موجودہ سیاسی منظرنامے کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اشرافیہ کسی طور بھی اختیارات نچلی سطح تک منتقل نہیں کرنا چاہتی اس کا ایک دھڑا جو انتہائی طاقتور ہے یہ اختیارات دوسرے دھڑے کو بھی نہیں دینا چاہتا یوں ملک کے اندر ایک خوفناک اضطراب دیکھا جا سکتا ہے جس سے معاشی و سماجی بحران نے خطرناک شکل اختیار کر لی ہے کہ لوگوں کی زندگیاں خطرات میں گھر چکی ہیں انہیں جو سانسیں آ رہی ہیں وہ ان کے جسم و جاں کو چیر رہی ہیں ان کی آنکھوں کے سامنے گھپ اندھیرا چھا چکا ہے وہ پچھتر برس کے بعد بھی اپنی امنگوں اور سپنوں کو پورا ہوتا نہیں دیکھ رہے انہیں انصاف کے ایوانوں سے بھی مایوسی ہو رہی ہے اور اگر کبھی ان سے کوئی امید بھی پیدا ہوتی ہے تو اس کی راہ میں کوئی نہ کوئی رکاوٹ آن کھڑی ہوتی ہے مگر شاید یہ سب عارضی ہے کہ اب سوچ کا سورج طلوع ہو چکا ہے عوامی شعور ارتقائی عمل سے گزر کر پختہ ہو گیا ہے جو تقاضا کر رہا ہے کہ اقتدا ر کے ایوانوں میں فقط اشرافیہ ہی موجود نہیں ہو گی محکوم عوام بھی ان میں داخل ہوں گے۔ بس یہ بات اشرافیہ کے لیے قابل قبول نہیں وہ حکمرانی کی حقدار خود کو ہی سمجھتی ہے اس کا خیال ہے کہ وہ بہتر دماغ رکھتی ہے حکومتی معاملات کو چلانا کسی دوسرے کے بس میں نہیں جبکہ ایسا نہیں ہے ترقی کرتے سماج میں بہت کچھ بدل چکا ہے۔ لوگ سماجیات، معاشیات اور سیاسیات کو خوب سمجھ رہے ہیں وہ آئی ایم ایف سے لے کر مغربی حکمت عملیوں تک جان چکے ہیں انہیں نفع و نقصان کا پوری طرح ادراک ہے سہولتیں کیسے حاصل کی جا سکتی ہیں کن ممالک سے وہ تعلق قائم کریں گے تو ان کے جیون میں سکون و راحت آئیں گے کہاں سے ان کے لیے خیر خواہی کی آوازیں بلند ہوتی ہیں یا ہو سکتی ہیں اس کا بھی انہیں اچھی طرح سے علم ہے لہٰذا اشرافیہ کو اپنا انداز فکر و عمل تبدیل کرنا ہو گا۔ وقت کبھی نہیں تھمتا اگرچہ اس کی خواہش کی جاتی ہے مگر ایسا نہیں ہوتا لہٰذا اب یہ نہیں ہو سکتا کہ نظام حیات ماضی کی طرح ہی موجود رہے اسے تبدیل ہونا ہے مسائل ایک جیسے نہیں رہے حکمران وہ نہیں رہے جو آج سے چالیس پچاس برس پہلے ہوتے تھے کہ وہ اس طرح کی سیاست کاری نہیں کرتے تھے دھونس دھاندلی بھی ایسی نہیں تھی۔
ہمارے کہنے کا مطلب وہ سب احتیاط کے ساتھ ہوتا تھا عوام سے چھپ چھپا کر ہوتا تھا تھوڑا بہت رکھ رکھاؤ تھا مگر اب تو صورتحال قطعی مختلف ہے ڈنکے کی چوٹ پر سینہ زوری کی جاتی ہے عوام کو صاف طور سے آنکھیں دکھائی جانے لگی ہیں۔
بہرحال عیش و عشرت کی زندگی بسر کرنے والے کب یہ چاہیں گے کہ انہیں محلوں سے جھونپڑیوں میں رہنا پڑے کھربوں کی ملکیت ان کے ہاتھ سے نکل جائے لہٰذا وہ پورا زور لگا رہے ہیں کہ حالات اسی طرح ہی رہیں وہی حکمران رہیں جو کہ اب ممکن نہیں کیونکہ ایسا کچھ عرصہ تک ممکن بھی تھا اگر لوگوں کو انصاف مل گیا ہوتا۔ غربت کم ہو گئی ہوتی تھانے ان پر ظلم نہ کر رہے ہوتے پٹواری اور سرکاری ادارے رشوت کے لیے مجبور نہ کرتے۔ غنڈے، بدمعاش، سینہ زور انہیں خوف کے سائے میں نہ رہنے دیتے مگر اشرافیہ نے سوچا کہ یہ چمن یونہی رہے گا اور وہ اس کے باغبان ہوں گے مگر نہیں اس نے حالات کا درست تجزیہ نہیں کیا عوام کے مسائل کو حل کرنے کی کبھی بھی تدبیر نہیں کی گئی لہٰذا آج وہ اس سے نفرت کر رہے ہیں مگر اشرافیہ اسے کوئی اہمیت نہیں دے رہی اور وہی کچھ کرنا چاہتی ہے جو اس کی مرضی ہے۔
ہم اپنے کالموں میں گاہے گاہے عرض کرتے آئے ہیں کہ فریقین بات چیت کی میز پر آئیں اس کے بغیر دوسرا کوئی راستہ نہیں اگر عمران خان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عوامی دباؤ کے ذریعے حکومت میں آجائیں گے تو یہ ان کی خام خیالی ہے ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا انہوں نے اپنے کارکنوں کو کسی بڑی تبدیلی یا عنان حکومت سنبھالنے کے لیے ذہنی طور سے پوری طرح تیار کر لیا ہے اور وہ لاکھوں کی تعداد میں ہیں۔ ہمیں نہیں لگتا کہ وہ ایسا کر پائے ہوں گے کیونکہ ان کے ساتھ جو سیاسی رہنما ہیں وہ سٹیٹس کو کے حامی و محافظ ہیں وہ کسی انقلاب کو درست نہیں سمجھتے انہوں نے تو غیر محسوس طور سے اس کی راہ میں کانٹے بچھانے ہیں لہٰذا وہ (عمران خان) مذاکرات کے لیے خود کو پیش کر دیں۔ ادھر حکومت بھی جو سینہ زوری سے ملکی حالات ٹھیک کرنا چاہتی ہے اپنے رویے میں تبدیلی لاتے ہوئے آگے بڑھے اور یہ یقین دلائے کہ وہ انتخابات صاف شفاف کروائے گی نگران حکومت سب کو قابل قبول ہو گی۔
یہاں ہم عمران خان سے گزارش کریں گے کہ وہ جب کہتے ہیں کہ انہوں نے سب کو معاف کر دیا ہے تو وہ باقاعدہ یہی بات کسی فورم پر کہیں۔ احتساب کے عمل کو ادارے کریں اس میں حکومت کی معمولی بھی مداخلت نہیں ہونی چاہیے اس طرح کی جو شرائط ان کے سامنے رکھی جا رہی ہیں وہ تو خود اس کے حق میں ہیں تو پھر کیوں اس کے لیے پیش رفت نہیں ہو رہی شاید ان کے مشیر انہیں کوئی اور راستہ دکھا رہے ہوں گے جو اقتدار کی طرف لے جاتا ہو مگر ہمارا قیاس ہے کہ اگر فی الحال کوئی لچک نہیں دکھائی جاتی تو وہ اقتدار میں نہیں آسکیں گے اور ان کے کارکنوں کی جدوجہد بے سود ثابت ہو گی کیونکہ وہ کارکنان زیادہ دیر تک حالت موجود میں نہیں رہ سکتے وہ اپنے مصائب کو جلد از جلد ختم ہوتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ رہے عام لوگ انہیں کسی احتجاج میں شامل نہیں ہونا کہ وہ آٹے کے لیے کئی کئی گھنٹے قطار میں کھڑے ہو سکتے ہیں شاہراہ احتجاج پر کھڑا نہیں ہو سکتے لہٰذا پی ٹی آئی اور اس کے سربراہ سیاست کاری کا عمدہ مظاہرہ کرتے ہوئے تھوڑی سی چہرے پر مسکراہٹ بکھیریں حکومت اور اس کے رفقا زور بازو کی سیاست کو ختم کر کے امن خوشحالی کے لیے ہر نوع کے خوف کو ذہن سے جھٹک دیں کیونکہ کپتان نے افہام و تفہیم کا اشارہ دے دیا ہے انہوں نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ وہ ماضی کو بھلا نے کے لیے تیار ہیں لہٰذا حکومت بھی غور کرے یہ جو کشیدہ فضا و ماحول ہے اسے کم کرنے کی طرف آئے۔ مزید برآں یہ کہ وہ اس حقیقت کو تسلیم کرے کہ اب اشرافیہ ہی نہیں محکوم عوام بھی ایوانوں میں جائیں گے۔ حرف آخر یہ کہ اہل دانش کا فرض ہے کہ وہ اپنا کردار ادا کرتے ہوئے فریقین کو ایک میز پر لائیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.