انیسویں عیسوی صدی کا مشہور جرمن فلاسفر ہیگل (Georg Wilhelm Friedrich Hegel)معاشرتی ارکان کے ایک دوسرے کے ساتھ تقابل اور کشمکش کو انسانی تعمیر وترقی،شعور اور مسلسل ارتقا کی ”خشت اول“قراردیتاہے۔۔۔ انسانی سطح پر تقابل،باہمی کشمکش،آگے بڑھنے کی لگن، جدت پسندی اور زندگی گزارنے کے لیے نت نئے راستوں کی دریافت ہوتی رہتی ہے۔آج کی ترقی کی پر شکوہ عمارت آنے والے کل کی ترقی کی بنیاد ثابت ہوتی ہے۔ افکار، خیالات اور نظریات عمل کے پیکر میں ڈھل کر اپنے اپنے انفرادی و گروہی دائرہ کا ر میں آگے بڑھتے رہتے ہیں اور یوں زندگی کی رنگا رنگی اور بوقلمونی، موسم بہار میں کھلتے پھولوں کی طرح، اپنا رنگ دکھاتی رہتی ہے۔۔۔!
یہ بات انسان کی جبلّت اور سرشت میں شامل ہے کہ یہ ہر حال اور ہر رنگ میں اپنے بقا کے راستے تلاش کر لیتا ہے۔جنگلوں،غاروں اور پتھروں کے دور سے شروع ہونے والا ارتقا کا سفر اس کی دلیل ہے جو کہ آج کے ماڈرن دور میں، جس کا تصور بھی گزشتہ صدی میں محال تھا، ایک حقیقت کی صورت مزید کئی حقیقتوں کا نقیب بن کرپوری آب و تاب اور توانائی سے سب کے سامنے ہے۔انسانی ارتقا کے اس سفر کو ہر دور میں اپنے اپنے انداز میں مصائب اور چیلنجز کا سامنا رہا ہے، جس سے نپٹ کر انسان بالآخر سرخرو ٹھہرا ہے۔۔۔ بات بیماریوں کی ہو یا قدرتی آفات کی۔۔سلسلہ جنگ و جدل کا ہو یاحالت امن کے معاشرتی استحصال کا۔۔۔دریافت پنسلین کی ہو یا حفاظتی ویکسین کی۔۔۔انسان ہر حال میں فاتح قرار پایا ہے۔۔۔!
ابھی کل کی ہے بات ہے جس کے سلسلے کسی نہ کسی طور ابھی تک آج سے بھی جڑے ہوئے ہیں جس میں نسل انسانی کو ایک اور کٹھن دور کا سامناتھا۔۔۔۔ ماضی قریب کے ہر طرف پھیلے کرونا ئی سلسلوں اور ان کے زیر اثر احتیاطی تدابیر اور پابندیوں نے زندگی گزارنے کے عمل کو بے یقینی کے ایک انہونے طوفان سے آشنا کر کے ہر ایک کو آج اور کل کے حوالے سے ایک عجب سے معاشی و معاشرتی کر ب اور دکھ سے دوچار کر دیا تھا کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔۔۔! ایسے میں زندگی گزارنے اور اپنی بقا کی خاطر انسان کس حد تک گیا۔۔۔سڑکیں سنسان، تعلیمی ادارے بند، تفریحی پروگرام ختم، کھیل کے میدان ویران، ٹرانسپورٹ ناپید،جہاز رن وے نشین، کارو باری سرگرمیاں محدود، چہروں پر ماسک، رویوں میں بے گانگی اور ”اپنی جان بچاؤ مہم“ کے سلسلوں میں کیا کچھ شامل نہ تھا۔۔۔مگر آج پھر سے زندگی پوری طرح سے رواں دواں ہے۔۔۔!
یہ انسان ہی ہے جو ہر قسم کے حالات اور ماحول میں اپنی زندگی کی گزر گاہ تلاش کرلیتاہے۔۔۔دنیا کی کوئی مشکل مستقل بنیادوں پر اس کی سنگ راہ نہیں ہو سکتی۔۔۔ اور بات جب ہمارے خطے کی ہو تو منظر اور بھی دیدنی ہو جاتا ہے۔۔۔ ہمارے ملک میں پائے جانے والے ماحولیاتی تنوع اور ہماری ذات میں پائی جانیوالی ”فنکارانہ صفت“ کی وجہ سے یہ جدوجہد اور زیادہ نمایاں ہو جاتی ہے۔۔۔۔!
گزشتہ دو تین سال میں جب حکومت وقت نے کاروبار کے اوقات کار مقرر رکھے تھے،کہیں جزوی لاک ڈاؤن کا سماں تھا تو کہیں ایس او پیز کی خلاف ورزی پر دکانوں اور کاروباری مراکز کو سیل اور کئی ایک پرجرمانے عائد کر کے انہیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔۔۔لیکن یہ احتیاط بس جبر کی حد تک ہی تھی اور تا حال ہے، اس سے آگے جہاں ہمارا بس چلتا ہے وہاں پر راوی چین ہی چین لکھتاہے۔۔۔! ” No Mask No Service” کے آویزاں سٹکرز اور”کرونائی ماحول“ کے اس منظر نامے میں ”شٹر ڈاؤن بزنس“پوری طرح سے روبہ عمل رہا۔ دکانات کے باہردکاندار یا ان کے متعلقین انتظامیہ سے بچ کرگاہکوں کی تاک میں، ایک ایسے انداز میں کھڑے ہوتے کہ منظر دیدنی ہوتا۔۔۔ایک طرف ان کی نگاہ گاہک کی تلاش میں ہوتی تو دوسری طرف ان کی نظر انتظامی کارندوں کی آمد و رفت پر۔۔۔اب دکان کے باہر وقت بھی گزارنا ہے،گاہک کو دکان کے کھلے ہونے کا تاثر بھی دینا ہے اور سرکار کو دکان مکمل بند ہونے کا یقین بھی دلانا ہے۔۔۔ اس دیکھا دیکھی، تاکا جھانکی اور آنکھ مچولی میں گاہک آتے ہیں،تھوڑا سا شٹر اٹھایا جاتاہے، گاہک جلدی جلدی دکان کے اندر اور شٹر بند۔۔۔! اسی طرح سے خریدو فروخت کا یہ عمل اس وقت اور زیادہ نازک صورتحال کا شکار ہوجاتا، جب گاہک صنف نازک ہوتا۔۔۔!
سویوں تو کشمکش بقائے حیات ہے مگر جب یہ کشمکش افراد اورحکومتوں کے درمیان ہوتی ہے۔دونوں ایک دوسرے سے متضاد راستوں پر رواں دواں ہوتے ہیں، ریاست اپنی پالیسی ترتیب دینے میں حالات و واقعات کا خیال نہیں رکھتی اور لوگوں کے جذبات کی ترجمان نہیں ہوتی اور لوگ بھی خود غرضی کے لبادے اوڑھ کر اپنی ذات کا کاروبار کرتے ہیں تو پھر ایسے ہی شٹر ڈاؤن کاروبار ہوتے ہیں اور شٹر ڈاؤن زندگی گزرتی ہے۔۔۔چاہے حکومتی ایوانوں میں، پرائیویٹ سیکٹر میں، سرکاری دفاتر میں، تعلیمی اداروں میں، ہسپتالوں میں، بازاروں میں،چوراہوں میں،کاروباری مراکز میں، تنگ و تاریک گلیوں میں یا بدنام محلوں میں۔۔۔!
بدقسمتی سے عوام کے نام پر اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے بننے والی حکومتیں ایک مدت سے کسی اور پیج پر اور عوام کسی اور صفحہ پر موجود ہیں۔۔یہ بات تو سرے سے ہی ایک خواب بن کر رہ گئی ہے کہ حکومت عوام کی ترجمان ہوتی ہے۔۔کہاں کی سرپرستی، کہاں کی ترجمانی۔۔۔ایک عجب سا عالم حشر ہے کہ ہر طرف اپنی اپنی پڑی ہے۔۔۔اپنی اپنی ترجیحات، مقاصد اور اہداف ہیں جن کی تکمیل کو سچ اور جھوٹ کی آمیزش سے جو کچھ کیا جا رہا ہے یا کہا جارہا ہے، وہ اضطراب و انتشار کو مزید بڑھاوا دے رہا ہے۔۔۔! عوام ایک مدت سے ایک ایسے حکمران کے انتظار میں ہیں جو منافقانہ طرز عمل کے بجائے، حقیقی معنوں میں ان کا ترجمان اور فلاح و بہبود کا سچا طالب ہو۔۔۔۔! اور اگر خوبی قسمت سے ایسا ہو جائے تو پھر”شٹر ڈاؤن کاروبار“ اور”شٹر ڈاؤن زندگی“کے بجائے ”کھلے بندوں“کاروبار حیات کا سلسلہ آگے بڑھے اورجلد ہی اقوام عالم میں ہم اپنی مثال آپ ہوں۔۔۔!
Prev Post
تبصرے بند ہیں.