سپریم کورٹ کی آخری حد تک کوشش ہے کہ کوئی ادارہ بھی آئین و قانون سے باہر نہ نکلے، مگر صاحب اقتدار کی بھی آخری کوشش یہی ہے کہ وہ عدلیہ کو مایوس کرے! یہ الفاظ میرے ایک نسبتاً کم پڑھے لکھے سٹاف ممبر کے تھے۔ میں نے لیپ ٹاپ ایک طرف کیا اور اْس کی طرف حیرت سے دیکھا اور مزاحاً کہا کہ تمہیں کیا علم سیاست میں کیا ہورہا ہے؟ اْس نے کہا کہ جس طرح آنکھوں دیکھا زہر کوئی نہیں کھا سکتا اسی طرح کیا حکومت یا مقتدرہ قوتیں پاگل ہیں جو الیکشن کرا دیں اور اپنی جگ ہنسائی کا باعث بنیں! اْس نے اپنی گفتگو میں چند باتیں مزید شامل کیں اور کہا کہ ”مس جی، آپ کو باہر کہیں گہما گہمی نظر آرہی ہے؟ الیکشن کی؟ میں نے جھٹ سے جواب دیا کہ بیٹا رمضان ہے! اْس نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے کہا کہ 2008ء کا الیکشن بھی رمضان ہی کے آگے پیچھے تھا، تب لوگ افطاری کے بعد نکلتے اور کارنرز میٹنگ کیا کرتے تھے۔ مجھے اْس کے نالج سے اندازہ ہوگیا کہ اب وہ پہلے والا دور نہیں رہا۔ جب آپ عوام کو بے وقوف بنا لیتے تھے، اب عوام کو ہینڈل کرنا پہلے سے زیادہ مشکل ہو چکا ہے۔ لوگ چیزوں کو سمجھ رہے ہیں، یہ اچھی بات ہے! شاید یہ ملک کے لیے تو بہت اچھی بات ہے مگر ان ساری باتوں میں سے مجھے ایک بات بھلی لگی کہ اب عام آدمی بھی چاہ رہا ہے کہ الیکشن ہو ہی جائیں! کیوں کہ ایک تو اْس کی مہنگائی سے چیخیں نکل رہی ہیں دوسرا وہ اس ملک میں بہتر قیادت چاہتا ہے۔
لہٰذاصورتحال یہ ہے کہ اس وقت حکومت سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کی طرف سے پنجاب میں دی گئی انتخابات کی تاریخ 14مئی کو ٹالنے کی کوشش کر رہی ہے، کہ حالات کسی طرح سے ساز گار نہیں ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اکتوبر میں یعنی حکومت کی جانب سے دی گئی مجوزہ تاریخ 8اکتوبر تک یہ تمام حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ رہی بات آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی تو یہ معاہدہ ابھی تک سٹاف لیول پر ہی منظور نہیں کرایا جا سکا تو سربراہی سطح پر کیسے Approve ہو گا؟ اور اس سلسلے میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے 10اپریل کو دورہ امریکا بھی کرنا تھا، جسے آخری اطلاعات آنے تک منسوخ
کردیا گیا ہے۔ یہ دورہ شاید اسی لیے منسوخ کیا گیا ہے کہ حکومت کو اب بھی یقین ہے کہ اْس نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری نہیں کیں۔ اور یہ شرائط ہیں کیا؟ بادی النظر میں یہ شرائط بہت سادہ سی ہیں، جو شاید ہر ملک کی ضرورت ہے، لیکن ہم ہر چیز کے بکھیڑے کرنے میں ماہر ہیں اس لیے ہم سے یہ قطعاََ پوری نہیں ہو رہیں۔ اس پر اگلے کسی کالم میں ریسرچ سے بھرپور کالم پیش کروں گی۔ مگر فی الوقت ہم 14مئی اور 8اکتوبر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اور حالات گمبھیر سے گمبھیر ہوتے جا رہے ہیں۔ اور دعا کر رہے ہیں کہ شاید خدانخواستہ دنیا میں کوئی بڑا حادثہ ہو اور امریکا کو پاکستان کی ضرورت پڑے اور ہمیں ڈالر مل جائیں۔
یا شاید ہم دعا کر رہے ہیں کہ اللہ کرے کوئی معجزہ ہو جائے اور تمام نوجوان تحریک انصاف چھوڑ کر ن لیگ یا پیپلزپارٹی میں آجائیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی اور جے یو آئی کے پاس ایسی کون سی چیز ہے جو ان نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کرے۔ کوئی نعرہ؟ کوئی رومان؟ کوئی سچ؟ کوئی جھوٹ؟ کوئی وعدہ؟ کوئی ایک چیز ایسی ہے تو بتا دیجیے؟ نوجوان ووٹر کی دنیا مختلف ہے۔ یہ اس زمانے کا ووٹر نہیں ہے جب دو اخبار اور ایک پی ٹی وی ہوا کرتا تھا اور معلومات کے ذرائع ادھورے تھے۔ یہ ڈیجیٹل دور کا ووٹر ہے۔اس کے لیپ ٹاپ اور موبائل فون میں معلومات کے ساتھ ساتھ حریت فکر کا نیا احساس بھی ہے۔خبر ایک لمحے میں اس تک پہنچ رہی ہے اور وہ خود اب تجزیہ کار ہے۔ اسے ابلاغ کے مواقع میسر ہیں۔اس بدلتے دور کے اپنے سماجی اور نفسیاتی تقاضے ہیں۔یہ ووٹر کاٹن کے کڑکتے رعونت آمیز پیرہن اور مونچھوں سے لپٹی جاگیردارانہ رعونت سے بے زار ہے۔روایتی سیاست کے طور طریقے اسے مائل نہیں کر سکتے۔ یوں سمجھیں کہ سیاست کے پرانے فیشن بدل چکے۔اب بچے غیر سیاسی نہیں رہے۔ بیٹیاں، بیویاں اور مائیں تک سیاسی ہوچکی ہیں۔
سیاست اب ڈیروں، بیٹھکوں، جلسوں اور ڈرائنگ روموں تک محدود نہیں رہی یہ اب ڈائننگ ٹیبل تک آ گئی ہے۔ اس بدلتے سیاسی میں رجال رفتہ کہاں کھڑے ہیں؟ کیا مسلم لیگ کے نواز شریف، شہباز شریف، حمزہ شہباز یا مریم نواز کے پاس ایسا کوئی پروگرام ہے،جس میں یہ نوجوان کشش محسوس کریں؟ کیا یہ نوجوان جناب آصف زرداری کی طرف مائل ہوں گے؟ کیا بلاول کے پاس کوئی ایک ایسا نعرہ ہے جس میں کسی پڑھے لکھے جوان کی کئی دلچسپی ہو؟ کیا یہ نیا ووٹر مولانا فضل الرحمن کی سیاسی بصیرت سے متاثر ہو کر پی ڈی ایم میں آئے گا یا مولانا اسعد محمد کے جوہر خطابت کا قائل ہو جائے گا؟ شعور کا یہ عالم ہے کہ لاہور کی ایم پی اے ٹویٹ کرتی ہیں نوجوانو! تم میں سے کون فلاں سیاستدان سے ملاقات کرنا چاہتا ہے۔ نام رجسٹر کرائیں اور قائد سے ملیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیے آ ج کے جدید تعلیمی اداروں کے نوجوان اس طرز خوشامد سے متاثر ہوسکتے ہیں؟یا پھر یہ نوجوان وزیر تعلیم رانا تنویر کے علمی و فکری انداز گفتگو سے متاثر ہو جائیں گے کہ معلوم انسانی تاریخ میں ایسا کوئی وزیر تعلیم نہیں ہے جو تعلیمی اداروں کے کانووکیشن سے لے کر پارلیمان تک گالی دینے کے فن میں ایک جیسی مہارت رکھتا ہو۔ علم و فضل تحریک انصاف کے پاس بھی نہیں۔ مگر اسے معلوم ہے نوجوان ووٹر کو جوڑے رکھنے کا آسان ترین طریقہ ہیجان اور جذباتیت ہے اور اس فن کو اس نے کمال تک پہنچادیا ہے۔
خیر چھوڑیں ان باتوں کو الیکشن کی طرف آئیں تو رہی بات اکتوبر میں مہنگائی کے ختم ہونے کی تو سٹیٹ بینک نے شرح سود بڑھا کر 21فیصد کر دی ہے۔ جبکہ یہ نارمل ممالک میں 4فیصد سے زیادہ نہیں ہوتی۔ پاکستان میں بھی جنوری 2018 میں یہ شرح صرف چھ فی صد تھی لیکن دس ماہ بعد مئی میں 12.25 فی صد ہوچکی تھی جبکہ موجودہ دور حکومت کے ایک سال میں 13.25 سے بڑھ کر 21 فی صد تک جاپہنچی ہے۔ جبکہ مجموعی معاشی سرگرمی بری طرح متاثر ہوئی ہے، یوں قومی پیداوار میں کمی اور بے روزگاری میں اضافے کا سلسلہ بڑھتا چلا جارہا ہے۔تاہم شرح سود میں مسلسل اضافے کے باوجود بظاہر اس کے مثبت نتائج عنقا ہیں‘ زری کمیٹی کے مطابق مارچ 2023 میں مہنگائی مزید بڑھ کر 35.4فیصد ہوگئی ہے،توازنِ ادائیگی بدستور دباؤ میں ہے، زرِمبادلہ کے ذخائر اب بھی پست سطح پر ہیں۔ ایسے میں مجھے کوئی بتا دے کہ اکتوبر تک حالات بہتر ہو سکتے ہیں؟ لہٰذاحکومت ہوش کے ناخن لے اور حیلے بہانوں کو درمیان میں رکھنے کے بجائے انتخابات کرا دے اور اقتدار سے جان چھڑائے اور الیکشن کرادے،،، اللہ اللہ خیر صلہ!
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.