پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سے کچھ ایسی خبریں آئی ہیں، جنہیں آئینی اور قانونی ماہرین خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے 15 رکنی فل بنچ کا پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے خلاف درخواستوں کو مسترد کرنے کا فیصلہ ایک ایسی ہی خبر ہے۔ اس فیصلے کو عمومی طور پر سراہا گیا ہے۔ سادہ الفاظ میں اس فیصلے کا مطلب یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے عدلیہ سے متعلق قانون سازی کے اختیار کو تسلیم کیا ہے۔ اس فیصلے سے چیف جسٹس آف پاکستان کی اجارہ داری ختم ہوئی ہے اور ان کو حاصل اختیارات محدود ہو گئے ہیں۔ قابل تحسین امر ہے کہ چیف جسٹس نے خود اس فیصلے کی حمایت میں دلائل دئیے۔ آئینی ماہرین کہتے ہیں کہ قاضی فائز عیسی پاکستان کی عدالتی تاریخ کے پہلے چیف جسٹس ہیں جنہوں نے مقدمات کی سماعت کے لئے بنچوں کی تشکیل کے فیصلے میں اپنے ساتھ دو اور ججوں کو شامل کیا ہے۔ معروف قانون دان عرفان قادر کے بقول اس سے قبل چیف جسٹس صاحبان اپنے اختیارات کی طرف کسی کو دیکھنے بھی نہیں دیتے تھے۔ عدالتی حوالے سے ایک اہم خبر سپریم جیوڈیشل کونسل سے بھی آئی ہے۔ سپریم جیوڈیشل کونسل نے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کو مس کنڈکٹ کی شکایات پر شو کاز نوٹس جاری کیا ہے اور 14 روز میں جواب طلب کر لیا ہے۔ مبینہ آڈیو لیک سامنے آنے کے بعد جج صاحب کے خلاف مس کنڈکٹ کی متعدد درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔ یہ کاروائی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ بہرحال ان فیصلوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اعلیٰ عدلیہ کے معاملات میں اصلاح احوال کے خواہاں ہیں اور زبانی جمع خرچ تک محدود رہنے کے بجائے، عملی اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔ کاش چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ان بڑے معاملات کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کی طرف بھی نگاہ کریں اور دیکھیں کہ ان کے عہد میں، ان کی عدلیہ میں عام شہری پر کیا بیت رہی ہے۔ بے چارہ عام شہری کورٹ کچہری میں اب بھی اسی طرح خوار ہے جیسا قاضی فائز عیسی کے چیف جسٹس بننے سے پہلے خوار تھا۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے نظام قانون و انصاف میں موجود خامیاں عام آدمی کو انصاف کی فراہمی کی راہ میں حائل ہیں۔ برسوں بلکہ عشروں سے دہائی دی جارہی ہے کہ ان خرابیوں کو دور کر کے اس نظام کی اصلاح کی جائے۔ اس ضمن میں اکثر ورلڈ جسٹس پروجیکٹ رپورٹ کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق قانون کی پاسداری اور حکمرانی کے حوالے سے پاکستان کی عدالتیں 139 ممالک میں 130 ویں درجے پر کھڑی ہیں۔ اگرچہ اس رپور ٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد اس وقت کے چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل کی سربراہی میں، لاء اینڈ جسٹس کمیشن نے اس درجہ بندی پر اعتراض کیا تھا اور کچھ نکات کی نشاندہی کی تھی۔ تاہم رپورٹ اور ان اعتراضات سے قطع نظر، ہم سب آگاہ ہیں کہ ہمارا نظام قانون و انصاف بہت سی کمزوریوں کا حامل ہے۔ ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کی رپورٹ پڑھے بغیر ہم جانتے ہیں کہ سائل عدالت کی راہداریوں میں رلتے اور خوار ہوتے رہتے ہیں۔ ان کی عمریں بیت جاتی ہیں۔ بہت سے انصاف کا انتظار کرتے کرتے قبروں میں جا پہنچتے ہیں، لیکن انہیں انصاف نہیں ملتا۔ ایک مقدمہ شروع ہوتا ہے اور کئی برس تک چلتا رہتا ہے۔ وکلاء مختلف حیلوں، بہانوں سے تاریخ پر تاریخ لیتے رہتے ہیں اور جج صاحبان تاریخ دیتے رہتے ہیں۔ جائیداد کے مقدمات میں بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ دادا ایک مقدمہ دائر کرتا ہے اور بیس تیس سال کے بعد پوتا اس کا فیصلہ سنتا ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ مقدمات کو الجھانے کے لئے سرعام جھوٹ اور فریب کا کاروبار ہوتا ہے۔ تاخیری حربے اختیار کئے جاتے ہیں۔ دولت کو پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ آپ کسی سے پوچھ لیں، کورٹ کچہری کے نام پر وہ کانوں کو ہاتھ لگائے گا۔ زیادہ تر شہریوں کو عدالتوں پر اعتماد نہیں ہے۔ میں نے کالم کے آغاز میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی کے کیس کا حوالہ دیا ہے۔ جج صاحب کے خلاف مس کنڈکٹ کی درخواستیں سپریم جیوڈیشل کونسل میں دائر ہوئیں تو انہوں نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر نظام انصاف کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ فرمایا کہ دنیا کی عدالتوں میں صدیوں سے اصول رائج ہے کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہیے، بلکہ ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ بقول جج صاحب کے ان کے معاملے میں انصاف ہوتا نظر نہیں آرہا اور انہیں خدشہ ہے کہ ان کے ساتھ قانون اور انصاف کے مطابق سلوک نہیں کیا جائے گا۔ اس کیس کے میرٹ سے قطع نظر، صرف یہ دیکھئے کہ یہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی اپنے ملک کے نظام انصاف کے بارے میں رائے ہے۔
مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں مقدمات کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس انبوہ کثیر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی اعلیٰ اور ماتحت عدالتوں میں 20 لاکھ سے زیادہ مقدمات زیر التواء ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کا بھی یہی حال ہے۔ اگست 202 کے اعداد و شمار کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستا ن میں زیر التواء مقدمات کی تعداد 56 ہزار 544 ہے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک یہ ریکارڈ تعداد ہے۔ یہاں تک کہ سوموٹو کے بھی 25 مقدمات زیر التواء ہیں۔ مقدمات کا التوا اور انصاف میں تاخیر بہت سے مسائل کی جڑ ہے۔ چند دن پہلے ایک رپورٹ میری نگاہ سے گزری۔ پتہ یہ چلا کہ مسابقتی کمیشن آف پاکستان نے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن، پاکستان فلور ملز ایسوسی ایشن سمیت مختلف اداروں یا تنظیموں کو 67 ارب روپے کے جرمانے کر رکھے ہیں۔ان جرمانوں کی وجہ ان تنظیموں کے وہ غلط فیصلے یا طریقہ کار ہیں جن کی وجہ سے گھی، چینی، آٹے وغیرہ کی قیمتوں کو پر لگ گئے تھے۔ قیمتوں میں ا ضافے کا بوجھ غریب عوام کواٹھانا پڑا تھا۔ اسے المیہ ہی کہنا چاہیے کہ طویل عرصے سے مسابقتی کمیشن کے 559 مقدمات سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں میں زیر التوا ء ہیں۔ مطلب یہ کہ اشیائے نوش کی قیمتوں میں اضافے کے ذمہ داران 67 ارب روپے کے جرمانے ادا کئے بغیر آزاد گھوم رہے ہیں۔ اس صورتحال میں کوئی بھی عدالتوں سے انصاف کی توقع کیونکر رکھ سکتا ہے۔سب کو معلوم ہے کہ جو جتنا طاقتور ہے وہ لاکھوں کروڑوں روپے کی فیس وکیل کو دے کر مقدمات کو لٹکائے رکھتا ہے۔
جج صاحبان اس صورتحال سے لاعلم نہیں ہیں۔ کل کی خبر ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس بابر ستار نے بیان دیاہے کہ طویل عرصے کے حکم امتناع عدالتی نظام کی نا اہلیت کا اظہار ہوتے ہیں۔ چند ماہ پہلے جسٹس منصور علی شاہ نے بھی مقدمات میں التواء کے بارے میں کہا تھا کہ طویل التواء لوگوں کی زندگیاں تباہ کرنے کا باعث بنتا ہے۔ اس صورتحال کا جواز دیا جاتا ہے کہ لاکھوں مقدمات کو سننے کے لئے ملک میں محض 3 ہزار جج موجود ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ججوں کی بہت سی سیٹیں خالی پڑی ہیں۔ پھر سنتے ہیں کہ ججوں کی تقرری کے طریقہ کار میں بہتری لانے کی اشد ضرورت ہے۔ یا یہ کہ ججوں کے احتساب یا جواب دہی کا نظام مضبوط بنانا چاہیے۔یہ نکتہ بھی اٹھایا جاتا ہے کہ پولیس کی تفتیش کاطریقہ کار درست نہیں، چالان وقت پر پیش نہ ہونے کی وجہ سے تاریخیں پڑتی ہیں۔ توجہ دلائی جاتی ہے کہ ہم نے سو ا سو سال پرانے سول پروسیجر کوڈ 1908 اور کریمنل پروسییجر کوڈ 1898 اختیار کر رکھے ہیں۔
یہ سب نکات قابل جواز ہیں۔ لیکن ان سارے معاملات کی اصلاح احوال کس نے کرنی ہے؟ اعلیٰ عدلیہ، پارلیمان اور دیگر اسٹیک ہولڈروں کو معاملات میں بہتری لانے کے لئے مل بیٹھنا ہوگا۔ باقاعدہ پالیسی سازی کرنا ہو گی۔ خالی تقریروں اور اعتراض اٹھانے سے تو یہ مسائل حل ہونے سے رہے۔ کاش چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ان معاملات کی طرف نگاہ کریں۔ نظام قانون و انصاف کی اصلاح احوال کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔اگر وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو ان کا نام عدالتی تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا۔
تبصرے بند ہیں.