پاکستان نائن الیون کے بعد امریکا کے لیے چراگاہ بنی رہی۔ ملک، اس کی زمین، وسائل، سرحدیں زمینی فضائی سبھی کچھ ان کی دسترس میں تھا۔ سیلاب کی عفریت سے نمٹتے جیکب آباد ایئرپورٹ سے لے کر تمام مواصلاتی ذرائع، سڑکیں، پل نیٹو سپلائز اور بمبار طیاروں وڈرونز تک۔ یہ سب کچھ برادر ملک افغانستان پر موت برساتا رہا۔ اب ہم مکافاتِ عمل کی زد میں ہیں۔ شیری رحمن وزیرِ موسمیاتی تبدیلی نے کہا: ’پاکستان ماحولیاتی بحران کی فرنٹ لائن پر کھڑا ہے۔ جس تباہی سے دوچار ہیں، اس کا تخمینہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔‘ (امریکا کی خاطر اللہ کا غضب مول لیا تھا اس نے سیلاب میں مدد سے ہاتھ کھینچ لیا یہ کہہ کر کہ پہلے بہت دے چکے!) چیئرمین این ڈی ایم نے کہا: ’ہم تاریخ کی بدترین تباہی سے دوچار ہیں۔‘ جب ہم مسلم دنیا کے خلاف چھیڑی گئی جنگ کے فرنٹ لائن اتحادی بنے تو نتائج میں شراکت بھی لازم تھی۔ اخلاقی قانون اس کائنات میں عین اسی طرح کارفرما ہے جس طرح تکوینی، موسمیاتی سائنسی قانون! سیکرٹری جنرل یو این نے کہا تھا کہ ’موسمیاتی تبدیلیوں کا ذمہ دار نہ ہونے کے باوجود سزا پاکستان کو ملی۔‘ اس کی وجوہات بیان کرنے والی کتاب کے حامل ہم ہیں کہ ایسا کیوں ہوا! موسمیاتی، یا Cosmological لاجک (منطق) تو بہت ہوں گے مگر خالقِ موسمیات نے 610ء میں ہمارے نبیٔ مکرم کے پاس (پس پردہ دنیا کی مادی اور اخلاقی سائنس کا) علم صورتِ وحی/ قرآن نازل کیا تھا۔ علم الانسان مالم یعلم۔ ’انسان کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا۔‘ (العلق: 5) نہ ہی جاننے کے کوئی ذرائع انسان کو میسر ہونا (کل یا آج) ممکن تھے۔ ہم دنیا تک یہ علم پہنچانے کے ذمہ دار ٹھہرائے گئے جن سے دنیا کلیتاً لاعلم اور جاہل ہے۔ صدیوں تک آسمانی مذاہب کے ذریعے اس کائنات میں کارفرما قوانین اور پس پردہ خالق کی فرمانروائی کا فہم موجود تھا۔ جبھی تو آئن سٹائن (متوفی 1955 ء) اور جارج والڈ نوبل انعام یافتہ فزیالوجسٹ (متوفی 1997 ء) دونوں خالقِ کائنات کا اقرار کرنے کے باوجود، انکارِ خدا صرف اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ’ذاتی خدا رکھنا نہیں چاہتے تھے‘! آدھا مسئلہ تو اخلاقی زندگی میں خدا، ضمیر، گناہ ثواب کی روک ٹوک کا تھا۔ جارج کا پارٹنر (بلانکاح) رکھنا یا بیوی کو جیتے جی بیوہ بناکر آئن سٹائن کی طرح بے وفائی کر گزرنا ممکن نہ تھا اخلاقاً، مذہباً۔ سو سیکولر، سائنسی خدائی میں کھل کھیلنا بہتر اور آسان تھا۔ برٹرنڈرسل جیسا فلسفی اور چوٹی کا برطانوی دانشور تین شادیوں سے ہو گزرا۔ حرام کاری پسندیدہ نہ تھی! تاہم اخلاق بارے اس کے متنازعہ خیالات، آزادیٔ اظہار (معاشرتی اور اخلاقی امور پر) امریکا بھی ہضم نہ کرپایا۔ نیویارک کے کالج میں اسے فلسفہ پڑھانے سے روک دیا گیا۔ بارنز فاؤنڈیشن میں 5 سال کا تقرر بھی اسی بنا پر1943ء میں منسوخ ہوا ۔ اگرچہ ہر آنے والا سال فکری پراگندگی کی راہ ہموار کرتا گیا۔ آسمانی اقدار کا شیرازہ بکھرتا چلا گیا۔ 1950ء میں ’فکری آزادی‘ پر ہی اسے نوبل انعام ملا!
یہ تمہید طولانی مغرب کے LGBT والے اخلاقی زوال کے تناظر میں ہے، جس نے انہیں بدترین خلائق کے درجے پر پہنچا دیا۔ یاد رہے کہ جس دور میں برٹرنڈرسل (1872-1970 ء) کفر ودہریت میں لہک بہک رہے تھے مذہب سے دامن چھڑاکر، اسی میں مارما ڈیوک پکتھال (1875-1936 ء) اسلام اور خلافتِ عثمانیہ کے چیمپئن بن کر اٹھے۔ (شاندار برطانوی خاندانی پس منظر کے حامل!) برٹش نیوی کے تین بڑے ہیروز کے 3 پوتے بھی اسی دور میں مسلمان ہوئے۔ مسئلہ نفس پرستی کا تھا ورنہ اسلام کی حقانیت کا جادو اس وقت بھی ہر فطرتِ سلیم پر چلتا تھا!
یہ باور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ جو ہم نے 2001ء کے بعد اسلام سے پیچھا چھڑاکر مغربی اخلاقی بحران کے بحرِ مردار میں غوطہ لگایا ہے آج ہم اسی کا خمیازہ عذاب الٰہی کی سیلابی صورت میں بھگت رہے ہیں۔ ایسے میں جب عالمی اخلاقی زوال کی علمبردار، LGBT تنظیم کی رکنیت گویا اختیار کرنے کا اقدام دبے پاؤں حکومتوں اور لبرل سیاسی جماعتوں نے (ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018 ء) اٹھا لیا تو اس کے مضمرات کتنے ہولناک ہیں۔ فی الدنیا والآخرۃ!
دنیا بھر میں بڑھتی پھیلتی دجالیت، سیکولر ازم کی آڑ میں ریاست، حکومت، قانون اور عملی زندگی کے تمام دائروں سے تصورِ خدا کو نکال باہر کرنے کے لیے جنگجویانہ انتہاپسندی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ مذہب اگر ہے بھی تو انفرادی معاملہ ہے۔ بھارت میں اب انفرادی سطح کا اسلام بھی مسلمانوں سے وحشیانہ طریقے سے چھینا جا رہا ہے۔ کسی سطح پر اسلام کا اظہار، نماز، حجاب، خور ونوش ناممکن بنایا جا رہا ہے اور حقوق انسانی اور آزادیٔ فکر وعمل کے عالمی چیمپئن منہ موڑے بیٹھے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر شعبۂ زندگی، انسانیت کے لیے انتشار، فساد، ظلم، بے انصافی، بے قراری اور اضطراب سے عین اس حالت میں ہے جو پاکستان میں کالے پانیوں کے بھنور لیے سیلاب یا جاپان کی سونامی کی خوفناک لہروں کا ہے۔ حیوانیت، شہوانیت، منشیات، شراب، جوا، سود، قحبہ گری، بلیک میلنگ، قتل وغارت نے زندگی ہر سطح پر اجیرن کر رکھی ہے۔ اللہ سے بغاوت نے انسان کو شیطانیت کے شکنجے میں جکڑ دیا ہے۔ آزادی کے کھل کھیلتے ظاہر جعفر کے ہاتھوں نور مقدم کا لرزہ خیز انجام اور اب شاہنواز امیر پر سارہ کے قتل کا الزام اور بالخصوص نوجوان نسل میں حالات وواقعات کی ہولناکی۔ (بچوں، عورتوں سے زیادتی کے سیریل مجرم!)
ہمارا سوال یہ ہے کہ ہمارے پاس کوثر وتسنیم سے دھلی، اجلی پاکیزہ تہذیب ہے جو ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں کے تسلسل کا ورثہ ہے۔ 23 سال جبرئیل امین اس زمین پر زندگی کے ہر گوشے کی عملی رہنمائی کی ہدایات لے کر آتے رہے۔ وضو نماز سے لے کر بین الاقوامی معاملات، صلح وجنگ کے قوانین تک اور یہ پوری شریعت، الدین آج بھی رہنمائی کو کافی شافی ہے۔ اب کیا یہ دنیا بھر کے جہلاء، شیطانیت کے علمبردار ہمیں زندگی گزارنے کے جاہلانہ ڈھنگ سکھائیں گے؟ افحکم الجاھلیۃ یبغون… (اگر یہ خدا کے قانون سے منہ موڑتے ہیں) تو کیا پھر جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں؟حالانکہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے؟ (المائدہ: 50) اسلام سراسر علم ہے۔ (العلیم رب کا عطا کردہ طرزِ حیات) اور اس سے ہٹ کر ہر طریقہ، (کل اور آج) جاہلیت ہے۔ جس کی بنیاد اندھی نفسانیت، وہم گمان اور قیاس پر ہے۔ کیا ہم ان باغیوں، جاہلوں سے پوچھیں گے کہ ہماری عورت کیا پہنے اوڑھے؟ بچے پہلے ہوں گے یا شادی پہلے ہوگی؟ جوڑا مرد اور عورت کا بنے گا یا مرد اور مرد، عورت اور عورت کا بھی بن سکتا ہے۔ اور انسان Gender Fluid بھی ہوسکتا ہے۔ کبھی مرد بن جائے کبھی عورت؟ اور پھر یہ کہہ کر گزرنے والے کہ بن مانس بھی تو انسان ہی ہوتے ہیں۔ قحبہ گری ایک صنعت ہے اور عورت ایک کارکن، مزدور ہے اس صنعت کی؟ اقوام متحدہ اس’ کا رکن‘ کے حقوق کو تحفظ اور احترام دینے کی بات کرتا ہے۔ اس وقت نیٹ پر طویل لامنتہا فہرستیں مغربی چمکتے دمکتے ’ترقی یافتہ‘ ممالک کی موجود ہیں۔ کس کی؟ وہ ’بہادر‘ مرد اور عورت جو علی الاعلان LGBT+ زندگی گزار رہے ہیں، ان میں 7 یورپی ممالک کے وزرائے اعظم بھی ہیں۔ صرف کینیڈا کی فہرست میں 100 سے زائد ممبران پارلیمنت، سینیٹرز، وزراء، پارٹی لیڈر، گورنر، میئر، کونسلرز یعنی قیادت کی صورت موجود ہیں۔ امریکی فہرست کی طوالت ناقابل بیان ہے۔ حتیٰ کہ ان کے خارجی امور، سفراء ودفاتر کے بڑے مناصب والوں نے توا ب Glifaa فارن آفیرز ایجنسیوں میں G اور L سدومی مرد وزن کی تنظیم بنا رکھی ہے۔ یہ امریکی دفتر خارجہ کا ترقی کا پیمانہ اور فخر وناز کی علامت ہے۔ اس کے سینکڑوں ہزاروں ممبران دنیا بھر اور امریکا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ قصہ مختصر کہ نکاح حرام اور سفاح حلال تو پہلے ہی تھا۔ اب سدومیت کی غلاظت ہی ان کا اصل تفاخر اور سب سے بڑی برآمداتی جنس ہے۔ جس طرح نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا ہماری شناخت ہے۔ اسی طرح عصمت وعفت کا تصور ختم کرنا، حلال وحرام کا فرق مٹانا، گناہ، ثواب کی فکر سے آزاد کرکے ہمہ نوع جنسی تعلقات، نمائش حسن اور حیوانیت کی آندھیاں چلانا ان کا مطلوب ومقصود ہے۔ اسی کا مخفف LGBT پلس ہے۔ امریکی ایوان میں ’شادی کا دفاع‘ (نارمل شادی) کی منسوخی کا مطالبہ اٹھا ہے۔ مقابل ’سدومی شادی کے احترام‘ کا بل پیش ہوا۔ حمایت میں 267 اور مخالفت میں 157 تھے۔ یہ پاگل دیوانے ہوچکے ہیں!
ان دجالی تاریکیوں میں ربیع الاول، سراج منیر صلی اللہ علیہ وسلم کا پرنور نظام زندگی روشنی، امن، سکینت اور پاکیزگی کا پیغامبر ہے۔چراغِ مردہ کجا، نورِ آفتابؐ کجا! پاکستان اسلام کی کوکھ سے پیدا ہوا، اس کی فلاح وبقا اسی چشمۂ صافی سے سیراب ہونے میں مضمر ہے۔ اس فریبی ایکٹ کو جو آئین پاکستان اور وجود پاکستان پر ایک دھبا ہے حرف غلط کی طرح مٹا دیجیے۔ اس ایکٹ نے حیا اور غیرت سوز موضوع کو سوشل میڈیا کے ذریعے زبانوں پر رواں کردیا ہے۔ اس دروازے کا کھلنا فی نفسہٖ بدترین تاریکی، ماحولیاتی آلودگی ہے۔ اس پر قفل چڑھائیے۔ ذکر عام کیجیے اس ذاتؐ کا کہ:
اے روشنیؐ مقامِ محمود!
سورج ترے سائے میں کھڑا ہے!
تبصرے بند ہیں.