پاکستانی عوام ٹیکس چور ہیں؟

108

گزشتہ چند سال میں حکومتیں تو کئی بدلیں لیکن ان کے اللے تللے اور رونا دھونا وہی رہا۔ حیرت ہے واردات تو انہوں نے ڈالنا ہی ہوتی ہے کم ازکم اس سلسلہ میں پیش کیے جانے والے عذر میں ہی کچھ ورائٹی پیدا کر لیا کریں، لیکن ایسا بھی کچھ دیکھائی نہیں دیتا۔ وہی پرانی گھسی پٹی باتیں جو سالہا سال سے ان سیاستدانوں سے سنتے چلے آ رہے ہیں وہی کیسٹ دوبارہ چلا دیتے ہیں اور ہمارے بھولے عوام ان پر یقین بھی کر لیتے ہیں۔
اب تک ملک میں کسی سیاسی جماعت نے حکومت قائم کی ہو یا آمریت کا دور رہا ہو کوئی بھی حکومت اپنی کارکردگی پر کبھی بات نہیں کرتی۔ ہر وقت سابق حکومت کی کرپشن، لوٹ مار، چوری اور نااہلی پر بات کی جاتی ہے اور جھوٹے وعدوں کی بنیاد پر سبز باغ دکھائے جاتے ہیں۔ اور جانے کیوں ہمارے عوام کو یہ سادہ سی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ان کے ہمدرد اور مسیحا ہونے کے دعویدار یہ حکمران اپنی عیاشیوں اور مراعات پر تو کوئی سمجھوتا نہیں کرتے لیکن غریب عوام سے ہر وقت قربانی مانگنے پر تیار رہتے ہیں۔
ہر حکومت ایک اور بات جس کا رونا روتی رہتی ہے وہ یہ ہے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ اس بات میں کتنی حقیقت ہے یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن ایک عام آدمی کو جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ چونکہ ٹیکس چوری میں بڑے بڑے کاروباری حضرات کے علاوہ سیاستدانوں اور بیوروکریسی کا بھی بھر پور حصہ ہوتا ہے شائد اسی لیے ٹیکس اکٹھا کرنے کا کوئی موثر اور جامع پروگرام ترتیب دیا ہی نہیں جاتا، ورنہ ریاست کی طاقت کے آگے کسی کو پر تک مارنے کی جرأت تک نہیں ہو سکتی۔
برادرم سرفراز قریشی نے گزشتہ روز ڈاکٹر فرخ سلیم کی ایک ویڈیو شیئر کی جس کے مطابق حکومتوں کی جانب سے مسلسل یہ کہنا کہ پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے اور انہیں ٹیکس چور قرار دینا سراسر زیادتی ہے۔ انہوں نے اعداد و شمار کی بنیاد پر بتایا کہ پاکستانی قوم تو باقاعدگی سے اتنا ٹیکس ادا کر رہی ہے کہ اگر صرف چند ہی سال کے ریکارڈ کا جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہو سکتا ہے کہ ٹیکس کی مد میں جمع کی گئی رقم میں کتنا اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر سلیم کا کہنا تھا کہ سال 2010 میں حکومت پاکستان نے ٹیکس کی مد میں 1500 بلین روپے اکٹھا کیے جو سال 2023 میں بڑھ کر 9400 بلین روپے ہو نے کے امکانات ہیں۔ یعنی تیرہ سال میں حکومت کو ٹیکس کی مد میں 7900 بلین روپے اضافی وصول ہوں گے۔ لیکن ہماری حکومتیں پھر بھی ناخوش ہیں اور عوام کو ٹیکس چور قرار دیتی ہیں۔ بالکل درست کہتے ہیں ڈاکٹر فرخ سلیم کہ اصل مسئلہ ٹیکس کا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ تو کرپشن اور حکومتی اخراجات کا بے قابو ہو جانا ہے۔ جس پر نہ کوئی توجہ دینا چاہتا ہے اور نا ہی کوئی کھل کر بات کرتا ہے۔
حکومتی اخراجات کے سلسلہ میں اعداد وشمار پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ سال 2010 میں حکومتی اخراجات 2400 ارب روپے تھے جو سال 2023 میں بڑھ کر گیارہ ہزار ارب سے بھی تجاوز کرنے کے امکانات ہیں۔ پاکستانی عوام تو بیچارے ڈائریکٹ ٹیکس تو دیتے ہی ہیں لیکن ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن سے تو ملک کا کوئی شہری حتیٰ کہ معصوم بچے تک محفوظ نہیں۔
اگر کوئی شہری کسی مکان، گاڑی یا حتیٰ کہ موٹر سائیکل کا بھی مالک ہے تو اسے اس سلسلہ میں ایک نہیں بلکہ متعدد قسم کے ٹیکس ادا کرنا پڑتے ہیں۔ مکان یا گاڑی کی تو خیر بات ہی چھوڑیں پہنے کے کپڑے، جوتے، کھانے پینے کی اشیا اور ادویات تک پر بھاری ٹیکس عائد ہیں۔ شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے ایسی حکومتوں کے لیے کہ جنہوں نے بچوں کے دودھ، کتابوں، کھلونوں اور ٹافیوں تک پے ٹیکس عائد کر رکھا ہے۔ یعنی جس ملک کے عوام کو ٹیکس چور قرار دیا جاتا ہے دراصل اس قوم کے تمام مرد، عورتیں اور حتیٰ کہ بچے تک ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
حال ہی میں حکومت نے آئی ایم ایف کے کاندھے کو استعمال کرتے ہوئے عوام کو بجلی، گیس اور اضافی ٹیکسوں کی مد میں اربوں روپے کا ٹیکہ لگا دیا ہے لیکن یہ اضافی ٹیکس دراصل حکومت کی نااہلی ہے جس کا الزام آئی ایم ایف پر لگایا جا رہا ہے اور اس کا تمام تر بوجھ عوام پر پڑے گا۔
اگر صرف بجلی کے شعبہ کی بات کی جائے تو واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے عام صارفین کے لیے ریٹس بڑھانے کی کوئی بات نہیں کی تھی۔ ان کا تو کہنا تھا کہ اس شعبہ میں ہونے والے سو کروڑ روپے روزانہ کے نقصان کو کنٹرول کریں۔ لیکن ہماری حکوت کی کارکردگی کا عالم یہ ہے کہ اس قسم کے نقصانات کو کنٹرول کرنے کی تو صلاحیت نہیں ہے لیکن ان کا زور بے چارے عوام پر تو چلتا ہے لہٰذا انہیں کے لیے بجلی کے نرخ بڑھا کر معاملات کو چلایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ بھی پی آئی اے ستر کروڑ روپے سالانہ کا نقصان کر رہی ہے اس طرح ریلویز، سٹیل مل، جیسے جانے کتنے ہی سفید ہاتھی حکومت نے پال رکھے ہیں جن کے اخراجات کا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بڑے بڑے کاروباری حضرات، صنعت کاراور زمیندار وغیرہ ٹیکس ادا نہیں کرتے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان سے ٹیکس وصول کرنا عوام کی ذمہ داری ہے؟ حکومت کی اس نااہلی اور نالائقی کی قیمت بھی عوام کو ادا کرنا پڑ رہی ہے۔
قصہ مختصر یہ سارا چکر حکومت کی نالائقی، نااہلی اور بدنیتی کا ہے لیکن اس کا بوجھ عوام کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اگر آج بھی صرف حکومت نقصانات، فضول خرچیاں اور چوریاں کنٹرول کر لے تو عوام تو تھوڑا بہت نہیں بلکہ خاطر خواہ ریلیف میسر آ سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.