وزیر اعلیٰ پنجاب کا معاملہ عدالت میں ہے، 63 اے میں پارٹی سربراہ کا ذکر ہے پارلیمانی سربراہ کا نہیں۔ قانونی اور آئینی اخلاقیات کا تقاضا ہے کہ اس مقدمہ کی سماعت لارجر بنچ کرے یا کم از کم وہ 3 جج صاحبان نہ کریں جو پہلے ہی اپنا ذہن بتا چکے ہیں۔ میاں نوازشریف کی سیاسی زندگی ہماری آنکھوں کے سامنے ہے۔مولوی تمیزالدین کیس تو ہم سے پہلی نسلوں نے دیکھا مگر تاریخ میں آج بھی موجود ہے جبکہ گریٹ بھٹو کا کیس ہمارے سامنے ہے۔ اس مقدمہ کا پس منظر اب کوئی راز نہیں رہا، اس مقدمہ اور بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد میرا کبھی قومی اور سیاسی معاملات میں مقدمات کے حوالے سے عدلیہ پر اعتماد نہ بن سکا اور بد نصیبی سے یہ بد اعتمادی دن بدن مزید گہری ہوتی چلی گئی حالانکہ میںخود وکیل ہوں قانون کا طالب علم ہوں اور میری یہ سوچ ہے۔ جناب رضا ربانی نے درست کہا تھا کہ پارلیمنٹ نے اپنی داڑھی خود عدلیہ کے ہاتھ میں دے رکھی ہے لیکن وہ ایک زیرک سیاستدان ہونے کے باوجود ہر بار اس سازش کو شاید سمجھ نہ پائے جو حالات کا دھارا عدلیہ کی طرف موڑ دیتی ہے۔ میرے خیال سے عدلیہ ایسے معاملات سے دور رہنا چاہتی ہو گی مگر جب کوئی معاملہ آ جائے تو نسیم حسن شاہ کا انٹرویو ریکارڈ پر ہے، اب کون لے کر آئے جسٹس کارنیلیئس، جسٹس رستم کیانی، جسٹس صمدانی، جسٹس ملک سعید حسن (مرحومین) جیسی ہستیوں کو جو عدلیہ کو ایک شان بخش گئیں جبکہ برعکس کردار رکھنے والے ججز نے ملک کی تاریخ کا سیاہ ابواب رقم کیا۔ جناب جسٹس کارنیلیئس صاحب ایک دفعہ ریٹائرمنٹ کے بعد ہائی کورٹ تشریف لائے جج صاحبان کا ان سے باری باری تعارف کرایا گیا مسٹر جسٹس فلاں، مسٹر جسٹس فلاں، جج صاحبان کے نام کے ساتھ ان کا فیملی نیم (یعنی ذات، برادری، قبیلہ) بھی لکھا پکارا جاتا تھا۔ جسٹس کارنیلیئس صاحب نے بڑے اطمینان سے سب سے ہاتھ ملایا، تعارف مکمل ہونے پر کہا (ترجمہ): ’’ہمارے وقتوں میں یہ نام ایف آئی آرز میں ہوا کرتے تھے اب بنچ میں ہیں‘‘۔ یاد رہے کہ جناب جسٹس کارنیلیئس نے مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر جو اس وقت چیف جسٹس تھے کے فیصلے میں اختلافی نوٹ لکھا تھا جب اکثریتی فیصلہ چاہے وہ دو ایک پر ہو فیصلہ ہی ہوا کرتا ہے۔ فیصلہ غلط یا درست ہو جب تک فیلڈ میں ہو وہ فیصلہ ہی ہوا کرتا ہے۔ مولوی تمیز الدین کی طرز کے فیصلے تو بعد میں ضیا، مشرف دور میں آتے رہے مگر گریٹ بھٹو کے فیصلہ کی نظیر پلٹ کر کسی عدالت میں پیش کرنے کی کسی وکیل نے قانونی تو دور کی بات اخلاقی طور پر بھی کوشش نہ کی۔ سوشل میڈیا نے دنیا بدل دی ایک ہی بندہ سیکڑوں ناموں کے ساتھ رائے دے سکتا ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو عمران خان کی سیاست اپنے سابقہ سسرال (لندن) اور لندن والے پیروں کی مدد سے میاں نوازشریف اور بلاول بھٹو یا مولانا فضل الرحمن حتیٰ کہ جماعت اسلامی سے بھی ایک صدی آگے ہے۔ جنرل حمید سے جنرل باجوہ تک کے سفر نے عمران کو وزیراعظم بنا دیا۔ ان کی جد و جہد دراصل بندوبست تھا۔ حیرت ہے کہ بدترین کارکردگی، بدترین دور پونے چار سال فاشزم کے ساتھ گزر گئے۔ ان کے وزیر خزانہ شوکت ترین کے بقول ان کے دور میں 70 سال کا 76 فیصد قرض لیا گیا۔ زمین پر کوئی ایک ایسا منصوبہ نہیں جو ان کی حکومت نے دیا ہو، سابقہ وزیراعظم سمیت پوری اتحادی حکومت میں سے کوئی بھی سڑک پر نکلنے کے قابل نہ تھا کوئی ان کا ٹکٹ لینے کو تیار نہ تھا، جس طرح محترمہ بے نظیر بھٹو نے 1985 میں انتخابات کا بائیکاٹ کر کے غلطی کی، موجودہ حکمران اتحاد نے حکومت لے کر غلطی کی اور اس سے بڑی نا اہلی یہ
دکھائی کہ عوام کو بتا بھی نہ سکے کہ سب کچھ عمران اور اتحادی حکومت کا کیا دھرا ہے۔ میاں نوازشریف آئے تو ضیا کے دور میں تھے مگر 1993 میں جب اسحاق خان نے ان کی حکومت توڑی میاں صاحب عوامی سیاست میں مقبول ہوئے۔ اپنی تین حکومتیں آئین کی سپرا میسی کی جنگ میں گنوا دیں۔ میاں نوازشریف سے میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ وہ لوگ آج بھی آپ کی جماعت میں ہیں جنہوں نے گوجرانوالہ میں محترمہ فاطمہ جناح کی بے حرمتی کی،
جنہوں نے ایم آر ڈی کی تحریک میں رضاکارانہ گرفتاریاں دینے والوں کو پولیس سے پہلے اور زیادہ بے دردی سے مارا۔ پیپلز پارٹی کے ساتھ جو کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ میثاق جمہوریت کے بعد میاں صاحب یکسر بدل گئے ان کا اپنا بیان تھا کہ سچی بات ہے پہلے میں نظریاتی نہیں تھا اب میں نظریاتی سیاست کا قائل اور علمبردار ہوں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت پر میں نے کالم لکھا تھا ’’میاں صاحب کو مد مقابل کی تلاش‘‘، اس میں لکھا تھا کہ میاں صاحب آپ محترمہ کی مخالفت سے پیپلز پارٹی مخالف قوتوں کے مسلمہ لیڈر کے طور پر سامنے آئے اب لوگ آپ کو بُرا بھلا کہہ کر اپنا قد اونچا کریں گے ڈھونڈنے والوں نے اپنے کنٹرول شیڈ میں برائلر تیار کیا اور قوم پر مسلط کر دیا۔ اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی جب بہہ گیا میاں صاحب کو خیال آیا کہ وہ خود تو لندن میں رہ رہے ہیں لیکن سیاست پاکستان میں کرتے ہیں، پاکستان میں لندن کی سیاست نہیں چل سکتی میاں نوازشریف، بلاول بھٹو کا سیاسی مقابلہ کردار والے لوگوں کے ساتھ نہیں گفتار والے لوگوں کے ساتھ ہے۔ میاں صاحب کو پتہ ہی نہ چلا کہ ان کے کیمپ پارٹی یا اتحاد میں جتنے جھوٹ لکھنے والے، اول فول بکنے والے سیاستدان اور لکھاری تھے وہ سب پی ٹی آئی میں چلے گئے اور میاں صاحب چلے لندن کی سیاست کرنے۔۔۔ پیپلز پارٹی نے اپنا انداز نہ بدلا نظریاتی سیاست کی گفتگو اور الفاظ نہ بدلے تو شیخ رشید جیسے لوگ ہاوی ہو گئے اور پھر جب یہ عمران خان کی ٹوکری میں چلے گئے تو ظاہر ایسی گفتگو تو انہی کے اتحاد کا حصہ تھی جس ملک میں بدمعاشوں کے نام پر فلمیں بنیں اور گولڈن جوبلی کریں جس ملک میں عدلیہ عزت بچاتی پھرے اب تو اسٹیبلشمنٹ کی توقیر بھی داغدار ہونے لگی اس ملک میں لندن برانڈ کی سیاست سیاسی خود کشی کے مترادف ہے۔ جناب نوازشریف صاحب اور ان کے اتحادیوں کو غیر مہذب لوگوں کے ساتھ تمیز کا مظاہرہ سیاسی طور پر بہت مہنگا پڑا۔ حکمران اتحاد تو عوام کو یہ تک نہ بتا سکا جو عمران دور میں تباہی پھیلی وہ بھی ان کے ذمہ پڑ گئی۔ پی ٹی آئی اور اتحادیوں کی حکومت کے پہلے دن وزیراعظم ہاؤس کی 30 گاڑیاں اور دو بھینسیں تک بتا دی گئیں جبکہ آپ کے سامنے پنجاب سرحد اور مرکز میں بھرپور کرپشن ہوئی نا اہلی نے ملک دیوالیہ کر دیا۔ اگر ملک بچانے چلے ہیں تو پہلے اپنا امیج بچائیں اور عمران نیازی کے دور میں پھیلائی جانے والی تباہی کو ثبوتوں کے ساتھ عوام کے سامنے لائیں، دین کو تقریری ٹچ دینے والے کی حقیقت سے لوگوں کو آگاہ کریں۔ یوں کہہ لیں کہ اس کے تمام فالوورز شیخ رشید بن گئے جو اپنے انداز گفتگو کا جواب اسی انداز میں مانگتے ہیں۔ چلیں آپ گالیاں نہ دیں دلیل دے لیں۔ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں عبدالقادر چانڈیو، رضا ربانی، کائرہ کی طرح بات کر لیں، یا کم از کم روحیل اصغر، خواجہ سعد رفیق، پرویز رشید جیسے لوگوں کو ہی متحرک کر لیں۔ حکمران اتحاد کو چاہئے کہ عمران جتنا جھوٹ بولے اتنا ہی اس کے متعلق سچ بولیں۔ حکمران اتحاد یہ بات لوگوں کو بتائیں کہ نیازی کے ساتھ اگر ادارے نہ ہوں تو وہ کچھ نہیں ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.