یہ میری صحافت کا ہنگامہ خیز دور تھا، ان دنوں پاکستان خودکش دھماکوں کی زد میں تھا، میں ان چند صحافیوں میں شامل تھا جو خودکش دھماکوں اور طالبانائزیشن پر کام کر رہے تھے۔ 2012 میں میری کتاب ”خودکش بمبار کے تعاقب میں“ شائع ہوئی لیکن اس سے کافی پہلے مجھے قاری سیف کا علم ہو چکا تھا۔ قاری سیف وہ شخص تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 95 فیصد خودکش بمبار اسی نے تیار کیے تھے۔ اس نے سینئر قبائلی صحافی رحیم اللہ یوسفزئی مرحوم کو بھی چیلنج کیا تھا کہ وہ انہیں صرف آدھے گھنٹے میں خودکش دھماکے کے لیے جیکٹ پہننے پر آمادہ کر لے گا۔ مجھے بعد میں ایک اہم سکیورٹی آفیسر نے بتایا کہ اس کا یہ دعویٰ درست تھا، وہ اتنا زبردست برین واشر تھا کہ مثال دینا مشکل ہے۔ دوسری جانب قاری سیف کی ظاہری شخصیت ان تمام باتوں کے برعکس تھی جو اس کی شخصیت کے بارے میں قائم کی جاتی تھی۔ وہ انتہائی بزرگ شخصیت کا مالک تھا جس کے چہرے پر ماں سے زیادہ پیار نظر آتا تھا۔اس کا لہجہ نرم اور انداز شفقت آمیز تھا۔ کالعدم تنظیم کے اس اہم کمانڈر نے نوجوانوں کی ایسی برین واشنگ کی کہ وہ اس کی نظر سے دنیا و آخرت دیکھنے لگے۔ وہ دن کو رات کہتا تو انہیں بھی سورج چاند جیسا لگنے لگتا تھا۔ قاری سیف صرف ایک شخص کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا کردار ہے جو کئی برس سے اپنا فرض ادا کر رہا ہے اور جانے کتنے سال یہی کام کرتا رہے گا۔ پاکستان کے لگ بھگ ہر گھر میں ایک قاری سیف موجود ہے جو بچوں کی برین واشنگ میں مصروف ہے۔ ماں سے زیادہ محبت کا اظہار کرنے والے قاری سیف نے وہی کام کیا جو ہمارے معاشرے میں ماں کی محبت کراتی ہے۔ ہمارے اس معاشرے میں جنم لینے والے بچے عمر بھر اس محبت آمیز برین واشنگ کا شکار رہتے ہیں اور پھرکسی روز اپنے ہی خاندان میں خودکش دھماکہ کر دیتے ہیں۔
یہ بالکل درست ہے کہ ماں کی گود بچے کی پہلی درس گاہ ہے اور ماں عمر بھر بچے کا سر اپنی گود میں رکھے سبق پڑھاتی رہتی ہے۔ بدقسمتی سے اس درس گاہ میں ہی بچے کی ایسی برین واشنگ کر دی جاتی ہے جس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے یہاں ہمیشہ خالہ ہی کیوں سب سے اچھی ہوتی ہے اور پھوپھو کو ہی کیوں ظالم سمجھا جاتا ہے؟ آخر کیا وجہ ہے کہ عید پر خالہ کے بھیجے پچاس روپے پھوپھو کے پانچ سو روپے پر بھاری ہوتے ہیں؟ بچوں کو ہمیشہ یہی کیوں محسوس ہوتا ہے کہ ماموں انتہائی مشفق اور چاچا تایا ہی سخت مزاج ہوتے ہیں؟ تایا یا چاچا کی ہر دوسرے دن لائی گئی چیزیں یا پیسے ماموں کے سال بعد دیے گئے تحفے کے سامنے اہمیت کیوں کھو دیتی ہیں؟ آخر کیوں خالہ کی محبت اصلی اور پھوپھو کی مصنوعی لگتی ہے؟ خالہ اور پھوپھو سے لے کر ماموں اور چاچو کے درمیان یہ تفریق کون پیدا کرتا ہے؟ سوچتا ہوں کہ وہی خالہ جب کسی اور کی پھوپھو بنتی ہیں تو کیا وہاں بھی ایسی ہی شفیق ہستی ہوتی ہیں یا پھر وہاں کی اینگلنگ انہیں بطور پھوپھو منافق اور ظالم بنا دیتی ہے؟ ہمارے یہاں بچے اس پہلی درس گاہ سے ہی ملنے والے سبق کو یاد کرنے کے بعد عمر بھر اسی کے تابع رہتے ہیں۔ انہیں پھوپھو کی محبت بھی کسی سازش سے کم نہیں لگتی اور خالہ کی بیزاری میں بھی کوئی رمز نظر آنے لگتی ہے۔ انہیں لگتا ہے کہ تایا چاچا تو ہوتے ہی حق کھانے والے ہیں جنہوں نے ان کے باپ کا حق دبا لیا تھا،کاروبار پر قبضہ کر لیا یا دادا کو اپنی مٹھی میں لے کرجائیداد میں سے بھائی کاحصہ اپنے نام کرا لیا اور اگر پوری دنیا میں کوئی ان سے سچی محبت کرتا ہے تو وہ خالہ یا ماموں ہیں۔
خالہ اور پھوپھو کی یہ ”نظریاتی جنگ“ سوشل میڈیا تک پہنچ چکی ہے جہاں پھوپھو کے خلاف میمز یعنی مزاحیہ پوسٹ تو بن رہی ہیں لیکن خالہ کے سارے گناہ معاف کر دیے گئے ہیں۔ لوگ کمنٹس میں بڑی پھوپھو کا مذاق اڑاتے نظر آتے ہیں یعنی جس خاتون کا احترام ان کے والد پر بھی فرض ہے اسی کی تذلیل کی جاتی ہے۔ یہ برین واشنگ اس حد تک ہو چکی ہے کہ اکثر نوجوانوں کو شادی کے لیے بھی پھوپھو کا بیٹا انتہائی برا اور ناقابل برداشت لگتا ہے جبکہ خالہ کی بیٹی دنیا کی سب سے معصوم اور پیاری لڑکی لگتی ہے۔ جس طرح برصغیر میں پٹھانوں اور سکھوں پر لطائف بنتے ہیں ویسے ہی پھوپھو کے خلاف بھی بن رہے ہیں۔ خالہ اور پھوپھو کی اس جنگ میں سب سے اہم کردار اس عورت کا ہوتا ہے جسے وہی ”پھوپھو“ ایک بہن کی طرح انتہائی محبت سے بیاہ کر لاتی ہے اور جانے کتنی لڑکیوں میں سے اس کا انتخاب کرتی ہے، اس کے لیے بری خریدتی ہے، اس کی شادی پر سب سے آگے نظر آتی ہے اور اس کے بچوں کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ اسکے بچے پر بے پناہ محبت لٹاتی ہے،یہ الگ بات کہ برین واشنگ ایسی محبت کو نظر انداز کرا دیتا ہے۔ بچے کا والد چونکہ روزگار کے چکر میں زیادہ وقت گھر سے باہر ہوتا ہے اس لیے وہ بروقت”پھوپھو“ کو اچھا بنا کر پیش کرنے میں ناکام رہتا ہے جبکہ خالہ کے قصیدے بچہ دن رات سنتا ہے۔
مجھے لگتا ہے کہ برین واشنگ کی دنیا کا سب سے بڑا تاریخی کردار حسن بن صباح اوردور جدید کا قاری سیف ان خواتین کے مقابلے میں کچھ نہیں ہے۔ یہ لوگ ایک بندے کو ایک ہی حملہ کے لیے تیار کرتے تھے لیکن ہمارے یہاں بظاہر مظلوم نظر آنے والی خواتین جن بچوں کی برین واشنگ کرتی ہیں وہ عمر بھر اسی کے تابع ہو کر انتہائی محبت کرنے والے رشتوں کو تباہ کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ بہت سے بچے محض اپنی والدہ کی وجہ سے اپنے ہی والد کے خلاف ہو جاتے ہیں۔ اسی کہانی کا دوسرا رخ دیکھیں تو شاید چار دیواری میں ہونے والی برین واشنگ کا اندازہ لگایا جا سکے۔ ہمارے معاشرے میں عموما مائیں اپنے بچوں کو خوب پھینٹی لگاتی ہیں، دن بھر کئی بار ماں کی ڈانٹ اور مار کھانے والے بچوں کو سب سے بڑی دھمکی باپ سے پٹوانے کی دی جاتی ہے، یہ خوف عمر بھر بچے کو باپ سے ایک فاصلے پر رکھتا ہے۔مائیں خود بچے کی پٹائی بھی کرتی جاتی ہیں اور باپ کا ڈر بھی ان کے دل میں بٹھاتی جاتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زیادہ تر باپ بچوں کو مارتے نہیں ہیں، بچے کے لیے باپ کا گھورنا ہی کافی ہے لیکن یہ ایک ”شیر کی نظر“ ہی برین واشنگ کی وجہ سے اسے باپ سے دور اور ماں کے قریب رکھتی ہے۔ البتہ جن گھرانوں میں باپ ہاتھ اٹھاتے ہیں وہاں بچے جوان ہونے پر ماں اور باپ دونوں کے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں۔ ہر روز ماں سے مار کھانے والا بچہ شام کومزدوری سے واپس آنے والے باپ کی محبت کو بھی ”رعب“ کے لبادے میں دیکھ کر اس سے کچھ ذہنی فاصلہ رکھنے لگتا ہے۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ حقیقت اور برین واشنگ کے اس کھیل نے چار دیواری کی دنیا میں کتنا بڑا تماشا لگا رکھا ہے۔ خوش قسمت ہیں وہ گھر جہاں ایسی خاندانی تفریق نہیں اورخوش نصیب ہیں وہ لوگ جواس برین واشنگ کا شکار نہیں ہوئے۔ ویسے آپ کو کون زیادہ پسند ہے، پھوپھو یا خالہ؟
تبصرے بند ہیں.