بلاشبہ کینسر ایک نہایت موذی مرض ہے لیکن قطعی طور پر یہ موت کا پیغام نہیں۔ زندگی کی رنگینیاں اور رونقیں اس قابل ہیں کہ ان کی طرف لوٹا جائے اور جو لوگ کینسر کے مریضوں کو ایک نئی زندگی کی طرف واپسی کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں یقینا قابل ستائش میں اور معاشر ے کو مجموعی طور پر چاہیے کہ ان کی زبانی جمع خرچ کے بجائے ان کو مضبوط اور مستحکم کیا جائے تاکہ شاعر مشرق کی اس امنگ کو زندہ کیا جا سکے، جس کا اظہار آپ نے یوں فرمایا کہ
ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا
درد مندوں سے ضعیفوں سے محبت کرنا
اس شعر کو چارٹر آف انسانیت کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں دکھی انسانیت سے محبت کرنے والوں میں فرینڈز آف میو ہسپتال (FOMH) کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں لیکن ان کی انسانوں سے محبت پر بات کرنے سے پہلے آپ کو کینسر کے بارے میں ہوشربا اعداد و شمار سے آگاہی ضروری ہے ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال کینسر کے مریضوں کی تعداد میں 178000 کا اضافہ ہو جاتا ہے ۔یہ شاید دنیا کا مہنگا ترین مرض ہو گا ۔ شوکت خانم ہسپتال میں بریسٹ کینسر کے ایک مریض کے علاج کا خرچہ 15 لاکھ روپے ہے جس میں صرف دوائیوں ، تشخیص اور آپریشن وغیرہ شامل ہیں۔ آمد و رفت رہائش یا دیگر دیگر اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ جب یہ بیماری کسی غریب گھرانے پر حملہ آور ہوتی ہے تو سماجی طور پر اس کے تباہ کن اثر ات ظاہر ہوتے ہیں جن کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔
فرینڈز آف میو ایک فلاحی تنظیم ہے جنہوں نے 2017 ءمیں اپنے قیام سے لے کر اب ملک میو ہسپتال کی قدیم عمارت کے ثقافتی ورثے کی بحالی ، مریضوں اور ڈاکٹروں اور نرسوں کیلئے سہولیات کی فراہمی اور علاج معالجہ میں سہولتوں کی دستیابی کیلئے بے پناہ کام کیا ہے۔ ابتدائی طور پر درد دل رکھنے والی دو خواتین محترمہ فاطمہ فضل اور محترمہ امبرین عرفان نے ہسپتال میں مریضوں اور لواحقین کی حالت زار دیکھ کر ان کے دکھوں کا مداوا کرنے کا سوچا اور اسی سوچ کو عملی شکل دینے کے سفر میں ان کے ساتھ بہت سے خواتین و حضرات نے ان کا ساتھ دیا گزشتہ 5 سال کے عرصے میں اس گروپ نے کروڑوں روپے کی لاگت سے 14 پرا جیکٹ مکمل کئے ہیں۔
حال میں فرینڈز آف میو نے لاہور کے سب سے پرانے ہسپتال یعنی میو ہسپتال قائم شدہ 1860ءمیں کینسر وارڈ oncology & radialogy شعبے کی بحالی تزئین و آرائش کا کام مکمل کیا ہے جس پر 9 کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ ہوئی ہے اس پرا جیکٹ میں FOMH کو محترمہ عذرا تجمل حسین نے مالی معاونت فراہم کی جس میں عذرا تجمل اور محترمہ لیلیٰ نصرت کی ذاتی کاوش قابل تحسین ہیں اس سہولت کے بعد یہ عمارت جو پہلے کہ بھوت بنگلے کا نقشہ پیش کر رہی تھی اب ایک جدید ترین بلڈنگ میں تبدیل ہوگئی ہے ۔ جس میں 60 بیڈز کی گنجائش ہے جہاں پر بیرونی مریض انتہائی نگہداشت کا شعبہ اور کیمو تھراپی کی سہولت دستیاب ہے۔ ایک وقت میں 30 مریضوں کی کیمو تھراپی کی گنجائش ہے۔
کینسر وارڈ کی renovation کے موقع پر پروفیسر عائشہ شوکت نے کینسر کے مریضوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے میں فرینڈز آف میو کے کردار کو سراہا اور بیماری کے سماجی اثرا ت پر بات چیت کی۔ اس موقع پر بتایا گیا کہ میو ہسپتال کے OPD میں روزانہ 4000 سے 5000 مریض آتے ہیں۔ اتنا زیادہ رش شاید ہی کسی اور ہسپتال میں ہو لیکن اس چیلنج سے نبرد آزما ہونے کے لیے ڈاکٹر اور عملہ اپنے فرائض بخوبی انجام دے رہا ہے۔
فاطمہ افضل ، امبرین عرفان اور عالمی شہرت یافتہ آرکیٹیسکٹ محترمہ نیئر علی دادا جیسی سماجی شخصیات FOMH اور Donory کے درمیان ایک پل کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
سابق CEO ڈاکٹر اسد اسلم نے اس اہم نقطے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اکیلے کچھ نہیں کر سکتی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے ہیلتھ سیکٹر میں انقلابی تبدیلیاں ممکن ہیں۔
1860 میں میو ہسپتال قائم ہوا تو لاہور کی آبادی 3 لاکھ تھی جواب کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ہسپتال میں سے 100 میڈیکل سٹوڈنٹ ہوتے تھے اب یہ 4000 ہو چکے ہیں اور یہ بھی کم ہیں۔
کینسر وارڈ کے ہیڈ ڈاکٹر عباس کھوکھر صاحب نے بہت جامع تجزیہ پیش کی ان کا کہنا تھا کہ شوکت خانم کینسر ہسپتال ملک کا سب سے state of the art کینسر ہسپتال ہے مگر وہاں صرف 10 فیصد مریضوں کا علاج ہوتا ہے۔ قابلِ علاج یعنی اچھے ہونے والے مریض شوکت خانم والے چن لیتے ہیں باقی مریض دیگر ہسپتالوں میں قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں میو ہسپتال کینسر کے مریضوں کا آخری اسٹیشن ہوتا ہے جس مریض کو کوئی ہسپتال یا ڈاکٹر ہاتھ نہیں لگا تا ہم انہیں قبول کر لیتے ہیں اور ان کے وارث بنتے ہیں ہمارا کام زیادہ مشکل اور پیچیدہ ہے ۔ "We provide comfort & solace to cancer patients” گویا میو ہسپتال ان کیلئے سکون اور پناہ گاہ کی حیثیت رکھتی ہے۔
فرینڈز آف میو کے کوآرڈی نیٹر عثمان ٹارڈ صاحب نے تنظیم کے اگلے پراجیکٹ کے بارے میں بتایا کہ میو ہسپتال میں چلڈرن سرجیکل کمپلیکس کی Rennovation پر تیزی سے کام جاری ہے۔جس پر 16 کروڑ روپے لاگت آرہی ہے اس میں FOMH کے سائے دیگر Donors اور تنظیمیں ہمیں معاونت فراہم کر رہے ہیں اس میں بچوں کیلئے الگ burn unit قائم کیا جا رہا ہے۔
آج کے اس دور میں بھی ایسے لوگ موجود میں جو انسانیت سے محبت کے جذبے کے تحت کام کر رہے ہیں نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا۔ آج کے Mainstream میڈیا میں جہاں منفی خبروں کی بھرمار کی وجہ سے عوام الناس کا شدید ذہنی تناو¿ کا شکار ہیں اس پس منظر میں فرینڈ آف میوہسپتال ایک بہت بڑی success ہے۔
میو ہسپتال کے ایم ایس ڈاکٹر منیر احمد ملک نے FOMH کے خدمات کے اعتراف میں صرف اتنا کہا کہ
ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے
آتے ہیں جو کام دوسروں کے
Prev Post
تبصرے بند ہیں.