میری آنکھ کھلی۔۔ خاصی مشکل محسوس ہو رہی تھی۔۔ ایک بزرگ نرس کا چہرہ نمودار ہوا۔۔ میں نے لپ اسٹک سے اندازہ لگا یا نرس ہے۔۔ مجھے شہزاد چیمہ یاد آ گیا۔۔ ”مظفر صاحب محترمہ فردوس عاشق اعوان صاحبہ پندرہ بیس سال بعد پٹھانے خان جیسی لک Look دیا کریں گی۔۔“؟ ماحول میں پھیلی بے تحاشا سپرٹ کی ”خوشبو“ سے محسوس ہوا۔۔ میں کسی کلینک پہ ہوں۔۔ ”نرس“۔۔۔ یہ کلینک نہیں ہو سکتا۔۔ میں نے اندازا لگایا۔۔ پھر آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھانے لگا۔۔ نرس صاحبہ اس دھندلکے میں ایسے لگ رہی تھیں جیسے بادلوں کے بیچ میں سے”فوکر طیارہ“ گزر رہا ہو۔۔ اپنی ناک سے غصے کا اظہار کرتے ہوئے۔۔ آنکھ، ناک، زبان۔۔ ہونٹ سب چیزوں سے انسان کئی طرح کے کام لے سکتا ہے۔۔۔ رب جانے۔۔ یہ جانوروں نے انسانوں سے سیکھی ہیں یا انسانوں نے جانوروں کو سکھائی ہیں؟!؟۔ ویسے دس گیارہ سالہ احمد کان بھی ہلا لیتا ہے۔ لیکن گدھے جیسا نہیں لگتا۔۔ حالانکہ بچوں میں بندر جیسی نقل اتارنے کی عادت اور دوسرے جانوروں جیسی دیگر عادات پائی جاتی ہیں؟!؟ بادلوں سے گزرتے ”فوکر“ کے بعد تیزی سے بادلوں میں سے گزرتا ٹرائیڈ نٹ گزرا۔۔ عینک آنکھوں میں سجائے۔۔ ڈاکٹر خلیل۔۔ میں نے اس حالت میں بیڈ پر لیٹے بھی اُسے پہچان لیا۔۔ یہ ڈاکٹر خلیل میرا وہی دوست ہے جس سے میری ہر بار محض اس لئے لڑائی ہو جاتی ہے کہ اُس کے ڈسپنسر (یقینا اُس کے حکم سے) ہر مریض کو ایک ہی سرنج سے ٹیکہ لگائے چلے جاتے ہیں۔۔ تیری بیماری مجھے میں میری بیماری اُن میں یہ ڈاکٹر خلیل دوستوں کو جب مجھ سے ملواتا ہے تو انہیں شو کرتا ہے۔۔ جیسے میں اُس کا کلاس فیلو ہوں حلانکہ اس نے میٹرک مجھ سے تین سال پہلے کر لیا تھا۔۔ ویسے اگر میں بھی دو بار فیل نہ ہوتا تو شاید میں مان ہی لیتا۔۔ کہ وہ میرا کلاس فیلو رہا ہے۔۔ میں نے دیکھا وہ گزر گیا۔۔ میں شدید خواہش کے باوجود حلق سے آواز نہ نکال پایا۔۔ مجھے ہلکا سا احساس ہوا کہ میں کسی چکر میں پڑ چکا ہوں۔
”چکڑ“۔۔ مجھے پھر سے چکر آنے لگے۔۔ شاید میں بے ہوش ہو رہا تھا۔۔ بے ہوش ہونے کا تجربہ مجھے اس سے پہلے نہیں تھا جیسے جیب کٹ جانے کا تجربہ بھی مجھے 30 جولائی سے پہلے نہ تھا۔۔ اتنے ماہر جیب تراش۔۔ واہ جی واہ۔۔ جیب پوری کٹ گئی ذرا بھی درد محسوس نہ ہوئی۔۔ اوہ سوری۔۔ جیب کٹنے سے مجھے یاد آیا دردتو ہوتی نہیں۔۔ ہاں بتا رہا تھا تکلیف ہوئی۔۔ جب پتا چلا کہ روپے پیسے کے ساتھ شناختی کارڈ بھی گیا۔۔ نادرا والوں کا خوفناک چہرہ آنکھوں میں گھوم گیا۔۔ لمبی قطار میں بد تمیز عملہ۔۔ پھر سے وہ ساری کی ساری اذیت جولائی کے مہینے میں سہنی پڑے گی؟!
بے ہوش ہونے کے تجرباتی عمل سے گزرتے ہوئے۔۔ مجھے آخری منظر یاد آ گیا۔۔ ”ارے۔۔ میں تو موٹر سائیکل چلا رہا تھا۔۔ میں نے تو۔ صبیحہ کو ایس ایم ایس کیا تھا۔۔ ”جی“۔۔ (Hi) اُس نے جواب لکھا۔۔ ”صبح میں نے تمہیں موٹر سائیکل پہ کالج پڑھانے جاتے دیکھا تھا۔۔ تم بہت خوبصورت لگ رہے تھے۔۔ میں نے جوابی ایس ایم ایس مزے لے لے کر پڑھا۔۔ صبیحہ کا چہرہ میری آنکھوں میں گھوم گیا۔۔ پھر سے میں نے ایک ہاتھ سے موٹر سائیکل چلائی ایک ہاتھ سے موبائل پر ٹریفک وارڈن سے ڈرتے ڈرتے صبیحہ کا جوابی۔۔ ایس ایم ایس پڑھا۔ ”تم تو بہت خوبصورت لگ رہے تھے“ میری نظر اس فقرے پر پڑی۔۔ اور شاید دیر تک پڑی رہی۔۔ ”ٹھاہ“۔۔ یوں لگا جیسے بہت سے ماہر ”ڈرمر“ اک ساتھ بڑے بڑے ڈرم پیٹ رہے ہوں۔۔ پھر کچھ یاد نہیں۔۔ شاید میں گر گیا تھا شاید میں نے کسی چیز میں ہٹ کیا یا۔ مجھ پہ کار وغیرہ چڑھ دوڑی۔۔۔ ارے صبیحہ۔۔ بھی نیم بے ہوشی کے دوران مجھے دیکھتے ہوئے گزری اس دوران ابا جی آگئے۔۔ یہ دنیا میں وہ شخصیت ہیں جن کے سامنے میں چاہوں بھی تو کوئی بہانہ نہیں کر سکتا۔۔ کیونکہ اتوار کو دیر تک سویا رہوں۔۔ جو جگانا چاہے گا منہ کی کھائے گا۔۔ ابا جی کے آتے ہی میں بستر چھوڑ بھاگ نکلتا ہوں۔۔
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا والد صاحب نے بتایا کہ تم موٹر سائیکل چلاتے ہوئے اس گدھا گاڑی پر چڑھ دوڑے تھے۔۔ نہ گدھے کو کچھ ہوا نہ گاڑی کو نہ گاڑی بان کو۔۔ بس تمہیں چوٹیں آئیں اور گدھا گاڑی والا۔۔ بھاگ نکلا۔۔ لوگوں نے گدھے سے اُس کا پتہ پوچھا تو وہ چپ رہا۔۔ شاید اپنے عزیز کے بے ہوش ہونے پر پشیمان تھا۔۔ پھر تمہارے فون پر بیل ہوئی۔۔۔ صبیحہ تھی ٹریفک وارڈن نے اُسے تمہارا حلیہ بتایا۔ تو اُس نے کہا۔ ”ہاں ہاں یہ ہمارے ہمسائے میں رہتے ہیں۔۔ میں تو اپنے تیسرے بچے کو دکھانے ہسپتال جارہی ہوں۔۔ آپ جس گاڑی سے ان کی فکر ہوئی ہے انہیں اس پر بٹھا کر کسی نزدیک ہسپتال بھیج دیں شکریہ“
میں درد سے کراہ رہا تھا۔۔ اور والد صاحب لگاتار بولتے چلے جارہے تھے۔۔
”اوئے میرے کلاس فیلو“۔۔ ڈاکٹر خلیل آگیا۔۔” کیا حال ہے اب۔؟ میں نے والد صاحب سے کہا۔ ”مجھے کسی اور ہسپتال لے جائیں۔۔ میں نے ڈاکٹر خلیل سے علاج نہیں کرانا یہ نالائق ڈاکٹر ہے۔۔ ڈاکٹر نے ایک بڑا سالڈو میرے منہ میں۔ ٹھوس دیا اور بولا۔۔ میری ترقی ہوگئی ہے میں اب ڈاکٹروں کو پڑھایا بھی کروں گا اور یہ لو تمہارے کا غذات۔۔ آپ ہسپتال سے فارغ ہیں دوائیاں لکھ دی ہیں آئندہ اگر ایکسیڈنٹ کرنے کو دل کرے تو انسان سے فکر لیتا۔۔ معصوم گدھے سے مت الجھنا۔۔ ویسے وہ ابھی تک تمہاری تلاش میں ہے۔۔ میں شرمندہ شرمندہ اٹھا۔۔ اور ہسپتال کی ایمر جنسی سے باہر کی طرف چلنے لگا۔۔
”ہٹ جائیں“۔۔ ”ہٹ جائیں“۔۔ ”راستہ دیں“ ایک اور ایمر جنسی آرہی تھی۔۔ جب سٹریچر پر پڑی زخمی مریض پاس سے گزرنے لگی تو والد صاحب بول اُٹھے۔۔ ”یہ تو بشریٰ بی بی ہے۔۔ ہماری ہمسائی۔“ میں بھی ڈگمگاتا ہوا ساتھ چل پڑا۔۔سٹریچر سے بیڈ پر لٹایا تو میں بھی پاس کھڑا ہو گیا۔ بشریٰ ہوش میں تھی۔۔
ٹانگ اور دونوں بازو بری طرح زخمی تھے۔۔ پیشانی پر بھی چوٹ کے نشان تھے۔۔ کیا ہوا۔۔! وہ گاڑی۔۔ میری گاڑی۔۔ چوک پر کھڑی گدھا گاڑی میں جا لگی۔۔! میری ہنسی نکل گئی کے آپی۔۔ جان۔۔ دھیان سے گاڑی کیوں نہیں چلاتیں آپ۔۔؟! میں نے پوچھا تو وہ بھی کراہتے ہوئے مسکرادیں۔ بھائی ایک ایس ایم ایس پڑھتے ہوئے دھیان ادھر اُدھر ہو گیا۔۔ میں نے فون اُن کے بستر سے اُٹھایا اور پڑھنے لگا تازہ ترین آیا ہوا ایس ایم ایس۔۔ ”بشریٰ ڈئیر۔۔ آج تم بہت خوبصورت لگ رہی تھی“۔۔ میں نے موبائل بشریٰ آپی کے سرھانے رکھا۔۔ اُن کا ڈاکٹر خلیل سے تعارف کرایا، بہت خیال رکھنے کی ہدایت کی اور ہسپتال سے باہر آ گیا۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.