ریاست لاریب بلندوبالا مستحکم اور طاقتور ہوتی ہے دور جدید میں ہی نہیں، تاریخی اعتبار سے بھی ریاست اپنی مختلف حیثیتوں اورمشکلوںمیں طاقت اور عظمت کا مظہر رہی ہے۔ ریاست، ریاست کی طاقت اور جبر ایک بلند اور قائم حقیقت ہے جسے افراد یا جماعتیں شکست نہیں دے سکتے۔ عمران خان پی ٹی آئی کے پرچم تلے 22 سال تک قوم کو ’’انکار‘‘ یعنی ’’DEFIANCE‘‘ کی تعلیم دیتے رہے۔ انہوں نے اپنے فالوورز کو لڑائی جھگڑے اور للکارنے پرترتیب دیا۔ انہوں نے سیاست میں دشنام طرازی اور دنگے فساد کے کلچر کو فروغ دیا پھر 2018 میں وہ جب اقتدار میں لائے گئے اور 10 اپریل 2022کو پارلیمنٹ سے شکست کھا کر نکالے جانے تک، 44 مہینوں میں بھی انہوں نے ایسے ہی فکروعمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ بیانیے تشکیل دینا اور نئے بیانیے تشکیل دیتے رہنا اور دھڑلے سے یوٹرن لینا، جھوٹ بولنا اور بولتے ہی چلے جانا۔ ان کے پسندیدہ افکار و اعمال رہے ہیں پارلیمان میں شکست کھانے کے بعد انہوں نے پہلے امریکی سازش، پھر اندرون ملک میرجعفروں و میر صادقوں کی سازش کا بیانیہ تشکیل دیا۔ پہلے وہ کہتے تھے کہ نیوٹرل تو جانور ہوتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کے نیوٹرل ہونے کے بیان کو خوب رگڑا۔ اسے جانور تک کہہ دیا اب وہ سب اداروں کو للکار للکار کر نیوٹرل نہ رہنے کی دھمکیاں لگا رہے ہیں۔ وہ اپنے اعلان کردہ تاریخی لانگ مارچ کے ذریعے بظاہر عام انتخابات کا مطالبہ منوانے کے لئے عازم اسلام آباد ہوئے ہیں جبکہ حکمران تحاد نے واضح الفاظ میں ان کے مطالبے کو ماننے سے انکار کردیا ہے اور اسمبلی کی آئینی مدت پوری کرنے کے عزم بالجزم کا اعلان کر دیا ہے۔ عمران خان کا مطالبہ بظاہر بڑا معصومانہ اور آئینی و قانونی سمجھا جا رہا ہے لیکن یہ بات فی الاصل درست نہیں ہے بلکہ مبنی بر شرارت و فتنہ ہے۔ ایک طرف وہ چیف الیکشن کمیشن پر تنقید کر رہے ہیں انہیں ن لیگی قرار دے رہے ہیں۔ ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کرتے رہے ہیں اگر ان کا یہ مطالبہ مان کر وہ مستعفی ہو جاتے ہیں تو پھر الیکشن کون کرائے گا۔ دوسری طرف الیکشن کمیشن کہہ چکا ہے کہ فوری طور پر الیکشن کرانا ممکن نہیں ہے۔ ڈی لمیٹیشن وغیرہ جیسے قانونی و آئینی مسائل حل کئے بغیر الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہے۔ یہ بات عمران خان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ ان کا یہ مطالبہ فتنہ و فسادکے سوا کچھ نہیں ہے کیونکہ وہ دراصل اپنی افتادِ طبع کے عین مطابق وہ اپنے آپ کو ہلچل اور دنگافساد کرنے اور کرتے رہے ہر مجبور محض محسوس کرتے ہیں اور اپنے فالوورز کو بھی متحرک اور اپنے ساتھ جڑے رکھنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ انہیں ’’مشغول‘‘ اور ’’مصروف‘‘ رکھیں اس کے لئے بھی ہلچل اور ہنگامہ آرائی ضروری ہے۔ وہ 22 سال تک، یعنی 2018 میں حکومت حاصل کرنے سے پہلے تک یہی کچھ کرتے رہے ان کے افکار اور خیالات کے زیراثر جو نوجوانوں کی ایک کھیپ تیار ہوئی ہے اسے اکٹھا رکھنے اور انہیں فعال رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ کوئی نہ کوئی ’’انکار‘‘ اور پھر ’’فساد فی الارض‘‘ کا منترہ جاری رہے یہی وجہ ہے کہ پارلیمان سے شکست خوردگی کے فوراً بعد انہوں نے انکار اور فساد کی پالیسی پر عمل درآمد جاری رکھا اور اعلان کردہ لانگ مارچ اسی سلسلے کی حتمی کڑی ہے جسے وہ کامیاب بنانے اور فیصلہ کن کرانے کے لئے آخری کاوش کر رہے ہیں۔
دوسری طرف ریاست کھڑی ہے جو ان کے اعلان کردہ مارچ و دھرنا کو روکنے کے اعلان پر عمل پیرا ہے۔ شہباز شریف کی قیادت میں 11 جماعتی اتحادی حکومت نے عمران خان کو دنگافساد کرنے سے باز رکھنے کا عزم بالجزم کر رکھا ہے ن لیگ 2014 میں عمران خان کے 126 دنوں کے دھرنے سے نمٹنے کا تجربہ رکھتی ہے۔ عمران خان کو اس وقت ’’بڑوں‘‘ اور ’’فیصلہ سازوں‘‘ کی سپورٹ بھی حاصل تھی اس کے باوجود ان کا مارچ اور دھرنا اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ اب عمران خان یک و تنہا میدان عمل میں ہیں فیصلہ ساز اور مقتدر حلقے بظاہر نیوٹرل ہو چکے ہیں اور آئینی انداز میں قانون کے مطابق کام کر رہے ہیں اس لئے حالیہ مارچ اور دھرنا تاریخی بنتا نظر نہیں آ رہا ہے۔عمران خان کی گھن گرج بھی روایتی نظر آ رہی ہے وہ ایک ہارے
ہوئے کھلاڑی کے طور پر ’’کھسیانی بلی کھمبا نوچے‘‘ بنے نظر آ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں عوامی تحاریک کے کامیاب ہونے کی تاریخ بھی ہے۔ ماضی قریب میں عدلیہ کی آزادی اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے لئے اٹھائی جانے والی تحریک کی کامیابی بھی ہمارے سامنے ہے۔ اس تحریک میں پوری قوم وکلا کے ساتھ شامل تھی۔ ہمارے سامنے 1977 کی تحریک نظام مصطفی بھی ہے جس میں پوری قوم قومی اتحاد کے پرچم تلے بھٹو فسطائی کے خلاف اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔ یہ تحریک بھٹو حکمرانی کے خاتمے اور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا پر منتج ہوئی۔ ہمارے سامنے 1953 اور 1974 کی اینٹی قادیانی تحاریک بھی ہیں۔ 53ء میں اینٹی قادیانی تحریک کامیاب نہیں ہو سکی کیونکہ وہ عوامی تحریک نہیں تھی جبکہ 1974 کی تحریک کیونکہ عوامی تھی پوری قوم، سیاسی و مذہبی تمام رہنما اس تحریک میں شامل تھے اس لئے یہ تحریک کامیاب ہوئی اور قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دلوا کر یہ تحریک اپنے منطقی انجام تک پہنچی۔
ریاست کے خلاف اٹھنے والی تحاریک کامیاب بھی ہوتی ہیں اور ناکام بھی ہوتی رہی ہیں۔ ایسی تحاریک جنہیں فی الاصل عوامی تائید اور پذیرائی حاصل ہو کامیاب ہوجاتی ہیں ریاست کو ان کے سامنے جھکنا پڑتا ہے لیکن جن تحاریک کی پشت پر عوامی تائیدوحمایت کھڑی نہ ہو وہ تحاریک کامیاب نہیں ہوتی ہیں۔ ناکام ہو جاتی ہیں۔جہاں تک تعلق ہے عمران کی حالیہ تحریک آزادی کا وہ کامیاب ہوتی ہے یا نہیں تو اس بارے میں دو باتیں جاننا انتہائی ضروری ہیں۔ پہلی تو یہ ہے کہ یہ تحریک ایک سیاسی جماعت، تحریک انصاف کی برپا کردہ ہے ، ایک ایسی جماعت جسے اس کے اتحادی ہی نہیں بلکہ اس کی پارٹی بہت سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران بھی چھوڑ چکے ہیں۔ عمران خان اپنے 44 ماہی دور حکمرانی میں ملک کو بدترین معاشی عدم استحکام اور سیاسی تعفن کا شکار کر چکے ہیں۔ عمران خان کے دوست مقتدر حلقے ان کو ان کی نالائقیوں اور نافرمانیوں کے باعث ترک کر چکے ہیں۔ اب وہ اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے کے منصب عالیہ سے بھی فارغ کر دیئے گئے ہیں۔ ان کا حالیہ مارچ کسی طور بھی اخلاقی جواز کاحامل نہیں ہے۔ آئینی طور پر جمہوری روایات کے مطابق احتجاج، جلسے جلوس کرنا ہر جماعت کا حق ضرور ہے لیکن ایسے ماحول میں جب ملک معاشی دیوالیہ پن کی طرف جا رہا ہو، ملک کو بچانے کے لئے یکسوئی اور بڑے فیصلوں کی ضرورت ہو، لانگ یا شارٹ مارچ کی کال دینا کسی بھی ملکی قومی مفاد میں نہیں ہے۔ دوسری طرف قوم نے اپنے ووٹ کے ذریعے اسمبلیوں کو 2023 تک منتخب کیا ہے اس لئے جب عمران خان اسمبلیوں میں تھے تو یہ بات انہیں قبول تھی انہیں فوری الیکشن کا اعلان کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی اب جبکہ وہ سب کچھ ہار چکے ہیں، قومی و پنجاب اسمبلی سے انہیں شکست ہو چکی تو وہ سراپا احتجاج بن کر فوری انتخابات کا مطالبہ ہی نہیں کر رہے بلکہ دھونس دھاندلی اور دھمکیوں کے ذریعے ایک متفقہ قومی حکومت کو ناکام کرنے کے درپے ہیں جبکہ ریاست انہیں ناکام بنانے کے لئے یکسو نظر آ رہی ہے اس لئے قرائن یہ بتا رہے ہیں کہ ریاست اپنی رٹ قائم کر دکھائے گی اور عمران خان کی دنگے فساد نہ مانوں اور دشنام طرازی کی سیاست ناکام ہو گی۔
پاکستان زندہ باد
ریاست پاکستان پائندہ باد
Next Post
تبصرے بند ہیں.