کھیل چاہے سیاست کا ہو، شطرنج کا یا پھر کسی میدان کا، ایک بات توطے ہے کہ اگر کسی بھی سطح پے کسی کھلاڑی نے جذباتی پن کا مظاہرہ کیا تو اس کا خمیازہ اس کو نقصان کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔اسی فارمولہ کے تناظر میںاگر یہ کہا جائے تو زیادہ غلط نہ ہو گا کہ اس وقت ملک میں جاری سیاسی بحران کے نتیجہ میںجوپارٹی سب سے زیادہ خسارہ میں گئی ہے وہ پاکستان تحریک انصاف ہے اور جس شخص نے سب سے زیادہ نقصان اٹھایا ہے وہ عمران خان ہے ۔ ایک کامیاب تحریک عدم اعتماد کے نتیجہ میں حکومت سے محروم ہونے کے بعد عمران خان صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ آرام سے بیٹھتے اور ٹھنڈے دماغ کے ساتھاپنی سیاسی حکمت عملی پر غور کرتے لیکن وہ تو بغیر کسی پلاننگ کے اندھادھند اپنی سیاسی چالیں چلتے چلے گئے۔اور اس جذباتی رویہ کا نتیجہ یہ ہوا کہ خان صاحب کو اپنی جس سڑیٹ پاور اور پریشر پالیٹکس پرغرور تھا اس کے غبارے سے ہوا نکلتے ہوئے زیادہ دیر نہ لگی اور انہوں نے حکومت کے خلاف جتنی بھی کالیں دیں وہ بری طرح ناکامی کا شکار ہوئیں۔
سب سے پہلے تو خان صاحب نے اپنے پارٹی ارکان سے قومی اسمبلی میں استعفے دلوا کر اپنے آپ کو پارلیمانی سیاست سے تقریباً آوٹ کر لیا۔ بات یہیں رک جاتی تو شائد ان کا نقصان کچھ کم ہوتا لیکن انہوں نے صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں اپنی پارٹی کی صوبائی حکومتیں تحلیل کر کے سیاسی طور پر اپنے ہاتھ کاٹ لیے۔ اس کے علاوہ احتجاج اور حکومت پر دباﺅ ڈالنے کا جو بھی منصوبہ ان کے دماغ میں تھا انہوں نے فوری طور پر وہ گیم اوپن کر دی اور اس تمام منصوبہ بندی کے بری طرح ناکام ہو جانے کے بعد اب ان کا عالم یہ ہے کہ جذباتی کارکنان کو اپنے گھر کے باہر جمع کر کے اندر محصور ہوئے بیٹھے ہیں۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر عمران خان صاحب مناسب پلاننگ کے ساتھ چلتے تو مختلف قسم کے احتجاج کے علاوہ ان کے پاس کافی آپشنز موجود تھیں لیکن یہ انہیں استعمال کرنے کے لیے وقت کا صحیح استعمال نہ کر سکے اور پہلے ہی حملہ میں اپنے ترکش میں موجود تمام تر تیر چلا دیے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب ان کے پاس آپپشنز نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے خلاف قائم مختلف مقدمات ایک اژدھا کی مانند منہ کھولے ان کے سامنے کھڑے ہیں۔عمران خان صاحب نے اپنی غلط حکمت عملی کی وجہ سے اپنے آپ کو سیاست کی ایک بند گلی میں داخل کر لیا ہے
اور حالت یہ ہے کہ اب ان کے پاس دو بھی نہیں بلکہ صرف ڈیڑھ آپشن موجود ہیں۔
پہلا یہ کہ یہ حکومت کو مذاکرات کے چکر میں الجھا کر، سیاسی دباﺅ میں لا کر یا پھر کسی بھی اور طریقہ سے فوری طور پر اپنے خلاف قائم مقدمات کو ختم کروا لیں اور پھر کچھ عرصہ آرام اور سکون سے بیٹھ کر اپنے برے وقت کے ختم ہونے کا انتظار کریں۔
دوسری آپشن یہ ہے کہ حکومت اور مقتدر حلقوں پر پریشر ڈال کر یا منت سماجت کر کے جیسے بھی ممکن ہو الیکشن کروا لیے جائیں۔ اس آپشن کو میں آدھا اس لیے تصور کرتا ہوں کیونکہ اس آپشن کے دو حصے ہیں ۔پہلا الیکشن کروانا اور دوسرا اس میں کامیابی حاصل کرنا کیونکہ الیکشن ہونے کی صورت میں اس بات کا سو فیصد امکان موجود نہیں ہے کہ ان میںعمران خان صاحب کی پارٹی ہی کامیابی حاصل کر لے گی۔
اگر تو ملک میں ہونے والے ان مجوزہ عام انتخابات کے نتیجہ میں پاکستان تحریک انصاف صوبہ پنجاب اور مرکز میں اپنی حکومتیں قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے پھر تو خان صاحب کے لیے آئندہ کچھ سال خیر کی ہی خبر ہے لیکن اگر کسی بھی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا تو پھر اس بات کے قومی امکانات موجود ہیں کہ خان صاحب کے لیے مشکلات نہ صرف برقرار رہیں گی بلکہ ان میں اضافہ بھی ہو سکتا ہے۔
کچھ ضمنی انتخاب جیت کر یاکچھ بڑے جلسے وغیرہ کر کے یا پھر اپنی ممکنہ گرفتاری میں مزاحمت پیش کرنے کے لیے کچھ لوگوں کو اپنی رہائشگاہ کے باہر اکٹھا کر کے اگر عمران خان صاحب یہ سوچتے ہیں کہ یہ سب ان کی ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں کامیابی کی ضمانت ہے تو انہیں اپنی سوچ کو بدلنا ہو گا۔ ہم نے ڈکٹیٹر پرویز مشرف کے دور میں چوہدری پرویز الٰہی کی مقبولیت کا تاثر بھی دیکھا۔ وہ بھی اسی طرح ضمنی انتخابات میں کامیابیاں سمیٹتے سمیٹتے ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہو گئے تھے اور پھر ملک میں ہونے والے عام انتخابات میں ہم نے انہیں اوندھے منہ گرا ہوا پایا۔ اسی طرح نوے کی دھائی میں جب قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات دو دن کے وقفہ سے ہوا کرتے تھے تو ہم نے دیکھا کہ قومی اسمبلی کے الیکشن بینظیر بھٹو صاحبہ کی کامیابی کے بعد کس طرح دو ہی دن میں سارے کا سارا سیاسی منظر نامہ ہی تبدیل ہو گیا اورصوبائی اسمبلی کے الیکشن میں میاں نواز شریف کامیاب ہو گئے۔ ہمارے ملک میں جس قسم کی سیاست رائج ہے میرے حساب سے تو ان حالات میں حکومت کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرنے کو ایک اچھی سیاسی چال قرار دیا جا سکتا ہے۔
ان مذاکرات کا نتیجہ کچھ بھی نکلے لیکن ان کے نتیجہ میں حکومت کو جو وقت حاصل ہو گا وہ سب سے زیادہ اہم ہے۔ اب تک مذاکرات کے دو سیشن ہو چکے ہیں اور تیسری ملاقات منگل کے روز متوقع ہے۔ اس دوران آئین کے جس آہنی ہتھوڑے کے حکمرانوں کے سر پر برس جانے کے خدشات تھے وہ ٹل گئے ہیں۔ ان پانچ سات دنوں میں حکومت نے اپنے آپ کو زیادہ محفوظ بنانے کے لیے یقینا بہت کچھ کر لیا ہو گا اور بہت کچھ مزید بھی کر لے گی۔ رہی بات پاکستان تحریک انصاف اور عمران خان کی تو محسوس تو ایسا ہوتا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں ان کی حکمت عملیاں جس تواتر سے ناکام ہوئی ہیں یہ مذاکرات بھی ان میں ایک اضافہ ہی ثابت ہوں گے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.