قیامِ پاکستان۔۔ گاہے گاہے باز خواں ایں قصّہ پارینہ را۔۔!

106

اگست کا مہینہ آئے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اُن بے مثال قربانیوں کو بھول جائیں، ہم ہزاروں افراد کے تہہ تیغ ہونے کو فراموش کر دیں، ہم لاکھوں افراد کے اپنے گھروں سے بے دخل کیے جانے اور بے سرو سامانی کے عالم میں مہاجر بننے کو بھول جائیں، ہم بیاس اور ستلج دریاؤں کے کناروں پر بہنے والے خونِ ناحق کی ندیوں کو بھول جائیں، ہم بیل گاڑیوں اور چھکڑوں میں سوار اور پیدل چلنے والے لُٹے پُٹے قافلوں کو بھول جائیں ہم ریل گاڑیوں کے ڈبوں کے اندر اور چھتوں اور دروازوں کے ساتھ لٹکے ہوئے کٹے پھٹے اور زخموں سے چُور بے حال مسافروں کو بھول جائیں، ہم پون صدی قبل کے اِن دل دوز مناظر کو کیسے بھول جائیں جن کی جھلکیاں کبھی کبھار ہمیں اخبارات کے صفحات اور ٹی وی کی سکرینوں پر نظر آ جاتی ہیں۔ یقینا ہم ان مناظر کو نہیں بھول سکتے کہ ان کا تعلق اُس بے مثال جدوجہد سے ہے جو جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے اپنے عظیم قائد محمد علی جناح کی قیادت میں اپنے لیے ایک الگ خطِ ارض حاصل کرنے کے لیے کی۔ یہ جدوجہد بلا شبہ عدیم المثال تھی۔ اس میں بڑے، بوڑھے، بچے، جوان اور مرد وزن سبھی شامل تھے۔ یہ اسی عدیم المثال جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے لیے ایک آزاد مملکت دُنیا کے نقشے پر اُبھری۔۔۔ 14 اگست 1947 کو برصغیر میں مسلمانوں کے لیے الگ آزاد مملکت کا قیام ایک ایسا واقعہ تھا جس کی مثال قوموں کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ یقینا یہ منشا الٰہی تھا، یہ امر ربی تھا، یہ ربِ کریم کا احسانِ عظیم تھا اور اُس کے پیارے حبیبﷺ کی نظرِ کرم تھی کہ برصغیر میں جہاں مسلمان کم و بیش ایک ہزار سال تک حکمران رہے تھے اور جہاں انہوں نے اسلامی تہذیب و تمدن، اعلیٰ اخلاقی اقدار، مذہبی آزادی، وسعت نظری اور عدل و انصاف کی شاندار روایات قائم کی تھیں اور تعمیر و ترقی اور خوشحالی کے انمٹ نقوش چھوڑے تھے وہاں اُن کا اقتدار ختم ہوا تو انہیں انتہائی بے چارگی، بے بسی اور بے کسی کے ساتھ غلامی کے شب و روز اس انداز سے بسر کرنا پڑے کہ اُن کے لیے اپنے قومی وجود کے تحفظ اور ملی تشخص کو برقرار رکھنا ہی مشکل نہیں ہو گیا تھا بلکہ اُن کا دین، اُن کا مذہب اور اُن کی تہذیب و ثقافت بھی ستم کا نشانہ بننے لگے تھے۔ اُن کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا تھا کہ وہ برصغیر کے جن خطوں میں اکثریت میں تھے ان خطوں کو ملا کر اپنے لیے ایک آزاد مملکت کا مطالبہ کریں۔
یہ ربِ کریم کا احسانِ عظیم تھا کہ اُس نے جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کو انتہائی زوال اور انحطاط کے دور میں علامہ ڈاکٹر سر اقبال مرحوم اور قائد اعظم محمد علی جناحؒ جیسے صاحبِ بصیرت اور صاحبِ درد رہنما عطا کیے جو قوم کی ڈگمگاتی کشتی کو کنارے پر لانے کے لیے ناخُدا بن کر سامنے آئے۔ اقبال جو کہ مفکر تھے، ایک شاعر تھے جو دیدہِ بینا کے مالک تھے اور اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے کا پیغام مسلسل دے رہے تھے اور برصغیر کے مسلمانوں کے قومی وجود کے تحفظ کے بارے میں سخت فکر مند رہتے تھے انہوں نے دسمبر 1930 میں اپنے خطبہ الہ آباد میں برصغیر کے مسلمانوں کے
جُداگانہ قومی وجود کو بنیاد بناتے ہوئے اُن کے لیے الگ ملک کا مطالبہ پیش کر دیا۔ اپنے خطبہ الہ آباد میں ارشاد فرمایا ”میں برصغیر کے شمال مغرب میں پنجاب، شمال مغربی سرحدی صوبے، سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست کی صورت میں متحد دیکھنا چاہتا ہوں۔ میرے نزدیک برٹش ایمپائر کے اندر یا اس کے باہر ایک خود مختار مسلم ریاست کی تشکیل مسلمانوں کا بالخصوص شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کا مقدر بن چکی ہے“۔
اقبالؒ نے اپنے خطبہ الہ آباد میں برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ مملکت کا تصور پیش کیا تو یہ کوئی حادثاتی واقعہ نہیں تھا۔ یقینا یہ امر ربی تھا، رب کریم کا احسان عظیم تھا، اس کے پیارے حبیبﷺ کی نظر کرم کا صدقہ تھا کہ قسام ازل کی طرف سے عالمی نقشے پر نئی سرحدی لکیروں کے وجود میں آنے کا وقت قریب آ چکا تھا۔ لیکن پھر بھی شاید مس خام کو کندن بننے میں ابھی کچھ اور وقت چاہیے تھا۔ ابھی برصغیر کے مسلمانوں کو جو ہندو اکثریت کے مقابلے میں محض ایک اقلیت نہیں بلکہ ایک الگ قوم کی حیثیت بھی رکھتے تھے، انہیں ہندو اکثریت اور انگریز حکومت کی طرف سے مزید کچھ سختیاں، جبر، اور ناروا ہتھکنڈے برداشت کرنا تھے۔ علامہ اقبال ؒکے خطبہ الہ آباد کے سامنے آنے کے بعد آل انڈیا مسلم لیگ اس کوشش میں رہی کہ کانگریس کے ساتھ کوئی ایسا سمجھوتا ہو جائے جس کے تحت متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو اُن کی تسلی اور اطمینان کے مطابق آئینی تحفظ حاصل ہو سکے لیکن کانگریس کے نزدیک ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ وہ اپنے آپ کو ہندوستان کے عوام کی اکثریت کی نمائندہ سمجھتے ہوئے بہت اُونچی ہواؤں میں اُڑ رہی تھی پھر 1936-37 کے عام انتخابات میں اُس کی کامیابی کے نتیجے میں آٹھ صوبوں میں کانگریسی وزارتیں قائم ہوئیں تو اُس کے غرور، تکبر اور ہٹ دھرمی میں مزید اضافہ ہوا اُس نے اپنی زیرِ نگرانی حکومتوں میں ایسے اقدامات کیے جو سر اسر مسلم کُش پالیسیوں پر مبنی تھے ان میں خالص ہندو سوچ اور نظریات پر مبنی ”بندے ماترم“ کے ترانے کا تعلیمی اداروں میں رائج کرنا بھی شامل تھا۔ یہ اور اسی طرح کے اور دوسرے مسلم مخالف اقدامات سے مسلمانوں پر یہ حقیقت مزید واضح ہو گئی کہ کانگریس کا نصب العین متحدہ ہندوستان میں ہندو راج کے قیام کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس طرح اب اُن کے لیے اس کے سوا اور کوئی چارہ کار باقی نہیں بچا تھا کہ وہ علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد میں پیش کیے ہوئے مسلمانوں کے لیے جداگانہ ملک کے تصور کر اپنا قومی نصب العین قرار دے کر عملی جامہ پہنائیں۔
چنانچہ 1940 کے آخری عشرے میں منٹو پارک لاہور (موجودہ علامہ اقبال پارک) میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کے انعقاد کا علان ہوا تو برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت اپنے عظیم قائد محمد علی جناحؒ کی قیادت میں اپنے قومی وجود کے تحفظ اور بقا کے لیے حضرت علامہ اقبالؒ کے خطبہ الا آباد کی روشنی میں جہاں اس نتیجے پر پہنچ چکی تھی کہ ان کے لیے ہندوستان میں ہندو اکثریت کے ساتھ مل کر رہنا ممکن نہیں وہاں وہ اپنے لیے الگ مملکت کے حصول کو اپنا قومی نصب العین قرار دے کر اس کے لیے ہر طرح کی جدوجہد کرنے اور قربانی دینے کے لیے بھی ذہنی، فکری اور جسمانی طور پر تیار ہو چکے تھے۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.