لاہور جسے صوبہ پنجاب کا دارالحکومت اور پاکستان کے دوسرے بڑے شہر کا نام دیا جاتا ہے، یہ پاکستان کا ثقافتی، تعلیمی اور تاریخی مرکز ہے۔ اسے پاکستان کا دل بھی کہا جاتا ہے۔ شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد، مقبرہ جہانگیر اور مقبرہ نور جہاں مغل دور کی یادگاریں بھی اِدھر ہی ہیں۔
لاہور کے بارے میں سب سے پہلے چین کے باشندے سوزوزینگ نے لکھا جو ہندوستان جاتے ہوئے لاہور سے 630 عیسوی میں گزرا۔ اس شہر کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں عوام میں مشہور ہے لیکن اس کا ثبوت موجود نہیں ہے کہ رام چندر جی کے بیٹے لوہو نے یہ بستی آباد کی تھی۔ قدیم ہندو پروانوں میں لاہور کا نام لوہ پور یعنی لوہ کا شہر ملتا ہے۔
تو لاہور جسے پنجاب کا دل کہا جاتا تھا اور ہے اس کا اگر ماضی میں موازنہ کریں تو ماضی کی حکمران نون لیگ نے اس شہر پر بڑی محنت کی تھی۔ سابق وزیراعلیٰ لاہور کے حالات بہتر کرنے کے لیے میدان میں خود اترے تھے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی لاہور کے عوام سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف کی تعریفیں کرتے ہیں۔ اگر پنجاب کے ایک اور سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کی بات کریں تو انہوں نے بھی لاہور کے لیے کافی خدمات سر انجام دی ہیں۔ جیسا کہ 1122، متعدد ہسپتالوں میں نئی ایمرجنسیوں کا قیام، سرکاری سکولوں میں مفت کتابیں ان کو بھی عوام آج اچھے لفظوں میں یاد کرتے ہیں۔ مگر موجودہ وزیر اعلیٰ کی جب بات ہوتی ہے تو عوام کانوں کو ہاتھ لگاتے ہیں۔
ایک وقت تھا لاہور کے عوام کو بہت سے مسائل کا سامنا تھا مگر پچھلے کچھ عرصہ سے لاہور کو بہت حد تک ڈویلپ کیا گیا۔ جب دوسرے شہروں کے لوگ لاہور میں آتے ہیں تو کہتے تھے کہ لاہور کا نقشہ ہی بدل دیا گیا ہے۔ ظاہر سی بات ہے لاہور اتنا بڑا شہر ہے اس کو بہترین بنانے کے لیے بجٹ بھی اچھا ہونا بہت ضروری تھا جو کہ میں سمجھتی ہوں کہ لاہور کو خوبصورت بنانے کے لیے سابق وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے لاہور پر بجٹ لگایا بھی۔ موجودہ وزیراعظم عمران خان کو اس وقت بھی بہت اعتراض ہوتا تھا کہ لاہور پر اتنا بجٹ لگا لیا، تین ارب صرف لاہور میں ہی لگا دیے گئے۔ مگر ہمیں یہ معلوم نہیں تھا کہ عمران خان کو شاید لاہور کی مینٹیننس اور خوبصورتی ناگوار گزرتی ہے۔ ہمیں یہ اس وقت پتہ چلا جب عمران خان صاحب کا دور اقتدار آیا جو سڑکیں بہت صاف ستھری دکھائی دیتی تھیں، اب وہی سڑکیں انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ لاہور کی داخلی موٹروے سے جب بند روڈ کی طرف آتے ہیں جو کہ میں سمجھتی ہوں یہ بہت ہی مشہور روڈ ہے اور لاہور کا چہرہ بھی کہلاتی ہے، وہاں کے اُبلتے ہوئے گٹر اور وہ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں آنے والوں کو جب خوش آمدید کہتی ہیں تو موجودہ حکومت کی نا اہلی سامنے آتی ہے۔
یہ سب کچھ دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہیں لاہور سے بدلہ تو نہیں لیا گیا کیونکہ موجودہ وزیراعظم عمران خان صاحب لاہور پر لگنے والے بجٹ کے حوالے سے ہمیشہ اعتراض اٹھاتے آئے ہیں۔ ماضی میں بھی پورے پنجاب کو تنہا کر دیا گیا شہباز شریف لاہور کو ہی سنوارتے رہے مگر اب بات آتی ہے کہ جب عمران خان کے ہاتھ میں ملک کی کمانڈ آئی تو ان کی سب سے بڑی ناکامی اسی وقت ثابت ہو گئی تھی جب انہوں نے اتنے بڑے صوبے کا وزیر اعلیٰ عثمان بزدار جیسے شخص کو لگایا۔ شاید ان کو بیوروکریسی سے کام نہیں لینا نہیں آیا اور یہ بات تو ان کے ٹکٹ ہولڈر میرے لائیو شو میں بھی تسلیم کر چکے ہیں۔ یہ بات تو سچ ہے کہ ہمارے وزیر اعلیٰ کو بیوروکریسی سے کام لینا نہیں آتا، یہی ہماری حکومت کی ناکامی کی وجہ بنی ہے۔ لاہور میں جو سڑکیں روشن نظر آتی تھیں اب وہ اندھیرے میں ڈوبی ہیں۔ دن بدن بڑھتی ہوئی ڈکیتی کی وارداتیں لاہوریوں کا حکومت کو کوسنا، پی ٹی آئی کا لاہور میں ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ عمران خان صاحب سے گزارش کروں گی مہربانی کر کے لاہور شہر پر تھوڑا رحم کریں کیونکہ لاہور ایک وہ شہر ہے جس سے آپ کا ایک بڑی تعداد میں ووٹ نکل سکتا ہے مگر شرط یہ ہے کہ لاہور میں کام کرنا ہو گا۔ لاہور کو ویسے ہی مینٹین کرنا ہو گا جیسے 2018 میں نون لیگ آپ کے حوالے کر کے گئی تھی اگر آپ ویسے کام نہیں کرتے تو لاہوریوں کی طرف سے نہ ہی ہے۔۔۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.