یہ خدشات میرے ذہن میں موجود تھے کہ اگر عمران خان کو اقتدار نہ ملا تو وہ پاکستان کو نہیں چلنے دیں گے۔ ان کے حامیوں کے نزدیک پاکستان عمران خان کے اقتدار سے مشروط ہے۔ میں وہ جذباتی باتیں نہیں کرتا کہ ہمارے ملک کو قیامت تک کوئی دنیا کے نقشے سے نہیں مٹا سکتا یا یہ کہ پاکستان کو تباہ کرنے والے خود تباہ ہوجائیں گے کیونکہ مجھے ان باتوں سے کسی کو بے وقوف نہیں بنانا۔ میں اتنا ہی محب وطن ہوں جتنا کوئی بھی دوسرا ہو سکتا ہے۔ میرے پاس پاکستان کے علاوہ کسی دوسرے ملک کی شہریت نہیں ہے۔ میں نے پاکستان کے آئین کے علاوہ کسی دوسرے بادشاہ یا ملکہ کی اطاعت کا حلف بھی نہیں اٹھا رکھا۔ میں پور ے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر کوئی پاکستان سے لڑے گا تو میری لڑائی پاکستان کی طرف سے ہی ہو گی مگر یہ بات وہ نہیں کہہ سکتے جن کی اولادیں، کاروبار یا مستقبل کسی دوسرے ملک میں ہے۔
میں جانتا ہوں کہ ہماری جمہوریت سے عدم وابستگی، ہمارے مقتدر حلقوں کی اقتدار پسندی اور ہمارے سیاستدانوں کی بے اصولیاں پاکستان کو پہلے ہی دو لخت کر چکی ہیں۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں علیحدگی پسندوں کو نظریاتی ہی نہیں مالی طور پر بھی فیڈ کیا جاتا ہے۔ میرے علم میں ہے کہ پاکستان کو اس وقت نظریاتی سے زیادہ اقتصادی مسائل کا سامنا ہے اور اگر خدانخواستہ بدامنی بڑھتی ہے تو پاکستان کی معاشی بقا سب سے زیادہ خطرے میں آجائے گی۔ پیپلزپارٹی اور نواز لیگ، احتجاجی سیاست کے پتھر کو چوم کے واپس آ چکی ہیں۔ وہ جان چکی ہیں کہ اگر انہوں نے ان جغرافیائی حدود میں سیاست کرنی ہے تو انہیں اپنا بلڈ پریشر کنٹرول میں رکھنا ہو گا۔ انہیں دل سے کہیں زیادہ دماغ سے فیصلے کرنے ہوں گے مگر کیا یہ بات عمران خان کو سمجھائی جا سکتی ہے جو اس وقت ہوا کے گھوڑے پر سوار ہیں۔ یہ گھوڑا ان کو مسلسل آگ کی طرف لے جا رہا ہے،وہ اس آگ کو روشنی اور منزل سمجھ رہے ہیں۔
میں تحریک انصاف کے لیڈروں کو بے وقوف نہیں سمجھتا۔ وہ اچھے خاصے سمجھدار اورتجربہ کار لوگ ہیں۔ وہ اپنا نفع نقصان بہت خوب سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ اس وقت بھی اپنا فلاپ لانگ مارچ کر رہے ہوتے۔ وہ لانگ مارچ جس میں لبرٹی لاہور سمیت کسی جگہ بھی شرکا کی تعداد پانچ، سات ہزار سے زیادہ نہیں ہوسکی۔ انہوں نے وزیرآباد میں ہونے والے افسوسناک حملے سے دوفائدے اٹھائے، پہلا فائدہ یہ کہ انہوں نے اس رینج میں عمران خان کے لانگ مارچ کو روک لیا جو شیخوپورہ، حافظ آباد، گوجرانوالہ، گجرات، منڈی بہاوالدین سے کھاریاں کی ہے۔ یہ خطہ لاقانونیت کا گڑھ ہے۔ یہاں لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ دشمنیاں پالنا اور اسلحہ رکھنا ہے۔ یہاں کے لوگوں کے پاس کھلی ڈلی زمینداری سے بیرون ملک اور بھائی ہونے کی وجہ سے پیسوں کی بھرمار ہے سو یہاں خطرات بہت زیادہ ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں نے اپنے لیڈر کو محفوظ بنایا ہے اور میں اسے کوئی غلط فیصلہ نہیں سمجھتا۔ دوسرے یہ غلط فیصلہ اس لئے بھی نہیں کہ اگر آپ کو بہترین رسپانس مل رہا ہوتا تو آپ اپنا سفر جاری رکھتے۔ ایسے شرمناک مارچ کا کیا فائدہ جسے میں نے گوجرانوالہ سے گکھڑ جاتے ہوئے اپنے سینئرجرنلسٹ دوست کاشف سلیمان کی مدد سے دکھایا اور پورا مارچ راہوالی میں صرف پانچ منٹ میں گزر گیا۔
بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ عمران خان اسلام آباد کو لاک کر سکتے ہیں مگر میں ان کے اس خیال کی بھی حمایت نہیں کرتا۔ رضوان رضی مجھے بتا رہے تھے کہ وہ سڑک جو مونال سے ہوتی ہوئی ہری پور کی طرف لے جاتی ہے وہاں سڑک پر ایک گیٹ ہے اور وہاں بنی گالہ ٹو بنایا گیا ہے۔ پلان یہ تھا کہ خیبرپختونخوا سے لائے گئے افغانیوں کو اسلحے سمیت وہاں رکھا جائے گا اور وہ وفاقی دارالحکومت کو بلاک کر لیں گے مگر وہ بھی اداروں کی نظر میں آ گیا۔ عمران خان اب پچیس مئی والے واقعات کا ایکشن ری پلے بھی نہیں کرسکتے کیونکہ انہوں نے ایک مرتبہ بابر اعوان کے ذریعے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو دھوکا دے دیا اور اب وہ بار بار نہیں دے سکتے۔ اب تو بابر اعوان نے خود اپنی صفائی دینے کے لئے احسن بھون کو وکیل کر لیا ہے۔ دوسری طرف ان کے پلان ’لیک‘ ہوتے چلے جار ہے ہیں۔ اب آپ امین گنڈا پور کی آڈیو کو ہی سن لیجئے۔ اسلام آباد اور راولپنڈی کی سرحد پر بڑی تعداد میں اسلحہ اوربندے رکھنے کا پلان بنایا جارہا ہے یعنی اگر آپ نقشے پر دیکھیں تو اسلام آباد پر دو طرف سے حملے کا پروگرام تھا۔ اس لانگ مارچ کی پلاننگ کسی قبائلی جنگ کی طرح کی جارہی تھی مگر وہ منصوبہ بندی بھی بے نقاب ہو گئی اور حساس اداروں نے ان علاقوں کی سکریننگ کر نی شروع کر دی تھی۔
ایک یہ بھی خیال تھا کہ چوہدری پرویز الٰہی، مونس الٰہی کی وجہ سے عمران خان کا ساتھ دیں گے اور اسلام آباد پرخیبرپختونخوا کے ساتھ ساتھ پنجاب سے بھی سرکاری طور پر حملہ ہو گا مگر دلچسپ رہا کہ چوہدری پرویز الٰہی ایک دو بیانات داغنے کے علاوہ اس لانگ مارچ سے پوری طرح لاتعلق رہے۔ ان کے لئے مسئلہ صرف گجرات میں بننا تھا کہ وہ قاف لیگ کو اس کا حصہ بننے کی ہدایت کرتے یا نہ کرتے مگر گجرات کے زمینی حقائق یہ ہیں کہ قاف لیگ والے پی ٹی آئی سے اور پی ٹی آئی والے قاف لیگ سے بری طرح نالاں ہیں اور ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔ تادم تحریر چوہدری پرویز الٰہی اس ایف آئی آر پر بھی ڈٹے ہوئے ہیں جو عمران خان صاحب صرف اپنے تصورات پر کروانا چاہتے ہیں اورسیاسی مخالفین کے ساتھ ساتھ قومی اداروں کے افسران کو پھنسانا چاہتے ہیں۔ سو، اب لانگ مارچ ملتوی ہو گیا ہے اور عمران خان صاحب کی بہت ساری غلط اور خوش فہمیاں بھی ہوا ہوچکی ہوں گی۔ مجھے لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کے لئے مشکلات میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ ایف آئی اے اب تک کے کئی گھپلوں پر ان کے خلاف مقدمات درج کر لئے ہیں۔ ان کی نااہلی کے لئے کارروائی بھی شرو ع ہوچکی ہے،وہ زیادہ دیر مزاحمت نہیں کرسکیں گے۔
عمران خان کے ’ڈاون‘ ہونے کے ساتھ ہی سیاسی درجہ حرارت بھی کم ہونا شروع ہوجائے گا۔ اب تک بہت سارے لوگوں کویقین ہوچکا ہے کہ انتخابات وقت سے پہلے نہیں ہوں گے۔ اس سیاسی استحکام کا فائدہ حکومت کی ان پالیسیوں کو پہنچے گا جن کے ذریعے اقتصادی بحالی کو ممکن بنایا جا رہا ہے۔ اس وقت شہبا ز شریف کی صورت میں بہترین انتظامی صلاحیتوں کامالک وزیراعظم اور بلاول بھٹو زرداری کی صورت ایک بہترین وزیر خارجہ موجود ہے۔ میں دی ڈپلومیٹ سمیت دیگر بین الاقوامی خبررساں اداروں کی رپورٹس دیکھ رہا تھاجن میں کہا جارہا ہے کہ شہباز شریف کے دورہ چین سے ایک مرتبہ پھر سی پیک دوبارہ ٹریک پر آ گیا ہے۔ اب انتظار اس امر کا ہے کہ ڈالر کی قیمت اسحق ڈار کے دعوے کے مطابق دو سو روپوں سے نیچے جائے تاکہ پٹرول اور بجلی کے نرخوں میں کچھ کمی ہوسکے۔ پاکستان کی ٹرین دوبارہ ٹریک پر چڑھ گئی ہے جو خوش آئند ہے۔
تبصرے بند ہیں.