الیکشن کمیشن کے 4 رکنی بنچ نے متفقہ طور پر عمران خان کو عوامی نمائندگی کے لئے نااہل قرار دے کر ان کی قومی اسمبلی کی نشست خالی قرار دے دی ہے۔ یہ فیصلہ پانچ رکنی الیکشن کمیشن نے کیا جبکہ آج ایک رکن کی عدم موجودگی کے باعث 4 رکنی کمیشن نے فیصلے کا اعلان کیا۔فیصلہ عمران خان کی ’’Corrupt Practices‘‘کے باعث کیا گیا ہے۔ انہوں نے سچ چھپایا وہ صادق اور امین نہیں رہے اس لئے آئین میں درج شقوں کے مطابق نااہل قرار دے دیا گیا ہے۔ عمران خان کے بیانیے کو یہ پہلا اور سنجیدہ دھچکا ہے کیونکہ اب تک جب سے عمران خان سیاست کر رہے ہیں انہیں مقتدر حلقوں کی طرف سے لاڈلے کا سٹیٹس دیا جاتا رہا وہ ایک عرصے سے ریاست سے ٹکرانے اور اسے للکارنے کی حکمت عملی پر کاربند تھے لیکن انہیں کچھ نہیں کہا جا رہا تھا وہ اپریل میں جب تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے نکالے گئے تو انہوں نے لانگ مارچ کرنے کی دھمکی دی 25 مئی کو اس پر عمل بھی کر کے دکھایا لیکن انہیں خفت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد انہوں نے لانگ مارچ کے لئے اپنے فالوورز کو تیار کرنے کی پالیسی اور حکمت عملی اپنائی۔ حکومت پر دبائو بڑھانا شروع کیا لیکن وہ کوئی حتمی تاریخ دینے سے گریزاں رہے۔ ان کی احتجاجی اور مزاحمتی سیاست الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد حتمی مراحل میں داخل ہوتی نظر آنے لگی ہے ان کا ایمانداری اور نیک نامی کا بیانیہ پٹ چکا ہے ان کے کرپٹ اور جھوٹے ہونے پر الیکشن کمیشن نے مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ وہ اب سرٹیفائیڈ کرپٹ اور نااہل قرار پا چکے ہیں۔ انہیں ایک آئینی ادارے کی طرف سے ایسا سرٹیفکیٹ دیا گیا ہے ویسے تو وہ پہلے بھی کرپٹ، بددیانت اور نااہل قرار دیئے جا رہے تھے کرپشن کے مقدمات درج ہیں لیکن کسی آئینی عدالت/ ادارے کی طرف سے انہیں کرپٹ قرار دینے کا فیصلہ پہلا قدم ہے جو ان کے بیانیے کی موت ثابت ہو گا۔ اب عمران خان کے پاس شاید کوئی آپشن نہیں بچا ہے کہ وہ سڑکوں پر رہیں۔ دھرنا دھرنا کھیلیں اور بس۔
لانگ مارچ/ دھرنا ہو گا یا نہیں؟ عمران خان لانگ مارچ کی کال دیں گے یا نہیں؟ کیا حکومت اس لانگ مارچ سے نمٹنے کے لئے تیار ہے یا ویسے ہی تیاریاں لگ رہی ہیں؟ کیا سپریم کورٹ ایک بار پھر اس معاملے میں مداخلت کرے گی جس طرح 25 مئی کے لانگ مارچ کے حوالے سے کی تھی؟ یہ باتیں آج کل ایک عرصے سے موضوع سخن بنی ہوئی ہیں ویسے عمران خان لانگ مارچ کال اسی مہینے دینے کا حتمی اعلان کر چکے ہیں مہینہ ختم ہونے میں
دس دن باقی ہیں۔ اطلاعات ہیں کہ عمران خان لانگ مارچ کال کو بارگیننگ چپ (Bargaining Chip) کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں پردے کے پیچھے فیصلہ سازوں کے ساتھ سلسلہ جنبانی بھی جاری رکھے ہوئے تھے انہیں منانے اور راضی کرنے کی کاوشیں بھی جاری تھیں ایوانِ صدر میں سالارِ اعلیٰ کے ساتھ ملاقات اور اس کا احوال سامنے بھی آ چکا ہے۔ عمران خان فوری الیکشن کے مطالبے کے ساتھ حکومت کو دبائو میں رکھنے، دبائو بڑھانے اور فیصلہ سازوں کے ساتھ اپنے معاملات ایک بار پھر درست کرنے کی پالیسی پر گامزن رہے ہیں لیکن ان کی یہ پالیسی یا حکمت عملی کارگر ثابت نہیں ہو سکی، حکومت ٹس سے مس ہوئی اور نہ ہی فیصلہ ساز عمران خان سے دوبارہ ہاتھ ملانے پر تیار ہوئے۔ عمران خان اب پھنس چکے ہیں ان کے پاس اب دھمکی کو عملی شکل دینے کے سوا کوئی دوسرا راستہ بچا ہی نہیں ہے وہ ڈیڈلائن بھی دے چکے ہیں۔ آئندہ دس دنوں کے اندر اندر انہیں لانگ مارچ کی کال دینا ہو گی۔ چاہے کچھ بھی ہو اب وہ اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنسے نظر آ رہے ہیں وہ چاہیں یا نہ چاہیں اپنے ہی بنائے ہوئے مزاحمتی ماحول اور مزاحمتی پالیسی کا شکار نظر آ رہے ہیں اب بقول شیخ رشید تخت یا تختہ، ابھی نہیں تو کبھی نہیں کی حدود تک پہنچ چکے ہیں اب اس پالیسی سے انکار اور لانگ مارچ حکمت عملی سے پیچھے ہٹنا، عمران خان کی سیاسی موت کا باعث بن سکتا ہے۔
دوسری طرف کہا جا رہا ہے کہ عمران خان کی لاڈلے والی پوزیشن ختم ہو چکی ہے ان کی دھمکی دھونس دھاندلی کی سیاست کا مقابلہ کرنے اور انہیں سبق سکھانے کا فیصلہ کیا جا چکا ہے۔ عمران خان کا پاکبازی کا بیانیہ، دیانتداری اور کارکردگی کی باتیں، ریاست مدینہ کی پکار سب ملیامیٹ ہوتے نظر آ رہے ہیں وہ یوٹرن کے بادشاہ بن چکے ہیں اپنی آج کہی ہوئی کسی بھی بات سے پھرنا، مکرنا، ان کے نزدیک ایک سیاسی حکمت عملی کا درجہ اختیار کر چکی ہے، کہہ مکرنیاں، ان کی سیاست کا مرکز اور محور بنتا نظر آ رہا ہے۔ وہ جھوٹ اس طرح بولتے ہیں، اس صفائی اور ڈھٹائی سے بولتے ہیں کہ وہ سچ نظر آئے حقیقت یہ ہے کہ ان کے فالوورز ان کے سفید جھوٹ کو بھی پکا اور سچا ماننے میں تامل نہیں کرتے۔ حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی آٹھ میں سے 6 نشستوں پر کامیاب ہوئے یعنی اپنی دو نشستیں ہار گئے لیکن انہوں نے اپنی اس شکست کو فتح کے جشن کی صورت میں منایا اور ڈھٹائی کے ساتھ اسے فتح قرار دیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ان کے فین کلب نے ان کی بات من و عن مان لی اور جشن فتح منایا۔ اب الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد عمران خان کے بیانیے کی مرکزی اور عصبی حیثیت ڈھے گئی ہے وہ اپنے آپ کو موجودہ سیاسی قیادت سے اعلیٰ اور ارفع قرار دیتے تھے کیونکہ ان کے بقول وہ کرپٹ ہیں اور عمران خان دیانت دار۔ اس حوالے سے وہ اپنے آپ کو صاف ستھری قیادت قرار دیتے رہے حالانکہ ان کے خلاف کرپشن کے بہت سے واقعات سامنے آ چکے ہیں کئی مقدمات درج ہو چکے ہیں تحقیقات بھی ہو رہی ہیں ان کی زوجہ اور ان کی سہیلی فرح گوگی کے حوالے سے کرپشن کی داستانیں زبان زدعام ہو چکی ہیں لیکن الیکشن کمیشن کے حالیہ فیصلے میں عمران خان بذاتِ خود جھوٹے اور کرپٹ ثابت قرار پائے ہیں انہوں نے توشہ خانہ سے تحائف حاصل کئے 20 فیصد ادائیگی کے وعدے پر۔ پھر انہیں بیچا اور وصول کردہ رقم سے 20 فیصد ادائیگی کی۔ یہ سب کچھ انہوں نے اپنی آمدنی کے ڈیکلریشن میں چھپایا اور حیران کن بات یہ ہے کہ انہوں نے پروپیگنڈہ کیا کہ اب 50 فیصد ادائیگی کے بعد تحفے حاصل کرنا قانون بنا دیا گیا ہے۔ توشہ خانہ کیس فیصلہ انتہائی شرمناک اور المناک انجام کا ابتدائیہ ہے۔ عمران خان کی مزاحمتی اور ملامتی سیاست کا المناک انجام۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.