فارن فنڈنگ کیس: شیشے کے گھر پر پتھر

69

عیسائیوں کی پرانی مذہبی کتابوں میں ایک قدیم روایت کا ذکر ہے کہ کسی شخص کو سنگسار کرنے کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔ حضرت عیسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اس کا جرم کیا ہے تو بتایا گیا کہ یہ زانی ہے۔ آپؑ نے کہا کہ درگزر کریں اور اسے چھوڑ دیں مگر وہ کسی طرح معافی دینے پر تیار نہیں تھے۔ آپؑ نے فرمایا کہ پھر اس کی سنگساری کی پہلی شرط یہ ہے کہ اس کو پہلا پتھر وہ مارے گا جس نے آج تک یہ جرم نہ کیا ہو جس کے بعد پوری قوم میں سے کوئی شخص بھی آگے نہ بڑھ سکا۔
ہماری پاکستانی قوم کی کرپشن کے خلاف ساری جدوجہد ایسی ہی ہے کہ جن لوگوں کا اپنا دامن صاف نہیں ہے وہ سب سے زیادہ شور مچاتے ہیں کہ فلاں چور کو پکرا جائے حالانکہ وہ خود اس سے بڑے چور ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی مقبولیت کی سب سے بڑی وجہ بھی یہی تھی کہ یہ کرپشن کے خاتمے کی بات کرتی تھی تو عوام ان کے جھانسے میں آگئے۔ ایک وقت آیا ہے کہ عوام کے ساتھ ساتھ ’’خواص‘‘ بھی پی ٹی آئی کو قوم کے لیے شفا سمجھ بیٹھے اور یوں یہ پارٹی اقتدار میں آگئی۔ لیکن ان کے اقتدار میں آنے سے بہت پہلے 2014ء میں پارٹی کے ایک نہایت مرکزی لیڈر جن کا شمار پارٹی کے چند بانیوں میں ہوتا ہے جن کا نام اکبر ایس بابر ہے جو پی ٹی آئی کے نائب صدر اور صوبہ بلوچستان کے پارٹی صدر بھی رہے ہیں ان کی طرف سے عدالت میں درخواست دی گئی کہ پارٹی کے فارن فنڈنگ میں جو بے ضابطگیاں ہیں ان کا حساب دیا جائے۔ اس سے پہلے جب یہ معاملہ پارٹی کے اندر انہوں نے اٹھایا تھا اور یہ میڈیا میںآیا تو اکبر ایس بابر کو پارٹی سے نکال دیا گیا مگر انصاف کے حصول کے لیے انہوں نے تن تنہا نا انصافی کا مقابلہ کیا اور ہمت نہیں ہاری وہ گزشتہ 7 سال سے فارن فنڈنگ کیس کے مدعی ہیں۔ پارٹی اس کیس سے جتنا جان چھڑاتی ہے ، اتنی ہی اس میں مزید دھنستی جا رہی ہے۔ جس پارٹی نے 70 سال کی کرپشن کا حساب لینا تھا ان کا اپنا حساب کتاب فنڈز کی خرد برد ظاہر کر رہا ہے۔
وزیراعظم عمران خان پر اس وقت اتنا پریشر اپوزیشن پارٹیوں کا نہیں جتنا فارن فنڈنگ کیس کا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی قائم کردہ سکروٹنی کمیٹی میں پارٹی کی جو رپورٹ جھوٹی ثابت ہو رہی ہے، اس پر پارٹی چیئرمین کی حیثیت سے آپ نے دستخط فرمائے ہوئے ہیں اور اگر بات اس سے آگے بڑھتی ہے تو آپ پر تاحیات نا اہلی ثابت ہونے کا پورا جواز اور مواد موجود ہے۔ قانون کا ایک پرانا مقولہ ہے کہ جو انصاف کا طالب ہو اسے خود بھی انصاف پر کاربند ہونا چاہیے اور آپ کی پارٹی کا تو نام ہی تحریک انصاف ہے۔ آپ روزانہ کی بنیاد پر سیاسی مخالفین کو گندا کرتے ہیں ان پر الزام تراشی کے بل بوتے پر حکومت میں آئے ہیں جبکہ آپ خود اسی طرح کی بدعنوانیوں میں ملوث پائے گئے بلکہ رنگے ہاتھوں پکڑے گئے ہیں اور یہ کام آپ کے کسی سیاسی مخالف نے ثابت نہیں کیا بلکہ ایک ایسے بندے کی نشاندہی پرہوا ہے جو کسی وقت آپ کا دست راست ہوا کرتا تھا۔ ہمیں نریندر مودی بہت یاد آرہا ہے جس نے گزشتہ الیکشن میں خود کو انڈیا کا چوکیدار ہونے کا خطاب دیا جس پر کانگریس کی ان کے خلاف مہم کا نعرہ یہ تھا کہ چوکیدار چور ہے۔ اب جائیں تو کہاں جائیں جب چوکیدار ہی چور ہو تو ملک کا اللہ حافظ ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی قائم کردہ سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آگئی ہے جس میں صرف 2012ء اور 2013ء کے ایک سال کے عرصے میں PTI کے کھاتوں میں 31 کروڑ روپے کا غبن سامنے آیا ہے تحریک انصاف گزشتہ 7 سال سے اس کیس میں تاخیری حربے استعمال کرتی آرہی ہے حالیہ رپورٹ پر کارروائی 9 ماہ کے التواء کے بعد شروع کی گئی ہے تحریک انصاف کی باڈی لینگوئج بنا رہی ہے کہ وہ اس کیس سے چھٹکارا چاہتے ہیں کیونکہ دستاویزی ثبوت موجود ہیں کہ پارٹی کے پاس اربوں روپے کے فنڈز میں کرپشن ہوئی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کیس کی 150 کے قریب پیشیاں ہو چکی ہیں یعنی تاریخ پر تاریخ جس میں 54 بار تحریک انصاف نے التوا کی درخواست کی ٹائم مانگا اور ٹال مٹول سے کام لیا۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف نے بار بار یہ درخواست کی عدالتی کارروائی کو خفیہ رکھا جائے یعنی اس کو پبلک نہ کیا جائے مگر الیکشن کمیشن نے کل اپنی رولنگ میں کہا کہ ہم اس کو خفیہ نہیں رکھ سکتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ یہ پارٹی نہیں چاہتی ہے کہ عوام کو حقائق کا پتہ چلے اور یہ گورننس میں شفافیت یا ٹرانسپیرنسی کے مخالف ہیں۔ یہ نہایت غیر جمہوری اور غیر اخلاقی سوچ ہے کہ کوئی بندہ آپ پر کھلے عام بے ایمانی کا الزام لگائے اور آپ جواب دینے کے بجائے عدالت کو یہ کہیں کہ الزام کو چھپائیں یعنی خفیہ رکھیں۔ اس سے گھٹیا سیاست اور دروغ گوئی اور کیا ہو سکتی ہے یہ بات خود ظاہر کرتی ہے کہ آپ کمزور وکٹ پر ہیں۔ آپ کا کھاتہ صاف نہیں ہے اور جب آپ خود ہی ٹھیک نہیں ہیں تو آپ کسی اور کو کیسے کہہ سکتے ہیں۔
سکروٹنی کمیٹی کی رپورٹ کہتی ہے کہ پارٹی کے 65 اکاؤنٹ تھے جن میں سے 53 کو چھپایا گیا 33 کروڑ روپے کا حساب کا فرق ہے۔ ایک ارب 66 کروڑ میں سے ایک ارب 33 کروڑ ظاہر کئے گئے۔ تین بینک اکاؤنٹ بھی چھپائے گئے۔ نیوزی لینڈ بینک کا معاملہ بھی واضح نہیں ہو سکا۔ درخواست گزار اکبر ایس بابر نے رپورٹ جاری ہونے کو حق کی فتح قرار دیا ہے اور کمیشن سے کہا ہے کہ پارٹی سے جواب مانگا جائے جس کا مطلب یہ ہے کہ پارٹی سربراہ کو جو کہ اس کا ذمہ دار ہے اس سے جواب طلب کیا جائے۔
اس رپورٹ سے پارٹی کی ساکھ بری طرح تباہ ہوئی ہے اور پارٹی اپنی اقتدار کی مجبوریوں اور غیر مرئی دباؤ کے مزید تھلے لگ گئی ہے جس وجہ سے یہ لوگ مزید عوام مخالف اورغیر مقبول فیصلے کریں گے اور اقتدار سے چمٹے رہنے کے لیے سب کچھ کرنے پر تیار ہوں گے۔ اگر الیکشن کمیشن نے کسی دباؤ کا اثر نہ لیا اور تاخیری حربوں کو نظر انداز کر دیا تو یہ پارٹی اقتدار سے محروم ہو سکتی ہے معاملات تقریباً ثابت ہو چکے ہیں صرف ضابطے کی کارروائی باقی ہے۔ لیکن صرف یہاں فیصلے عوام کے مفاد میں نہیں بلکہ وسیع تر قومی مفاد کے پردوں میں ہوتے ہیں۔
ضمنی طور پر یہ عرض کرنا بے محل نہیں ہو گا کہ یہ وہ پارٹی ہے جو توشہ خانہ ریفرنس میں بھی یہ مؤقف رکھتی ہے کہ ہم عدالت کو نہیں بتائیں گے کہ وزیراعظم کو ملنے والے سیاسی تحائف کی تفصیلات کیا ہیں۔
اسی اثنا میں وزیراعظم کی ٹیکس تفصیلات سامنے آئی ہیں آپ نے 2017ء میں یعنی حکومت میں آنے سے پہلے ایک لاکھ 3 ہزار روپے ٹیکس دیا مگر 2019ء میں آپ جب سے اقتدار میں آئے ہیں تو آپ کی آمدنی اتنی بڑھ گئی ہے کہ آپ نے 98 لاکھ 54 ہزار ٹیکس دیا ہے کیا اس آمدنی کی تفصیلات پبلک کی جا سکتی ہیں۔
ایک اہم بات کا ذکر کرنا ہم بھول گئے ہیں کہ سکروٹنی کمیٹی رپورٹ میں یہ انکشاف بھی موجود ہے کہ پی ٹی آئی کے تنخواہ دار ملازمین کے ذاتی اکاؤنٹس میں پیسے منتقل کیے جاتے رہے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے فالودے والا ، قلفی والا اور چینی والا کی مثالیں کافی ہیں۔ گویا یہ فالودے والا کیریکٹر ہر پارٹی میں ہوتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.