7 اکتوبر 2023: حماس کے فدائین نے اسرائیل کے اندر گھس کر اسرائیلیوں پر حملہ کیا، انہیں ہلاک کیا کچھ کو اغوا کیا۔ فلسطینی مجاہدین نے دنیا کے جدید ترین سرویلنس نظام کو پتہ ہی نہیں چلنے دیا کہ وہ کیا کچھ کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں حساس کیمروں و دیگر جدید ترین آلات پر مشتمل نظام کے سامنے طویل عرصے تک جنگی تیاریاں کرتے رہے تربیت حاصل کرتے رہے اسلحہ و گولہ بارود جمع کرتے رہے پھر جب وہ پسماندہ سے گلائیڈرز پر سوار ہو کر اور کنکریٹ کی دیوار توڑ اسرائیلی فضا اور زمین میں داخل ہوئے تو دنیا کا حساس ترین آئرن ڈوم نظام بھی انہیں جاننے، پہچانے اور روکنے میں قطعی طور پر نا کام رہا۔ اسرائیل کو اپنے قیام سے لے کر 7 اکتوبر سے پہلے تک ایسی صور تحال کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا یہ پہلی بار ہوا کہ کسی نے اسرائیل کو اسرائیل کے اندر گھس کر مارا ہو اس سے پہلے ہمیشہ اسرائیلی ہی دوسروں کی سر زمین پر گھس کر حملہ ہی نہیں کرتے رہے بلکہ قابض بھی ہوتے رہے ہیں اسرائیلیوں کے لئے یہ ناقابل برداشت تھا۔ ناقابل تصور تھا۔ یہ حملہ جس قدر شدید اور حیران کن تھا۔ اسرائیلی جواب بھی اتنا ہی شدید ہے ایک مہینہ ہونے کو ہے اسرائیل حماس کو اور اس کی قوم یعنی فلسطینیوں اور ان کا ساتھ دینے والوں کو بھی نیست و نابود کرنے پر تلا ہوا ہے لمحہ بہ لمحہ بمباری جاری ہے 900 کلو گرام کے بم برف کے اولوں کی طرح برسائے جا رہے ہیں۔
غزہ کی پٹی 60 کلو میٹر لمبی اور 22 کلومیٹر چوڑی ہے جس میں 22 لا کھ انسان بستے تھے اسرائیل 18 لاکھ سے زائد رہائشیوں کو ان کے گھروں سے دھکیل چکا ہے 80 فی صد سے زائد رہائشی عمارات ملبے کا ڈھیر بنا دی گئی ہیں ذرائع نقل و حمل اور رسل و رسائل برباد کئے جا چکے ہیں۔ بجلی، پانی کا نظام مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا ہے۔ سیکڑوں انسان روزانہ کی بنیادوں پر شہید اور ہزاروں زخمی ہو رہے ہیں اسرائیل کی انتقام کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو رہی ہے۔
جہاں تک حماس کا تعلق ہے اسے اس طرح ختم کرنے کی کوششوں کے بارے میں دو آراء ہو سکتی ہیں کہ وہ حقیقتاً اسرائیل کے لئے خطرہ ہو سکتی ہے اسلئے اپنے دفاع کے حق کے طور پر حماس کو کمزور یا ختم کرنے کی ظالمانہ کارروائیوں کو اس طرح کسی نہ کسی دلیل کے ذریعے درست ثابت کیا جا سکتا ہے لیکن سیکڑوں ہزاروں بچوں، عورتوں اور غیر ملکی عملے کے اراکین کو ہلاک و زخمی کرنے کی اسرائیلی کارروائیاں کسی طور بھی درست قرار نہیں دی جا سکتی ہیں یہی وجہ ہے کہ مشرق اور مغرب کی اقوام نے اسرائیلی جارحیت اور بربریت کے خلاف اور جنگ بندی کے حق میں فقید المثال مظاہرے کئے ہیں، امریکہ ہو یا برطانیہ و فرانس اور دیگر یورپی ممالک کے عوام سڑکوں پر نکلے ہیں اور فلسطینیوں کے حق میں مظاہرے کئے ہیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی ہو یا سلامتی کونسل، اس حوالے سے قرار دادیں بھی پاس کر چکے ہیں کہ جنگ فوری طور پر بند کی جائے اورمسئلہ فلسطین کو دو ریاستی فارمولے کے مطابق حل کیا جائے لیکن اسرائیل کا جنگی جنوں کسی کو مطالبے کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نظر نہیں آ رہا ہے ایک مہینہ ہونے کو ہے اسرائیلی جارحیت اور بربریت بلا تعطل جاری ہے۔ امریکی برطانوی اور دیگر یورپی حکمران اسرائیلی جنگی جنوں کی حوصلہ افزائی ہی نہیں کر رہے ہیں بلکہ نقد اور اسلحہ کی سپلائی کی صورت میں عملی طور پر بھی اس کی حوصلہ افزائی کرتے نظر آ رہے ہیں۔ اسرائیلی بمباری کرتے وقت، درسگاہ اور مدرسہ تو دور کی بات ہے ہسپتال اور ایمبولینسوں کو بھی نہیں معاف کرتے ہیں اسرائیلی بمباری میں سیکڑوں ڈاکٹر اور طبی عملے کے اراکین بھی اپنی زندگیوں کی بازی ہار چکے ہیں لیکن اسرائیل غزہ کی پٹی کو انسانوں و رہائش گاہوں سے مکمل طور پر پاک صاف کرنے تک رکنے والا نہیں ہے۔
نیتن یاہو کی کا بینہ کے ایک وزیر امیچائی الیاہو نے واضح الفاظ میں بتا دیا ہے کہ غزہ کی جنگ جیتنے کے لئے اسرائیلی فوج کے پاس کئی آپشنز ہیں جن میں آخری اور حتمی اقدام ایٹم بم گرانا ہے فلسطینی آئر لینڈ جائیں یا کسی صحرا کا رخ کریں، فیصلے انہیں خود کرنا ہے، یہ بیان کسی مذہبی جنونی یا سیاستدان کا نہیں ہے بلکہ وزیر اعظم نیتن یاہو کی کابینہ کے ممبر کا ہے جو فیصلہ ساز افراد میں شامل ہے ایٹم بم چلائے یا نہ چلانے کا فیصلہ کرنے والوں میں شامل ہے۔ اس بیان کو محض سیاسی بیان یا جذباتی گفتگو سمجھنا حماقت ہو گی۔ اسرائیل، صہیونی تحریک کے نتیجے میں قائم ہوا اور صہیونی گریٹر اسرائیل کے قیام کے لئے مذہبی جذبے کے ساتھ بڑی کامیابی و کامرانی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں 2500 سال بعد ریاست اسرائیل کا قیام ایک سنگ میل ہے صہیونی حکمران اپنے عزائم چھپاتے نہیں ہیں انہوں نے عظیم اسرائیل کے قیام کو آسمانی فیصلہ قرار دے رکھا ہے یہ اسرائیل انہی بنیادوں پر قائم کیا جا رہا ہے جو حضرت داؤدؑ کے دور میں قائم تھیں اس ریاست اسرائیل کا دارالحکومت یروشلم تھا اور اس میں ہیکل سلیمانی قائم ہوا جو یہودیوں کی رفعت و عظمت کا اظہار تھا۔ صہیونی موجودہ اسرائیل کو اسی نقشے کے مطابق ترتیب رہے ہیں 1948 میں ریاست اسرائیل کے قیام کے بعد سے ہر دن اس کا جغرافیہ اسی نقشے کے مطابق پھیلتا چلا جا رہا ہے، اسرائیل عالمی برادری کی تنبیہ کے باوجود یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دے چکا ہے امریکہ سمیت کئی ممالک اپنے سفارتخانے تل ابیب سے یروشلم منتقل کر چکے ہیں۔ امریکی آشیر باد سے اسرائیل کے صہیونی حکمران نہ صرف گریٹر اسرائیل کے نقشے میں رنگ بھرتے چلے جا رہے ہیں بلکہ تھرڈ ٹیمپل کی تعمیر کے انتظامات کو بھی حتمی شکل دیتے جا رہے ہیں تھرڈ ٹمپل مسجد اقصیٰ کو گرا کر اس کی بنیادوں پر تعمیر کیا جانا ہے اسطرح گریٹر اسرائیل کے مبینہ نقشے میں فلسطینی ریاست کی کوئی گنجائش موجود نہیں ہے صہیونی اس کے لئے بھرپور کام کر رہے ہیں پوری دنیا کے یہودی تھرڈ ٹمپل کی تعمیر اور گریٹر اسرائیل کے قیام کے لئے یکسو ہیں 2500 سال کی جلا وطنی کے بعد وہ اپنی موجودہ منزل تک پہنچے ہیں اسرائیل قائم ہو گیا ہے اسے گریٹر بنانا باقی ہے، گزرے 75 سال کے دوران انہوں نے عربوں کے ساتھ جو کچھ کیا وہ اس بات کا محکم ثبوت ہے کہ وہ اپنے ٹارگٹ کے حصول کے لئے کچھ بھی کر گزرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے عربوں میں اپنے مقابل اٹھنے والی ہر آواز کو بزور ختم کیا۔ اخوان کا حشر ہم دیکھ چکے ہیں، پی ایل او کہاں گئی؟ اب حماس کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہونے جا رہا ہے۔ عرب حکمران اپنی شکست پہلے ہی تسلیم کر چکے ہیں عربوں میں قطعاً دم خم نہیں ہے کہ وہ صہیونیوں کا مقابلہ کر سکیں۔ عالم اسلام کی بھی کچھ ایسی ہی حالت ہے حماس، فلسطینیوں کی شاید آخری توانا آواز ہے جیسے صہیونی دبانے اور مکمل طور پر خاموش کرنے کے لئے ظلم و بربریت کی آخری حدیں بھی پار کر چکے ہیں، صہیونی اس آواز کو ختم کر کے ہی دم لیں گے چاہے انہیں ایٹم بم ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑے۔
تبصرے بند ہیں.