں میں یہ کرکٹ سے کہیں زیادہ مقبول تھا۔ نوجوان نسل کو علم نہیں ہو گا کہ کرکٹ میں تو ہم ایک مرتبہ ورلڈ کپ جیتے ہیں لیکن ہاکی میں ہم 1971, 1978, 1982اور 1994 چار مرتبہ ہاکی کا ورلڈ کپ جیت چکے ہیں جبکہ 1960, 1968 اور 1984 تین بار ہاکی کے میدان کا سب سے بڑا اؤلمپک ٹائٹل جیت چکے ہیں اور تین بار چمپئن ٹرافی جیت چکے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ 1980 سے 1984 کے درمیان پاکستان کے پاس ہاکی کی دنیا کے تمام ٹائٹل تھے اور بات فقط ہاکی یا کرکٹ تک ہی محدود نہیں تھی اسکواش کے کھیل میں تو برسوں کیا عشروں تک دور دور تک ہمارا کوئی مقابل نہیں تھا پچاس کی دہائی کے شروع میں ہاشم خان نے اسکواش کے میدان میں فتوحات کی ابتدا کی تھی تو قمرالزمان، جہانگیر خان اور پھر جان شیر خان نے ان فتوحات کو ان بلندیوں پر پہنچایا کہ آج تک ان کے ریکارڈز کو کوئی نہیں توڑ سکا۔ کشتی کے فن میں قیام پاکستان سے پہلے گاما پہلوان کا نام تھا تو قیام پاکستان کے بعد بھولو برادران بین الاقوامی شہرت رکھتے تھے۔ 1976میں جاپان کے انوکی پہلوان نے اکرم عرف اکی پہلوان کو بیشک چندلمحوں میں چت کر دیا تھا لیکن پھر چند برس بعد اسی خاندان کے سپوت جھارا پہلوان نے انوکی سے بدلہ لے لیا تھا۔ کشنی رانی اور سنوکر میں بھی کم وقت کے لئے ہی سہی لیکن ہم وکٹری سٹینڈ پر کھڑے ضرور ہوئے تھے۔

یہ تو کھیلوں کی بات تھی لیکن دیگر شعبہ ہائے زندگی میں بھی دنیا میں ہمارا نام تھا۔ قوالی میں صابری برادران اور عزیز میاں قوال پوری دنیا میں مشہور تھے۔ اس دور کے پی ٹی وی کے ڈرامے جن کے متعلق خود ہندوستان والے اعتراف کرتے تھے کہ ہم پی ٹی وی جیسے اعلیٰ پایہ کے ڈرامے نہیں بنا سکتے۔ خدا کی بستی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، تعلیم بالغاں، تعبیر اور پھر وارث اور آخری چٹان کہ جب یہ آن ایئر ہوتے تو واقعی کراچی سے خیبر تک کیا گاؤں اور شہر سڑکیں اور گلیاں سنسان ہو جاتیں۔ پاکستان کی فلم انڈسٹری ہندوستان ایسی بڑی انڈسٹری کا مقابلہ کرتی تھی اور ہندوستان والوں کو کہنا پڑا کہ پاکستان مغل اعظم نہیں بنا سکا تو ہم ہیر رانجھا نہیں بنا سکے۔ کیا نوجوان نسل اس بات پر یقین کرے گی کہ ایک وقت میں درجن سے زیادہ سپر سٹار فلم ہیروئن تھیں۔ شبنم، زیبا، شمیم آراء، رانی، صائقہ، آسیہ، نشو، دیبا، فردوس، بابرہ شریف، زمرد، عالیہ، نغمہ، سنگیتا اور کویتا جبکہ ان کے دور سے پہلے صبیحہ خانم، نیلو، نیئر سلطانہ اور مسرت نذیر اور اسی دور کے ساتھ ہی تھوڑا سا آگے انجمن اور گوری جیسی ہیروئنز کے نام بھی اپنی جگہ راج کرتے تھے اور اسی طرح مردوں میں محمدعلی، وحید مراد، ندیم، شاہد اور اعجاز عوام کے دلوں پر راج کرتے تھے۔ گلو کاروں میں نور جہاں، مہناز، ناہید اختر، نسیم بیگم، طاہرہ سید، تصور خانم اور مالا کا نام سر فہرست تھا تو مردوں میں مہدی حسن، احمد رشدی، مسعود رانا، رجب علی، اخلاق احمد، مجیب عالم، منیر حسین، اسد امانت علی، اے نیئر اور عالمگیر جبکہ کلاسیکل گائیگی میں فریدہ خانم، نیئرہ نور، اقبال بانو اور ملکہ پکھراج جبکہ مردوں میں غلام علی، امانت علی اور فوک میں پٹھانے خان، عارف لوہار اور الن فقیر جیسے فنکار ہمارے ملک کا قیمتی اثاثہ تھے۔ اتنے نام لکھنے کا مقصد نوجوان نسل کو یقین دلانا تھاکہ ایک وقت میں ہم شو بز میں بھی کسی سے کم نہیں تھے۔ اگر ہم نام نہ لکھتے تو شاید بزرگ بھی یقین نہ کرتے کہ ایک وقت میں درجن سے بھی زیادہ سپر سٹار خواتین ایکٹریس ہماری فلم انڈسٹری کا حصہ تھیں۔ طوالت کی وجہ سے بہت سے لوک فنکار اور کلاسک گائیک اور پی ٹی وی کے فنکاروں کے نام نہیں لکھ رہے۔

تو جس طرح دیگر شعبوں میں تنزلی ہوتی چلی گئی تو یہی حال کرکٹ کا ہے اندازہ کریں کہ کرکٹ کا ورلڈ کپ 1975میں شروع ہوا اور ہم 25 سال کے عرصہ میں 2000 تک پانچ بار سیمی فائنل میں پہنچے اور دو ہزار کے بعد 23 برسوں میں فقط ایک بار 2011 میں سیمی فائنل میں پہنچے۔ ہم خوشیوں کے کس حد تک قاتل ہیں کہ ہزاروں سال سے پاکستان میں ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں پتنگ بازی ہوتی تھی اور اب بھی پاکستان کے علاوہ پوری دنیا میں ہوتی ہے لیکن جب ہم نے محسوس کیا کہ بسنت کا دن تو ایک بین الاقوامی تہوار بنتا جا رہا ہے اور ہزاروں سیاح اس موقع پر پاکستان آ رہے ہیں اور آج لاکھوں تو کل کروڑوں ڈالر زرمبادلہ کی شکل میں پاکستان آنے تھے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ بسنت کے تہوار کو وسعت دے کر لاہور سے شروع کرتے اور پنجاب کے شہروں سے ہوتے ہوئے کراچی میں اس کا اختتام کرتے لیکن شومئی قسمت کہ پہلے تو اس میں مذہبی ٹچ دینے کی کوشش کی گئی لیکن جب مذہبی چورن سے کام نہیں بنا تو پھر دھاتی ڈور کو لے کر اس تہوار پر پابندی لگا دی گئی۔ آج پاکستان کی قوم کے نصیب میں خوشیاں اور تفریح تو نہیں لیکن بجلی گیس کی لوڈ شیڈنگ، دہشت گردی، مہنگائی اور بیروز گاری ہی ہمارا مقدر بن چکی ہیں۔ کیا آنے والے انتخابات میں ہمیں ایسی قیادت ملے گی جو ہماری روٹھی ہوئی خوشیاں ہمیں دوبارہ لوٹا دے۔

تبصرے بند ہیں.